بدھ، 28 اپریل، 2021

عشاء پڑھے بغیر تراویح اور وتر ادا کرلینے کا حکم

سوال :

زید نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور تراویح میں شامل ہوگیا اور امام کے ساتھ وتر بھی پڑھ لی تو کیا زید کی تراویح اور وتر ادا ہوگئی یا پھر عشاء پڑھ کر تراویح اور وتر پڑھنی ہوگی؟
(المستفتی : حافظ عتیق، واگلہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تراویح عشاء کے تابع ہے۔ لہٰذا زید پر ضروری تھا کہ وہ عشاء کی چار رکعت فرض پڑھنے کے بعد ہی تراویح میں شامل ہوتا۔ فرض نماز ادا کیے بغیر تراويح ادا نہیں ہوگی۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں تراویح کا اعادہ کیا جائے گا۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر اگرچہ عشاء کے تابع نہیں ہے، بلکہ مستقل ایک نماز ہے۔ لیکن اس میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے، یعنی عشاء کے بعد ہی وتر پڑھنا چاہیے، لہٰذا اگر کسی نے قصداً وتر عشاء سے پہلے پڑھ لی جیسا کہ سوال نامہ میں زید نے کیا ہے تو اس کی وتر بھی ادا نہیں ہوئی، لہٰذا وہ تراویح کے ساتھ ساتھ وتر کا بھی اعادہ کرے گا۔

نوٹ : اگر بھول کر کوئی شخص وتر عشاء سے پہلے پڑھ لے یا کسی کی عشاء کی نماز فاسد ہوگئی ہو تو پھر ایسی صورت میں وتر کا اعادہ واجب نہیں ہوگا۔

وعند أبي حنیفۃ : وقتہ وقت العشاء، فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء أجاب بقولہ: إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر یعني إذا لم یکن ناسیا للترتیب، وعلی ہذا إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء، ثم تذکر لا یعیدہ؛ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب، ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا، فکذلک الوتر۔ (عنایۃ علی الفتح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر، زکریا ۱/ ۲۲۶)

إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلی العشاء، وہو ذاکر لذلک لم یجز بالإتفاق۔ وفي الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضوء، ثم توضأ وصلی السنۃ والوتر، ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء یعید العشاء عندہ والسنۃ، ولا یعید الوتر، وعندہما یعید الوتر أیضا۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل ۱۰، قضاء الفائتۃ، زکریا ۲/ ۴۵۰، رقم: ۲۹۵۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1442

4 تبصرے: