اتوار، 31 مارچ، 2019

ویڈیو کالنگ کا شرعی حکم

*ویڈیو کالنگ کا شرعی حکم*

سوال :

مفتی صاحب ویڈیو کالنگ کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی ضمیر، ناسک)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر ویڈیو کال کو ریکارڈ کرکے نہ رکھا جائے تو ویڈیو کالنگ کی اجازت ہے، بشرطیکہ اس میں کسی غیرمحرم کو دیکھا اور دِکھایا نہ جائے، اس لئے کہ ویڈیو کالنگ میں مخاطب کی صورت نظر آتی ہے اور جب تک بات کی جاتی ہے، تب تک نظر آتی ہے، اور بات ختم ہونے کے بعد ختم ہوجاتی ہے، یہ تصویر نہیں ہوتی ہے، بلکہ انسان کا عکس ہوتا ہے، جیسا کہ شیشے میں نظر آتا ہے۔

أما الصورۃ التي لیس لہا ثبات واستقرار ولیست منقوشۃ علی شیئ بصفۃ دائمۃ، فإنہا بالظلأشبہ (تکملۃ فتح الملہم، باب تحریم صورۃ الحیوان، اشرفیہ دیوبند ۴/۱۶۴)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رجب المرجب 1440

کرایہ سے دئیے گئے مکان اور خالی زمین پر زکوٰۃ کا حکم

*کرایہ سے دئیے گئے مکان اور خالی زمین پر زکوٰۃ کا حکم*

سوال :

مفتی محترم! زید صاحب نصاب ہے، اسکے دو پلاٹ ہیں جس میں سے ایک پلاٹ پر پترے کا شیڈ ہے جو کرایہ سے دیا گیا ہے اور دوسرے پلاٹ پر کوئی تعمیر نہیں ہے، یہ خالی پڑا ہوا ہے۔ کیا زید پر دونوں پلاٹ کی زکوٰۃ واجب ہے؟ رہنمائی فرمائیں ۔
(المستفتی : محمد زاہد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق : اموال میں زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے اس میں دو صفتوں میں سے ایک صفت کا پایا جانا ضروری ہے۔

١) اس مال کا مالِ نامی ہونا۔ یعنی اس میں نمو وبڑھوتری کا پایا جانا، اور شریعت مطھرہ نے صرف سونا، چاندی، اور نقد رقم کو مالِ نامی تسلیم کیا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی مال خواہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو وہ مالِ نامی نہیں ہے۔

٢) اس مال کا مالِ تجارت ہونا۔ تجارت کی نیت سے خریدے گئے ہر مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

صورت مسئولہ میں کرایہ سے دئیے گئے پلاٹ میں یہ دونوں صفتیں نہیں پائی جاتی، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

خالی پڑا ہوا پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہے تو اس پر زکوٰۃ ہوگی، اور اگر گھر وغیرہ بنانے کی نیت سے خریدا گیا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

وینقسم کل واحد منہما إلی قسمین : خلقی وفعلی، ہٰکذا فی التبیین۔ فالخلقی الذہب والفضۃ …، والفعلی ما سواہما ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ الخ۔ (بدائع الصنائع : ۲؍۹۲)

عن ابن عمر ؒؓ قال: لیس فی العروض زکاۃ ، إلا ماکان للتجارۃ ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ التجارۃ، ۶/۶۴، رقم: ۷۶۹۸)

ولیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ بحاجتہ الأصلیۃ۔ (شامی : ۳؍۱۷۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رجب المرجب 1440

ہفتہ، 30 مارچ، 2019

عقیدۂ تقیہ کی شرعی حیثیت

*عقیدۂ تقیہ کی شرعی حیثیت*

سوال :

"تقیہ کرنا" کی اہل سنت کے نزدیک کیا کوئی شرعی حیثیت ہے؟
یہ اہل تشیع کے یہاں تو سنا تھا لیکن کل ایک سادھوی کا بیان سنا کہ سارے مسلمانوں کے یہاں تقیہ کر کے ہندوؤں کو دھوکا دینا کار ثواب ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سلطان، کراڈ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : روافض کے نزدیک تقیہ یہ ہے کہ اپنے عقائد کو چھپایا جائے اور عقائد و اعمال میں بظاہر اہلِ سنت کی موافقت کی جائے۔

شیعوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ ۳۰ برس تک اہل سنت کے دین پر عمل کرتے رہے اور انہوں نے شیعہ مذہب کے کسی مسئلہ پر بھی کبھی عمل نہیں فرمایا، یہی حال ان باقی حضرات کا رہا جن کو شیعہ ائمہ معصومین مانتے ہیں، تقیہ کی ایجاد کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ شیعوں پر یہ بھاری الزام تھا کہ اگر حضرت علی اور ان کے بعد کے وہ حضرات جن کو شیعہ ائمہ معصومین کہتے ہیں ان کے عقائد وہی تھے جو شیعہ پیش کرتے تھے تو یہ حضرات، مسلمانوں کے ساتھ شیر و شکر کیوں رہے؟ اور سوادِ اعظم اہل سنت کے عقائد و اعمال کی موافقت کیوں کرتے رہے؟ شیعوں نے اس الزام کو اپنے سر سے اتارنے کے لئے "تقیہ" اور "کتمان" کا نظریہ ایجاد کیا، مطلب یہ کہ یہ حضرات اگرچہ ظاہر میں سوادِ اعظم (صحابہ و تابعین اور تبع تابعین) کے ساتھ تھے، لیکن یہ سب کچھ "تقیہ" کے طور پر تھا، ورنہ در پردہ ان کے عقائد عام مسلمانوں کے نہیں تھے، بلکہ وہ شیعی عقائد رکھتے تھے اور خفیہ خفیہ ان کی تعلیم بھی دیتے تھے، مگر اہلِ سنت کے خوف سے وہ ان عقائد کا برملا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ظاہر میں ان کی نمازیں خلفائے راشدین اور بعد کے ائمہ کی اقتدا میں ہوتی تھیں، لیکن تنہائی میں جاکر ان پر تبرا بولتے تھے، ان پر لعنت کرتے تھے، اور ان کو ظالم و غاصب اور کافر و مرتد کہتے تھے، پس کافروں اور مرتدوں کے پیچھے نماز پڑھنا بربنائے "تقیہ" تھا، جس پر یہ اکابر عمل پیرا تھے۔

شیعوں کے "تقیہ" اور "کتمان" کے طرز عمل کو اہل سنت والجماعت نفاق سمجھتے ہیں، یہ ایسا ہی جیسے منافقین اپنے عقائدِ باطلہ کو اہل اسلام کے سامنے چھپایا کرتے تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیاکرتے تھے۔ جس کا نام شیعہ نے تقیہ رکھ چھوڑا ہے، ہم ان اکابر کو "تقیہ" کی تہمت سے بری سمجھتے ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ ان اکابر کی پوری زندگی اہل سنت کے مطابق تھی، وہ اسی کے داعی بھی تھے، شیعہ مذہب پر ان اکابر نے ایک دن بھی عمل نہیں کیا۔

درج بالا تفصیلات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سادھوی کی بات بالکل غلط ثابت ہوتی ہے، اس لئے کہ تقیہ صرف شیعوں کے یہاں ہے، اور وہ بھی شیعہ اہل سنت کے مقابلے میں کرتے ہیں، جبکہ ہندوستان میں اہلِ سنت کی کثرت ہے، اور اہلِ سنت کے یہاں ایسے کسی تقیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کسی بھی انسان کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم دھوکہ دینا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔

عن ابی جعفر علیہ السلام التقیۃ فی کل ضرورۃ وصاحبہا اعلم بہا حین تنزل بہ، (اصول کافی ص:۲/۲۱۹، کتاب الایمان والکفر، مطبوعہ دارالکتب الاسلامیۃ تہران، منہاج السنۃ ص:۱/۱۵۹، مطلب ان التقیۃ من اصول دین الرافضۃ، مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
مستفاد : آپ کے مسائل اور ان کا حل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رجب المرجب 1440

جمعرات، 28 مارچ، 2019

دونوں خطبوں کے درمیان دعا کرنے کا حکم

*دونوں خطبوں کے درمیان دعا کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان دعا مانگنا کیسا ہے؟ اس کے تعلق سے کوئی حدیث بھی ہے؟ اور اگر مانگنا ہے تو کس طرح مانگی جائے؟ رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کی جائز تمناؤں کو پورا فرمائے۔
(المستفتی : عبدالعزيز، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کے دونوں خطبوں کا درمیانی وقفہ قبولیتِ دعا  کا وقت ہے۔

حضرت ابی بردہ ابن ابی موسی راوی ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم (حضرت ابوموسی) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو جمعے (کے دن) کی ساعت قبولیت کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ساعت (خطبے کے لئے) امام کے منبر پر بیٹھنے اور نماز پڑھی جانے تک کا درمیانی عرصہ ہے۔(١)

چنانچہ اس سے مراد علماء نے دونوں خطبوں کے درمیان کے وقفہ کو بھی بتایا ہے، لہٰذا اس وقت دعا کرلینا چاہیے، لیکن اس وقت دل دل میں دعا کرنی چاہئے، زبان سے کوئی کلمہ ادا نہ کریں، اور ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا مکروہ ہے۔(٢)

١) عَنْ اَبِیْ بُرْدَ ۃَ بْنِ اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ سَمِعْتُ اَبِیْ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقُوْلُ فِیْ شَانِ سَاعَۃِ الْجُمُعَۃِ ھِیَ مَا بَینَ اَنْ یَجْلِسَ الْاِمَامُ اِلٰی اَنْ تُقْضَی الصَّلٰوۃُ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر : 853)

٢) وسئل علیہ الصلاۃ والسلام عن ساعۃ الإجابۃ، فقال: ما بین جلوس الإمام إلی أن یتم الصلاۃ وہو الصحیح۔ (درمختار) قال فی المعراج: فیسن الدعاء بقلبہ لا بلسانہ لأنہ مامور بالسکوت۔ (شامی : ۳؍۴۲)

ولا یجوز للقوم رفع الیدین ولا تأمین باللسان جھراً الخ ۔ (شامی : ۲/۱۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 رجب المرجب 1440

سینے اور ہاتھ پیر کے بال صاف کرنے کا حکم

*سینے اور ہاتھ پیر کے بال صاف کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب پوچھنا یہ تھا کہ جو سینے اور ہاتھوں کے بال نکالتے ہیں یہ صحیح ہے یا نہیں ہے؟
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر سینے پر تھوڑے بہت بال ہوں تو اُنہیں صاف کرنا خلافِ ادب اور فضول کام ہے، اس لئے کہ ایک مرتبہ صاف کرلیا جائے تو بار بار اس کی ضرورت پڑے گی، اور ایک فضول کام میں وقت اور مال ضائع ہوگا، لہٰذا اس سے بچنا بہتر ہے۔

البتہ اگر بال بہت زیادہ ہوجائیں جس سے اُلجھن اور تکلیف ہو تو اِن غیر ضروری بالوں کو صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

وفي حلق شعر الصدر والظہر ترک الأدب کذا في القنیۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/۳۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 رجب المرجب 1440

بدھ، 27 مارچ، 2019

بلاعذر تین جمعہ ترک کردینے کا حکم

*بلاعذر تین جمعہ ترک کردینے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرم اس مسئلے کے بارے میں کہ لگاتار تین جمعہ کی نماز نہ  پڑھنے پر ایمان باقی رہیگا اس مسئلے کو لیکر بہت سارے احباب کشمکش میں ہیں  رہنمائی مع دلیل فرماکر شکریہ کا موقع عنایت کریں۔
(المستفتی : حافظ شہباز داعی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدّد احادیث میں بلاعذر تین جمعہ ترک کردینے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تین جمعے محض سستی اور کاہلی کی وجہ سے چھوڑ دئیے تو اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر لگادیں گے۔(١)

ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگوں کو جمعہ کے چھوڑنے سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ انکے دِلوں پر مہر کردیں گے، پھر وہ غافلين میں سے ہوجائیں گے۔(٢)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بغیر کسی مجبوری کے جمعہ کی نماز چھوڑے گا اور وہ اللہ کے اس دفتر میں جس میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا منافق لکھا جائے گا ۔ اور بعض روایات میں تین دفعہ چھوڑنے کا ذکر ہے۔(٣)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تین جمعہ پے در پے چھوڑ دئیے، اس نے اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا۔(٤)

درج بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ جمعہ کا بلاعذر ترک کردینا سخت ترین گناہِ کبیرہ ہے، جس کی وجہ سے دِل پر مہر لگ جاتی ہے، اور خیر کے قبول کرنے کی صلاحیت کم یا ختم ہوجاتی ہے، تاہم ایسے شخص کو منافق کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اسلام سے خارج اور کافر ہوجاتا ہے، بلکہ یہ روایات زجر وتوبیخ پر محمول ہیں، مقصد یہ ہے کہ یہ منافقوں کا سا عمل ہے جو کسی مومن کے شایان شان نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو اس گناہِ کبیرہ سے ندامت کے ساتھ سچی پکی توبہ کرنا چاہیے، اگر توبہ کرلیتا ہے تو یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا۔

١) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبِيدَةُ بْنُ سُفْيَانَ الْحَضْرَمِيُّ ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ - وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ۔ (ابوداؤد، حدیث 1052)

٢) أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ : " لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر865)

٣) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ كُتِبَ مُنَافِقًا فِي كِتَابٍ لَا يُمْحَى وَلَا يُبَدَّلُ » وَفِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ : « ثَلَاثًا » (رواه الشافعى)

٤) من تركَ الجمعةَ ثلاثَ جمعٍ متوالياتٍ فقد نبذَ الإسلامَ وراءَ ظهرِهِ۔(رواہ ابویعلیٰ، ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ٢/۱۹۳)

٥) قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ۔ (سورۃ النساء : ۱۱۶)

ان الکبیرة التی ھی غیرالکفر لاتخرج العبدالمومن من الایمان لبقاء التصدیق الذی ھو حقیقة الایمان۔(شرح العقائد :١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رجب المرجب 1440

ایک زمانہ کے بعد مہر کی ادائیگی کا حکم

*ایک زمانہ کے بعد مہر کی ادائیگی کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ عظام مندرجہ ذیل مسٔلہ کے متعلق ذید کا نکاح اج سے ٢٠ سال قبل ہوا تھا۔ زید کی بیوی کا مہر٧٠٠(سات سو روپے) طے ہوا تھا جو اس وقت ادا نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا زید اگر آج اپنی بیوی کا مہر ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے موجودہ وقت میں کتنی رقم ادا کرنا چاہیے؟ حوالہ کے ساتھ جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : یعقوب بھائی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہر کی رقم چونکہ شوہر پر قرض ہوتی ہے، اور قرض کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس صورت میں لیا گیا ہے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے ادا کیا جائے گا، مثلاً سونا چاندی کی صورت میں قرض لیا گیا ہے تو ادائیگی کے وقت اتنی ہی مقدار سونا چاندی یا اس کی قیمت کا ادا کرنا ضروری ہے، اور روپے کی شکل میں قرض لیا گیا ہے تو اتنی ہی مقدار میں روپے کا واپس کرنا ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ سات سو روپے مہر طے کی گئی تھی تو بیس سال بعد بھی زید پر سات سو روپیہ ہی ادا کرنا واجب ہے۔ البتہ اگر زید اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرنا چاہے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا مستحسن ہے۔

استقرض من الفلوس الرائجۃ فعلیہ مثلہا کاسدۃ ولا یغرم قیمتہا۔ قال الشامي: أي إذا ہلک وإلا فیرد عینہا اتفاقاً۔ (درمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض، ۷/۳۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رجب المرجب 1440

منگل، 26 مارچ، 2019

سجدہ میں پہلے پیشانی رکھی جائے یا ناک؟

*سجدہ میں پہلے پیشانی رکھی جائے یا ناک؟*

سوال :

مفتی صاحب ایک سوال یہ کرنا تھا کہ سجدہ کرتے وقت پہلے پیشانی زمین پر رکھنا چاہیے یا ناک؟ بعض لوگوں سے سنا ہے پہلے ناک رکھنا چاہیے۔
آپ رہبری فرمادیں۔
(المستفتی : محمد افضل، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سجدہ میں جاتے وقت اصل ان اعضاء کو پہلے زمین پر رکھنا مستحب ہے جو زمین سے زیادہ قریب ہوں، لہٰذا سجدہ کرتے وقت سب سے پہلے دونوں گھٹنے، پھر ناک پھر پیشانی زمین پر رکھی جائے گی، اسی طرح سجدے سے اٹھتے وقت بھی اسی ترتیب کا خیال رکھا جائے گا، پہلے پیشانی پھر ناک وغیرہ زمین سے اٹھائی جائے گی، فتاوی ہندیہ میں یہی ترتیب مذکور ہے۔

ملحوظ رہے سجدہ کرتے وقت پیشانی اور ناک زمین پر رکھنے میں مذکورہ ترتیب کا خیال رکھنا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں۔ لہٰذا اس مسئلے میں سختی کا مظاہرہ کرنا درست نہیں، جیسا کہ سوال سے گمان ہوتا ہے کہ اسے بہت اہمیت دی جارہی ہے یا اسے فرض اور واجب سمجھا جارہا ہے۔

قالوا إذا أراد السجود يضع أولا ما كان أقرب إلی الأرض فيضع ركبتيه أولا ثم يديه ثم أنفه ثم جبهته. ۔۔۔۔۔۔ وإذا أراد الرفع يرفع أولا جبهته ثم أنفه ثم يديه ثم ركبتيه قالوا هذا إذا كان حافيا أما إذا كان متخففا فلا يمكنه وضع الركبتين أولا فيضع اليدين قبل الركبتين ويقدم اليمنى على اليسرى كذا في التبيين .(الفتاوی الھندیۃ : ۱/۷۵، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها)

قال الطیبی رحمہ اللہ من أصر علیٰ أمر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ۔ (مرقاۃ، باب الدعاء فی التشہد، الفصل الأول، ۲/۳۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رجب المرجب 1440

اتوار، 24 مارچ، 2019

زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت سونے چاندی کی کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟

*زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت سونے چاندی کی کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟*

سوال :

سونے کی فی زمانہ مارکیٹ قیمت مثلاً 30،000 روپیہ ہے، سنار جب فروخت کرتا ہے تو 5000 روپیہ بنوائی کا اضافہ کرکے فروخت کرتا ہے لیکن سونا فروخت کیا جائے تو سُنار 30000 روپیہ میں خریدے گا اور بنوائی قیمت کو نظر انداز کرے گا۔
زید سونے کی زکوٰۃ کس قیمت کے مطابق ادا کرے گا؟
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سونے چاندی میں زکوٰۃ اصلاً وزن کے اعتبار سے واجب ہوتی ہے، نہ کہ سونے کی ہیئت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ (مثلاً ۴۰؍گرام سونے میں ایک گرام سونا واجب ہوگا) اب اگر اس کی ادائیگی روپیہ کے ذریعہ کرنے کا ارادہ ہے تو افضل یہ ہے کہ واجب شدہ وزن کا سونا بازار میں جتنے کا ملتا ہو اسی اعتبار سے زکوٰۃ نکالیں کہ اس میں فقراء کا نفع زیادہ ہے، لیکن اگر اپنے پاس موجود سونا بازار میں جتنے کا فروخت ہو اس کا اعتبار کرکے زکوٰۃ نکالیں گے تو بھی فرض ادا ہوجائے گا، کیونکہ شریعت کی طرف سے اصل مطالبہ اسی سونے چاندی کا ہے جو ملکیت میں فی الوقت موجود ہے، لہٰذا اسی کی فروختگی کی قیمت معتبر ہوگی۔ مثلاً بازار میں سونے کی قیمت خرید ۲۵؍ہزار روپیہ فی دس گرام ہے جب کہ ہم اگر اپنا سونا بیچنا چاہیں تو سنار ۲۳؍ہزار فی دس گرام کے حساب سے قیمت لگاتا ہے، تو ہمارے اوپر اصل زکوٰۃ  کا وجوب ۲۳؍ہزار فی دس گرام کے حساب ہی سے ہوگا، کیونکہ یہی اس کی اصل قیمت ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ زیورات کی فروختگی کے وقت سُنار جس قیمت میں زیور خریدے گا اس کا اعتبار کرتے ہوئے زید پر زکوٰۃ کا ادا کرنا واجب ہوگا، زیورات کی بنوائی کی قیمت زکوٰۃ میں بہرصورت شامل نہیں کی جائے گی۔

والمعتبر وزنہما ادائً ووجوباً۔ (درمختار ۳؍۲۲۷، البحر الرائق ۲؍۳۹۵) یعنی یعتبر ان یکون المؤدی قدر الواجب وزناً عند الامام والثانی۔ (شامی زکریا ۳؍۲۲۷، ومثلہ فی تبیین الحقائق ۲؍۷۴، طحطاوی ۷۱۷)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رجب المرجب 1440

تیرہ سال کے بچے کی امامت کا حکم

*تیرہ سال کے بچے کی امامت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کیا تیرہ سال کا لڑکا تراویح پڑھا سکتا ہے؟ تراویح پڑھانے کے لئے کتنے سال کا ہونا ضروری ہے؟ مدلل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : دین محمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک بالغ حضرات کی امامت کے لئے امام کا بالغ ہونا شرط ہے، نابالغ کی امامت بالغ مرد و عورت کے حق میں درست نہیں ہے، خواہ فرض نماز ہو یا نفل، البتہ نابالغ بچوں کے حق میں نابالغ کی امامت درست ہے۔

لڑکا بارہ سال میں بالغ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ بلوغت کی علامتوں میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ لڑکے کو احتلام ہوجائے یا اس کی  وطی سے بیوی حاملہ ہوجائے، یا اس سے منی کا خروج ہوجائے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی نہ پائی جائے تو لڑکے کی عمر پندرہ سال مکمل ہونے پر بلوغت  کا حکم لگ جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں تیرہ سال کے لڑکے میں بلوغ کی کوئی علامت احتلام وغیرہ پائی جائے تو وہ بالغ شمار ہوگا اور تراويح سمیت فرض نمازوں میں بالغ مرد و عورت کی امامت کرسکتا ہے، ورنہ نہیں۔

فلا یصح اقتداء بالغ بصبی مطلقاً سواء کان فی فرض لأن صلاۃ الصبی ولو نوی الفرض نفل، أو فی نفل لأن نفلہ لا یلزمہ أی ونفل المقتدی لازم مضمون علیہ فیلزم بناء القوی علی الضعیف۔ (طحطاوی : ۱۵۷)

أما غیر البالغ فإن کان ذکراً تصح إمامتہ لمثلہ۔ (شامی : ۲؍۳۲۱)

یحکم ببلوغ الغلام بالاحتلام أو الإنزال أو الإحبال … وببلوغ الجاریۃ بالحیض أو الاحتلام أو الحبل۔۔ فإن لم یوجد شيء من ذٰلک فإذا تم لہ ثماني عشرۃ سنۃً، ولہا سبع عشرۃ سنۃً عندہ، وعندہما إذا تم خمسۃ عشر سنۃً فیہما، وہو روایۃ الإمام، وبہ قالت الأئمۃ الثلا ثۃ، وبہ یفتی … وأدنی مدتہ لہ ثنتا عشرۃ سنۃ، ولہا تسع سنین، الخ۔ (البحر الرائق، کتاب الإکراہ، باب الحجر، فصل في حد البلوغ، ۸؍۱۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 رجب المرجب 1440

ہفتہ، 23 مارچ، 2019

میدانِ محشر کہاں قائم کیا جائے گا؟

*میدانِ محشر کہاں قائم کیا جائے گا؟*

سوال :

مکرمی مفتی صاحب میدان محشر کہاں قائم کیا جائے گا؟
میدانِ عرفات یا ملک شام؟ وضاحت فرمادیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ انس، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ بارگاہ نبوت میں عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہمیں بیت المقدس کے متعلق کچھ بتائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اٹھائے جانے اور جمع کئے جانے کا علاقہ ہے۔

ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی باندی حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھ پر زمانے کی گردش ہے لہٰذا میں چاہتی ہوں کہ عراق چلی جاؤں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شام کیوں نہیں چلی جاتی ہو وہ حشرونشر کی زمین ہے۔

مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدانِ محشر شام کے علاقہ میں قائم ہوگا، نا کہ میدانِ عرفات میں۔ اس لیے کہ بیت المقدس کے علاقہ سے مراد پورا علاقۂ شام لیا جاتا تھا جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت سے واضح ہوتا ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں جس خطۂ ارضی کو "شام" کہا گیا ہے، اس کی جغرافیائی حدود اس مملکت سے بہت وسیع ہیں جسے آج کل دنیا ملک "شام" Syria کے نام جانتی ہے، اس سے پہلے شام The Levant کے نام سے موجود خطہ ارضی میں فلسطین، اسرائیل، موجودہ شام، اردن، لبنان، سائپرس اور ترکی کا ایک صوبہ بھی شامل تھا۔ البتہ اس کی تعیین نہیں ہے کہ علاقۂ شام کے کس مقام پر میدان محشر قائم ہوگا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ قَالَ ثَنَا عِيسَى قَالَ ثَنَا ثَوْرٌ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ عَنْ أَخِيهِ أَنَّ مَيْمُونَةَ مَوْلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَقَالَ أَرْضُ الْمَنْشَرِ وَالْمَحْشَرِ ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ فَإِنَّ صَلَاةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ قَالَتْ أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يُطِقْ أَنْ يَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ أَوْ يَأْتِيَهُ قَالَ فَلْيُهْدِ إِلَيْهِ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ فَإِنَّ مَنْ أَهْدَى لَهُ كَانَ كَمَنْ صَلَّى فِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْهَرَوِيُّ قَالَ ثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ بِإِسْنَادِهِ فَذَكَرَ مِثْلَهُ. (مسند احمد، 27626)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ مَوْلَاةً لَهُ أَتَتْهُ، فَقَالَتِ : اشْتَدَّ عَلَيَّ الزَّمَانُ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الْعِرَاقِ. قَالَ : فَهَلَّا إِلَى الشَّامِ أَرْضِ الْمَنْشَرِ ؟ اصْبِرِي لَكَاعِ ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ صَبَرَ عَلَى شِدَّتِهَا، وَلَأْوَائِهَا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔(جامع ترمذی، 3918)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رجب المرجب 1440