اتوار، 11 اپریل، 2021

نماز میں کوئی چیز نگل لینے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! افطاری کے فوراً بعد مغرب کے لئے بھاگنا پڑتا ہے، اکثر دانتوں میں کچھ کھانے کی چیزیں اٹکی رہتی ہیں جوکہ دوران نماز زبان لگانے سے نکل ہی جاتی ہیں، کیا انہیں نگل لینا چاہیے یا ہاتھ سے نکال لینا بہتر ہے؟ اور یہ کہ نماز پر کوئی اثر ہوگا؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر دانت میں غذا اٹکی رہ گئی اور وہ چنے کے برابر ہے تو اس کے نگلنے سے نماز فاسد ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر وہ چنے سے چھوٹی ہو مگر اتنی سخت ہو کہ اسے دانت سے چبانا پڑے تو بھی نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر معمولی سی شئ ہو جو محض زبان پھیرنے سے تھوک کے ساتھ حلق میں چلی جائے تو نماز نہیں ٹوٹے گی۔

لہٰذا سب سے پہلے کوشش تو یہی ہو کہ خوب اچھی طرح منہ صاف کرکے نماز میں شامل ہوا جائے۔ لیکن اگر کبھی نماز میں دانت میں اٹکی ہوئی کوئی قابل ذکر چیز نکل جائے تو اسے نگلنے کے بجائے معمولی سی حرکت کے ذریعے ہاتھ سے نکال لینا چاہیے۔ کیونکہ نگل لینے میں مذکورہ بالا مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عن عطاء أنہ قال : لا یأکل ولا یشرب وہو یصلي، فإن فعل أعاد۔ (المصنف لعبد الرزاق، المکروہات / باب الکلا في الصلاۃ ۲؍۳۳۲ رقم: ۳۵۷۹، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۲۳۵ رقم: ۲۲۷۱ زکریا)

وکذا أکلہ وشربہ مطلقاً ولو سمسمۃ ناسیاً (درمختار) ومثلہ ما أوقع في فیہ قطرۃ مطر فابتلعہا۔ (شامي ۲؍۳۸۲ زکریا، مراقي الفلاح ۱۷۷، البحر الرائق ۲؍۱۱، بدائع الصنائع ۱؍۵۵۴، حاشیۃ الطحطاوي ۳۲۳)

ویفسدہا أکل ما بین أسنانہ إن کان کثیر وہو أي الکثیر قدر الحمّصۃ ولو بعمل قلیل لإمکان الاحتراز عنہ، بخلاف القلیل بعمل القلیل؛ لأنہ تبع لریقہ وإن کان بعمل کثیر فسد بالعمل۔ (مراقي الفلاح)

وقال الطحطاوي: کان مضغہ مرات۔ (طحطاوي علی المراقي ۱۷۷، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۰۲، بدائع الصنائع ۱؍۵۵۴، حاشیۃ الطحطاوي ۳۲۴/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 شعبان المعظم 1442

5 تبصرے: