اتوار، 10 مارچ، 2019

خواتین کا آپس میں مصافحہ و معانقہ کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مصافحہ اور معانقہ کی فضیلت صرف مردوں کے لئے ہیں یا عورتوں کے لئے بھی مشروع ہیں؟ یعنی عورتیں دوسری عورتوں سے مصافحہ اور معانقہ کرسکتی ہیں؟
(المستفتی : محمد ذاکر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس طرح ایک مرد دوسرے مرد سے  مصافحہ  ومعانقہ کرسکتا ہے، اسی طرح ایک عورت دوسری عورت سے مصافحہ  ومعانقہ کرسکتی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ بھی کرتے ہیں، تو الگ ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں اور عورتوں کی کوئی تفریق نہیں فرمائی ہے، اور نہ ہی فقہاء کرام نے فرق کیا ہے، لہٰذا عورتیں بھی آپس میں مصافحہ ومعانقہ کرسکتی ہیں۔

عن البراء رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان إلا غفر لہما قبل أن یفترقا۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۲۷۳۰)

أطلق الفقہاء القول بسنیۃ المصافحۃ ، ولم یقصروا ذلک علی ما یقع منہا بین الرجال، إنما استثنوا مصافحۃ الرجل للمرأۃ الأجنبیۃ، فقالوا بتحریمہا ، ولم یستثنوا مصافحۃ المرأۃ للمرأۃ من السنیۃ، فیشملہا ہذا الحکم ، وقد صرح بذلک الشربینی الخطیب، فقال : وتسن مصافحۃ الرجلین والمرأتین، واستدل لذلک بأنہ المستفاد من عموم الأحادیث الشریفۃ فی الحث علی المصافحۃ، مثل قول الرسول : ’’ ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان إلا غفر لہما قبل أن یفترقا ‘‘۔ وما روی عن حذیفۃ بن الیمان عن النبی ﷺ قال :’’ إن المؤمن إذا لقی المؤمن فسلم علیہ وأخذ بیدہ فصافحہ تناثرت خطایاہما کما یتناثر ورق الشجر‘‘۔ فہذہ الأحادیث عامۃ فی کل مسلمین یلتقیان وتشمل بعمومہا المرأۃ تلاقی المرأۃ فتصافحہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، ۳۷/۳۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رجب المرجب 1440

1 تبصرہ: