جمعرات، 7 مارچ، 2019

تِیر سے شکار کئے ہوئے جانور کا حکم

*تِیر سے شکار کئے ہوئے جانور کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب کسی حلال جانور کو تیر سے شکار کیا جائے اور وہ اس کے لگنے سے ہلاک ہوجائے تو اس جانور کا کیا حکم ہوگا؟ شرعاً حلال ہے یا نہیں؟
(المستفتی : عبدالرحمن، پربھنی)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی مسلمان نے بسم اللہ پڑھ کر جانور (خواہ چوپایہ ہو یا پرندہ، چھوٹا ہو یا بڑا) پر تیر چلایا اور وہ تیر اسی جانور کو جاکر لگا اور جانور تیر ہی کے زخم سے مرا ہے کسی اور چیز کے ٹکرانے اور اوپر سے نیچے گرنے کی وجہ سے نہ مرا ہو، اِسی طرح پانی میں گر کر نہ مرا ہو، تو احادیث مبارکہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا کھانا حلال ہے۔ البتہ اگر جانور کے پاس پہنچ گئے اور وہ زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا واجب ہے، اگر شرعی طریقے پر ذبح کردیا تو جانور حلال ہوگیا، اسکا گوشت کھانا جائز ہوگا۔ لیکن اگر جانور زندہ تھا اور شرعی طریقے پر ذبح کی قدرت ہونے کے باوجود ذبح نہ کیا اور جانور مرگیا تو اس کا کھانا حلال نہیں۔

عن عدي بن حاتم رضي اللّٰہ عنہ قال: سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الصید؟ فقال: إذا رمیت سہمک فاذکر اسم اللّٰہ عزوجل، فإن وجدتہ قد قتل فکل، إلا أن تجدہ قد وقع في ماء، ولا تدري الماء قتلہ أو سہمک۔ (السنن الکبریٰ للنسائي، رقم: ۴۸۱۰)

إذا رمی باٰلۃ جارحۃ وسمیٰ إلی صید فأصابہ وجرحہ یؤکل إذا جرح لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعدي بن حاتم إذا رمیت سہمک فاذکر اسم اللّٰہ تعالیٰ علیہ، فإن وجدتہ قد قتل، فکل إلا أن تجدہ قد وقع في ماء؛ فإنہ لا تدري الماء قتلہ أو سہمک۔ (البحر الرائق : ۸؍۲۲۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الآخر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں