ہفتہ، 2 مارچ، 2019

ماہر طبیب کا بغیر ڈگری کے علاج کرنے کا حکم

سوال :

دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی ماہر طبیب کے زیر نگرانی حکمت سیکھتا ہے برسوں کی محنت طلب سے علوم حکمت حاصل کرتا ھے اس کے بعد لوگو کی خدمت کرتا ہے لیکن اس شخص کے پاس کسی کالج یا یونیورسٹی کا ڈگری سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو کیا یہ شخص، عوام کو قانون کو اور اللہ کو دھوکہ دے رہا ہے؟
ایک شخص کا ایسا کہنا ہے کہ جس شخص کے پاس ڈاکٹر کی ڈگری نا ہو اگرچہ سالوں سے مہارت کے ساتھ علاج کررہا ہے یہ شخص عوام کو قانون کو اور اللہ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جہاں تک بات ہندوستان کے قوانین کی ہے یہاں اگر ایک شخص پیسہ بھر کر سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتا ہے تو وہ قبول ہے کیونکہ اس کے پاس سرٹیفکیٹ ہے اور وہ شخص قبول نہیں جو برسوں کی محنت سے علوم طب حاصل کرتا اور پرکٹس کرتا ہے۔
اوپر مذکور ماہر طبیب کیا عوام اور اللہ کو دھوکہ دینے کا گناہ گار ہوگا؟ اگر نہیں تو اس الزام رکھنے والے شخص کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کو اپنی بات سے رجوع اور توبہ کرنی چاہیے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ابوعبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص لوگوں کا علاج کرے اور وہ علم طب (اور علاج) سے ناواقف ہو تو وہ ذمہ دار اور ضامن ہے۔

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ علاج و معالجہ کے تمام طریقوں کی بنیاد علم وتجربہ پر ہے، نہ کہ صرف سرکاری ڈگری اور سرٹیفکیٹ پر، اس لئے اگر کوئی شخص کسی بھی طریقۂ علاج خواہ یونانی ہو ایلوپیتھک ہو یا ہومیوپیتھی کی دواؤں کا واقعی علم وتجربہ رکھتا ہو، اگرچہ اُس کے پاس قانونی سرٹیفکیٹ نہ ہو تو اُس کے لئے اُس طریقہ پر علاج کرنے کی شرعاً گنجائش ہے، اور اُس سے حاصل شدہ آمدنی بھی اس کے لئے جائز ہوگی۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں جبکہ وہ شخص کسی ماہرحکیم و طبیب کی زیرنگرانی حکمت سیکھ لیتا اورصحیح طور پر علاج کرلیتا ہے تو اس کا علاج کرنا شرعاً درست ہے اگرچہ اس کے پاس ڈگری یا سرٹیفکیٹ نہ ہو۔ اس کا یہ عمل نہ تو عوام کو دھوکہ دینا ہے اور نہ حکومت اور اللہ تعالیٰ کو۔

معترض کا ایسا کہنا کہ جس شخص کے پاس ڈاکٹر کی ڈگری نا ہو اگرچہ سالوں سے مہارت کے ساتھ علاج کررہا ہے یہ شخص عوام کو قانون کو اور اللہ کو دھوکہ دے رہا ہے، قطعاً درست نہیں ہے ۔ ایسے شخص کو اپنی بات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے، اور علم کے بغیر دوسروں پر شرعی حکم لگانے کی وجہ سے ایسا شخص توبہ و استغفار بھی کرے، اور آئندہ ایسی باتوں سے مکمل طور پر اجتناب کرے۔

البتہ اگر کسی ماہرحکیم و طبیب سے علم طِب نہ پڑھا ہو اور نہ اِس علم کے نشیب وفراز اور اُصول وقواعد سے واقف ہو تو اُس کے لئے اُس طریقہ پر علاج کرنا اور اُس سے روپیہ کمانا دھوکہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔ 

اسی طرح اگر متعلقہ شعبہ میں مہارت تو ہو لیکن سرٹیفکیٹ کے  بغیر  علاج کرنے میں عزت چلے جانے اور ہلاکت میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہو تو اس سے احتیاط کرنا چاہئے کیونکہ مسلمان کو اپنی عزت خطرے میں ڈالنا بھی درست نہیں ہے، تاہم اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس کی آمدنی بہرحال حلال ہوگی۔

عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہٖ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من تطبّب ولم یعلم منہ طب فہو ضامنٌ ۔ (سنن ابن ماجۃ، رقم : ۳۴۶۶)

والکذب محظور إلا في القتال للخدعۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب السابع عشر، ۵؍۳۵۲)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من غش فلیس منا، انتہی الحدیث، قال الترمذي: والعمل علی ہٰذا عند أہل العلم کرہوا الغش، وقالوا: الغش حرام۔ (سنن الترمذي : ۱؍۲۴۵)

وہٰذا لأنہ إذا کان الأخذ علی الشرط کان المال بمقابلۃ المعصیۃ فکان الأخذ معصیۃ ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس عشر في الکسب، ۵؍۳۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 محرم الحرام 1440

1 تبصرہ: