منگل، 12 مارچ، 2019

خود اپنا عقیقہ کرنے کا حکم

*خود اپنا عقیقہ کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! اگر کسی کا عقیقہ بچپن میں نہ ہوا ہوتو کیا وہ بڑے ہونے کے بعد اپنا عقیقہ خود کرسکتا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالرحیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عقیقہ کرنا مسنون و مستحب ہے، اس کے کرنے سے بچہ کی حفاظت اور مشکلات ومصائب سے بچنے کا اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے انتظام ہوتا ہے۔ اور والد کے ذمہ اپنے لڑکے یا لڑکی کا عقیقہ کرنا، بلوغت سے پہلے، ساتویں دن، چودہویں دن، یا اکیسویں دن مستحب ہے۔ بلوغت کے بعد اگرچہ عقیقہ والد کے ذمہ باقی نہیں رہتا بلکہ ساقط ہوجاتا ہے، تاہم بلوغت کے بعدوالد یا  کوئی رشتہ دار یا شوہر اپنی طرف سے اپنی بیوی کا یا پھر لڑکی یا لڑکا خود اپنا عقیقہ کرلیں تو درست ہوجائے گا، البتہ مستحب وقت کی فضیلت حاصل نہ ہوگی۔


عَن سمرۃ بن جندبعَ،عنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُذْبَحَ عَنِ الْغُلَامِ الْعَقِيقَةُ يَوْمَ السَّابِعِ، فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ يَوْمَ السَّابِعِ فَيَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ، فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عُقَّ عَنْهُ يَوْمَ حَادٍ وَعِشْرِينَ، وَقَالُوا : لَا يُجْزِئُ فِي الْعَقِيقَةِ مِنَ الشَّاةِ إِلَّا مَا يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٥٢٢)

فَنَقَلَ الرّافِعِيُّ أنَّهُ يَدْخُلُ وقْتُها بِالوِلادَةِ قالَ وذِكْرُ السّابِعِ فِي الخَبَرِ بِمَعْنى أنْ لا تُؤَخَّرَ عَنْهُ اخْتِيارًا ثُمَّ قالَ : والِاخْتِيارُ أنْ لا تُؤَخَّرَعَنِ الْبُلُوْغِ فَإنْ أُخِّرَتْ عَنِ الْبُلُوْغِ سَقَطَتْ عَمَّنْ كانَ يُرِيدُ أنْ يَعُقَّ عَنْہُ لَكِنْ إنْ أرادَ أنْ يعق عَن نَفسه۔ (فتح الباری :٩/٥٩٤)فقط

واللہ تعالٰی اعلم 

محمد عامر عثمانی ملی 

04 رجب المرجب 1440

2 تبصرے:

  1. جزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء ،بہت عمدہ مفتی صاحب ،اللہ تبارک و تعالٰی آپ کو دارین کی ہر خیر عطا فرمائے اور شر سے حفاظت فرمائے، آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں