پیر، 12 اپریل، 2021

کرایہ کا مکان متعینہ مدت سے پہلے خالی کرنے کی صورت میں بقیہ دنوں کا کرایہ لینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں اہل علم حضرات درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ کرایہ سے لیے ہوا دکان یا مکان عام طور پر گیارہ مہینے کا قرار نامہ بنایا جاتاہے۔اگر کرایہ دار درمیان میں ہی دکان یا مکان خالی کرے، اور مکان یا دکان کا مالک پورے گیارہ مہینے کا کرایہ کاٹ کر اس کے ڈپازٹ کی رقم اس کو واپس کرے، ایسا کرنا اس مالک مکان کے لیے درست ہوگا؟ رہنمائی فرمایئے۔
(المستفتی : عبدالقادر سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرایہ دار اور مالک مکان دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرار نامہ پر لکھے ہوئے معاہدہ کو پورا کریں، بغیر کسی معقول عذر کے دونوں کے لیے ایک دوسرے کو راضی کیے بغیر معاہدہ فسخ کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے کرایہ دار مکان خالی کردے تو مالک مکان کا کرایہ دار سے بقیہ مدت کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ فقہی اصولوں کے مطابق جس زمانہ میں کرایہ دار نے مکان سے فائدہ نہیں اٹھایا، اس مدت کا کرایہ بھی اس پر واجب نہیں ہوگا۔ اگر معقول عذر نہ ہو تب بھی ان دنوں کا کرایہ لینا مالک مکان کے لیے جائز نہیں ہے۔ البتہ ایسی صورت میں کرایہ دار وعدہ خلافی کا گناہ گار ہوگا۔ اسی طرح معاہدہ میں یہ شرط لگانا بھی جائز نہیں ہے کہ اگر کرایہ دار اپنی مرضی سے متعینہ مدت سے پہلے مکان یا دوکان خالی کردے تو اس کی طرف سے پیشگی ادا کی گئی ساری رقم ضبط ہوجائے گی۔

عن قتادۃ فیمن اکتری دابۃ إلی أرض معلومۃ، فأبی أن یخرج، قال قتادۃ : إذا أحدث نازلۃ یعذر بہا لم یلزمہ الکراء۔ (المحلي بالآثار لابن حزم ۷؍۱۰ تحت رقم المسئلۃ : ۱۲۹۲، بحوالہ: الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۵۹ زکریا)

الْإِجَارَةُ تُنْقَضُ بِالْأَعْذَارِ عِنْدَنَا وَذَلِكَ عَلَى وُجُوهٍ إمَّا أَنْ يَكُونَ مِنْ قِبَلِ أَحَدِ الْعَاقِدَيْنِ أَوْ مِنْ قِبَلِ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ وَإِذَا تَحَقَّقَ الْعُذْرُ ذُكِرَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ الْإِجَارَةَ لَا تُنْقَضُ وَفِي بَعْضِهَا تُنْقَضُ، وَمَشَايِخُنَا وَفَّقُوا فَقَالُوا: إنْ كَانَتْ الْإِجَارَةُ لِغَرَضٍ وَلَمْ يَبْقَ ذَلِكَ الْغَرَضُ أَوْ كَانَ عُذْرٌ يَمْنَعُهُ مِنْ الْجَرْيِ عَلَى مُوجَبِ الْعَقْدِ شَرْعًا تَنْتَقِضُ الْإِجَارَةُ مِنْ غَيْرِ نَقْضٍ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٤/٤٥٨)

من استأجر رجلاً لیذہب إلی البصرۃ، فیجيء بعیالہ فذہب، ووجد بعضہم قد مات، فجاء بمن بقي، فلہ الأجر بحسابہ۔ (الہدایۃ / باب الأجرۃ متی یستحق، ۳؍۲۸۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شعبان المعظم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں