*اسٹاف کی نامحرم خواتین سے سلام کلام کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب! غیرمحرم سے سلام کلام کا حکم کیا ہوگا ۔اسٹاف میں رہتے ہوئے ایسے مواقع سامنے آتے رہتے ہیں ۔
(المستفتی : محمدمصطفے، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوستان میں چونکہ اب ایسے خال خال ہی شعبہ جات ہوں گے جہاں مردوں کے ساتھ خواتین کام نہ کرتی ہوں، چنانچہ جہاں ایسی صورت ہو کہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اسٹاف کا حصہ ہوں وہاں دونوں کو بہت ہی احتیاط اور پردے کی رعایت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
احادیث مبارکہ میں آتا ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھیں (زنا کرتی ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے، اور کان (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کی بات سننا ہے، اور زبان (زنا کرتی ہے) کہ اس کا زنا نامحرم کے ساتھ بولنا ہے، اور ہاتھ بھی (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو چھونا ہے۔ (مسلم : ۴/ ۳۳۶، کتاب القدر باب قدر علی ابن ادم حظہ، من الزنا وغیرہ)
حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ہدایت فرمائی کہ اے علی ! نگاہ کے بعد نگاہ نہ ڈالو کہ نگاہ اول (بلا ارادہ کے اچانک نظر) قابل عفو ہے، دوسری نظر (جو قصداً ہو) معاف نہیں۔(ابوداؤد، بحوالۂ مشکوٰۃ : ص ۲۶۹)
لہٰذا بلاضرورتِ شدیدہ غیرمحرم خواتین سے بات کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر ضرورت کے وقت بات کرنے کی نوبت آجائے تب بھی ان کی طرف نظر کئے بغیر بات کی جائے۔
اسی طرح مرد کے لئے نامحرم عورتوں کو اور عورتوں کے لئے نامحرم مردوں کو سلام کرنا ممنوع ہے۔ اور اگر کوئی خاتون پہل کردے تو بغیر آواز کے آہستہ سے جواب دیا جائے۔ البتہ بوڑھی عورت کو سلام کرنے اور اسے باآواز جواب دینے کی گنجائش ہے۔
قال ابن عابدین:قولہ : وإلا لا: أي وإلا تکن عجوزًا؛ بل شابةً لا یشتمہا ولا یرد السلام بلسانہ - وقال نقلاً عن الخانیة: إذا سلمت المرأة الأجنبیة علی رجل، إن کانت عجوزًا ردّ الرجل عیہا السلام بلسانہ بصوت تسمع، وإن کانت شابةً، ردّ علیہا في نفسہ۔ (الدر المختار مع رد المحتار : ۹/ ۴۴۹- ۴۵۰، کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
01 صفر المظفر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں