اتوار، 24 مارچ، 2019

زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت سونے چاندی کی کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟

*زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت سونے چاندی کی کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟*

سوال :

سونے کی فی زمانہ مارکیٹ قیمت مثلاً 30،000 روپیہ ہے، سنار جب فروخت کرتا ہے تو 5000 روپیہ بنوائی کا اضافہ کرکے فروخت کرتا ہے لیکن سونا فروخت کیا جائے تو سُنار 30000 روپیہ میں خریدے گا اور بنوائی قیمت کو نظر انداز کرے گا۔
زید سونے کی زکوٰۃ کس قیمت کے مطابق ادا کرے گا؟
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سونے چاندی میں زکوٰۃ اصلاً وزن کے اعتبار سے واجب ہوتی ہے، نہ کہ سونے کی ہیئت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ (مثلاً ۴۰؍گرام سونے میں ایک گرام سونا واجب ہوگا) اب اگر اس کی ادائیگی روپیہ کے ذریعہ کرنے کا ارادہ ہے تو افضل یہ ہے کہ واجب شدہ وزن کا سونا بازار میں جتنے کا ملتا ہو اسی اعتبار سے زکوٰۃ نکالیں کہ اس میں فقراء کا نفع زیادہ ہے، لیکن اگر اپنے پاس موجود سونا بازار میں جتنے کا فروخت ہو اس کا اعتبار کرکے زکوٰۃ نکالیں گے تو بھی فرض ادا ہوجائے گا، کیونکہ شریعت کی طرف سے اصل مطالبہ اسی سونے چاندی کا ہے جو ملکیت میں فی الوقت موجود ہے، لہٰذا اسی کی فروختگی کی قیمت معتبر ہوگی۔ مثلاً بازار میں سونے کی قیمت خرید ۲۵؍ہزار روپیہ فی دس گرام ہے جب کہ ہم اگر اپنا سونا بیچنا چاہیں تو سنار ۲۳؍ہزار فی دس گرام کے حساب سے قیمت لگاتا ہے، تو ہمارے اوپر اصل زکوٰۃ  کا وجوب ۲۳؍ہزار فی دس گرام کے حساب ہی سے ہوگا، کیونکہ یہی اس کی اصل قیمت ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ زیورات کی فروختگی کے وقت سُنار جس قیمت میں زیور خریدے گا اس کا اعتبار کرتے ہوئے زید پر زکوٰۃ کا ادا کرنا واجب ہوگا، زیورات کی بنوائی کی قیمت زکوٰۃ میں بہرصورت شامل نہیں کی جائے گی۔

والمعتبر وزنہما ادائً ووجوباً۔ (درمختار ۳؍۲۲۷، البحر الرائق ۲؍۳۹۵) یعنی یعتبر ان یکون المؤدی قدر الواجب وزناً عند الامام والثانی۔ (شامی زکریا ۳؍۲۲۷، ومثلہ فی تبیین الحقائق ۲؍۷۴، طحطاوی ۷۱۷)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رجب المرجب 1440

2 تبصرے: