ہفتہ، 2 مارچ، 2019

کتا پالنے سے متعلق احکامات

*کتا پالنے سے متعلق احکامات*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کتا پالنا کیسا ہے؟ شریعت کس صورت میں کتا رکھنے کی اجازت دیتی ہے؟ اگر کوئی آدمی شوق کے لیے شکاری کتا رکھے تو وہ کیا شریعت اسکی اجازت دیتی ہے؟ برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : جاویداحمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث مبارکہ میں کتا پالنے کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔

حضرت ابوطلحہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو اور نہ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں کتا ہو۔

لاتدخل الملائکۃ بیتا فیہ کلب و لا تصاویر۔ (بخاری شریف، کتاب اللباس، باب التصاویر ۲/۸۸۰، رقم: ۵۷۱۶، ف: ۵۹۴۹)

اسی طرح دوسری حدیث میں آیا ہے :

حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جوشخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے اور شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالتا ہے اس کے اعمال (کے ثواب) میں سے روزانہ دو قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے۔

من اقتنی کلبا إلا کلب ماشیۃ أو ضاري، نقص من عملہ کل یوم قیراطان ۔ (مسلم شریف کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب الأمر یقتل الکلاب النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۱، بیت الأفکار رقم: ۱۵۷۴)

ذکر کردہ روایات سے معلوم ہوا کہ شوقیہ کتا پالنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کتا ایک نجس جانور ہے، اس لیے اس کو گھر میں رکھنا، اس کو اپنے ساتھ گھمانا پھرانا، جیسا کہ مغرب زدہ طبقے میں رائج ہے، شرعاً ممنوع ہے، اِس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر واقعی چوروں کا شدید خوف ہے اور کتا پالنے سے جان و مال کی حفاظت ممکن ہو تو ایسی صورت میں کتا پالنے کی گنجائش ہے، تاہم اس میں بھی حد درجہ احتیاط ضروری ہے۔ اسی طرح شکار کے لیے بھی کتا پالنا جائز ہے، لیکن شکاری کتے کو شوقیہ اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔

وفی الأجناس لاینبغی أن یتخذ کلبا إلا أن یخاف من اللصوص أو غیرہم ویجب أن یعلم بأن اقتناء الکلب لأجل الحرس جائز شرعاً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، ۵/۳۶۱)

إن جواز اقتناء کلب الصید والماشیۃ والزرع ثابت بأحادیث صحیحہ۔ (تکملۃ فتح الملہم ۱؍۵۳۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 صفر المظفر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں