ہفتہ، 30 مارچ، 2019

عقیدۂ تقیہ کی شرعی حیثیت

*عقیدۂ تقیہ کی شرعی حیثیت*

سوال :

"تقیہ کرنا" کی اہل سنت کے نزدیک کیا کوئی شرعی حیثیت ہے؟
یہ اہل تشیع کے یہاں تو سنا تھا لیکن کل ایک سادھوی کا بیان سنا کہ سارے مسلمانوں کے یہاں تقیہ کر کے ہندوؤں کو دھوکا دینا کار ثواب ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سلطان، کراڈ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : روافض کے نزدیک تقیہ یہ ہے کہ اپنے عقائد کو چھپایا جائے اور عقائد و اعمال میں بظاہر اہلِ سنت کی موافقت کی جائے۔

شیعوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ ۳۰ برس تک اہل سنت کے دین پر عمل کرتے رہے اور انہوں نے شیعہ مذہب کے کسی مسئلہ پر بھی کبھی عمل نہیں فرمایا، یہی حال ان باقی حضرات کا رہا جن کو شیعہ ائمہ معصومین مانتے ہیں، تقیہ کی ایجاد کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ شیعوں پر یہ بھاری الزام تھا کہ اگر حضرت علی اور ان کے بعد کے وہ حضرات جن کو شیعہ ائمہ معصومین کہتے ہیں ان کے عقائد وہی تھے جو شیعہ پیش کرتے تھے تو یہ حضرات، مسلمانوں کے ساتھ شیر و شکر کیوں رہے؟ اور سوادِ اعظم اہل سنت کے عقائد و اعمال کی موافقت کیوں کرتے رہے؟ شیعوں نے اس الزام کو اپنے سر سے اتارنے کے لئے "تقیہ" اور "کتمان" کا نظریہ ایجاد کیا، مطلب یہ کہ یہ حضرات اگرچہ ظاہر میں سوادِ اعظم (صحابہ و تابعین اور تبع تابعین) کے ساتھ تھے، لیکن یہ سب کچھ "تقیہ" کے طور پر تھا، ورنہ در پردہ ان کے عقائد عام مسلمانوں کے نہیں تھے، بلکہ وہ شیعی عقائد رکھتے تھے اور خفیہ خفیہ ان کی تعلیم بھی دیتے تھے، مگر اہلِ سنت کے خوف سے وہ ان عقائد کا برملا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ظاہر میں ان کی نمازیں خلفائے راشدین اور بعد کے ائمہ کی اقتدا میں ہوتی تھیں، لیکن تنہائی میں جاکر ان پر تبرا بولتے تھے، ان پر لعنت کرتے تھے، اور ان کو ظالم و غاصب اور کافر و مرتد کہتے تھے، پس کافروں اور مرتدوں کے پیچھے نماز پڑھنا بربنائے "تقیہ" تھا، جس پر یہ اکابر عمل پیرا تھے۔

شیعوں کے "تقیہ" اور "کتمان" کے طرز عمل کو اہل سنت والجماعت نفاق سمجھتے ہیں، یہ ایسا ہی جیسے منافقین اپنے عقائدِ باطلہ کو اہل اسلام کے سامنے چھپایا کرتے تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیاکرتے تھے۔ جس کا نام شیعہ نے تقیہ رکھ چھوڑا ہے، ہم ان اکابر کو "تقیہ" کی تہمت سے بری سمجھتے ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ ان اکابر کی پوری زندگی اہل سنت کے مطابق تھی، وہ اسی کے داعی بھی تھے، شیعہ مذہب پر ان اکابر نے ایک دن بھی عمل نہیں کیا۔

درج بالا تفصیلات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سادھوی کی بات بالکل غلط ثابت ہوتی ہے، اس لئے کہ تقیہ صرف شیعوں کے یہاں ہے، اور وہ بھی شیعہ اہل سنت کے مقابلے میں کرتے ہیں، جبکہ ہندوستان میں اہلِ سنت کی کثرت ہے، اور اہلِ سنت کے یہاں ایسے کسی تقیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کسی بھی انسان کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم دھوکہ دینا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔

عن ابی جعفر علیہ السلام التقیۃ فی کل ضرورۃ وصاحبہا اعلم بہا حین تنزل بہ، (اصول کافی ص:۲/۲۱۹، کتاب الایمان والکفر، مطبوعہ دارالکتب الاسلامیۃ تہران، منہاج السنۃ ص:۱/۱۵۹، مطلب ان التقیۃ من اصول دین الرافضۃ، مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
مستفاد : آپ کے مسائل اور ان کا حل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رجب المرجب 1440

2 تبصرے: