جمعرات، 14 مارچ، 2019

ٹیٹو بنوانے اور اس پر وضو اور غسل کا حکم

*ٹیٹو بنوانے اور اس پر وضو اور غسل کا حکم*

سوال :

بدن پر ٹیٹو بنوانا کیسا ہے؟ اگر کسی نے بچپن یا جوانی میں ٹیٹو بنوا لیا اب وہ چھوٹ نہیں رہا ہے تو اس پر وضو اور غسل کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی اس کی تمام صورتوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں ۔
(المستفتی : مولانا ابراہیم ہزاری، بمبئ)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بدن پر ٹیٹو بنوانا ناجائز اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدن گودنے والی گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔

عن ابن عمر قال : لعن النبي ﷺ الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ۔ (صحیح بخاری، حدیث : ۵۹۴۷)

حدیث شریف میں وشم کا ذکر آیا ہے جس کے لغوی معنی گوندھنے کے آتے ہیں، قدیم عرب میں لوگ سوئی وغیرہ سے جسم کی کھال کو کھرچتے تھے اور جب اس سے خون ظاہر ہوتا تو اس پر سرمہ وغیرہ ڈالدیتے تھے، موجودہ دور میں ٹیٹو کی ایک قسم کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے، مزید یہ کہ اس عمل میں غیرقوموں کی مشابہت پائی جاتی ہے، اسی طرح مال کا فضول ضیاع اور جسم کو بلا ضرورت تکلیف بھی پہنچتی ہے۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

ٹیٹو مختلف قسم کا ہوتا ہے، اور اس کی تمام قسمیں ناجائز ہیں، اگر کسی نے ٹیٹو بنوالیا ہے تو اس پر توبہ و استغفار کے ساتھ حتی الوسع اس کے چھڑانے کی کوشش کرنا ضروری ہے، ذیل میں اس کی تمام قسمیں اس میں وضو اورغسل کے حکم کے ساتھ ذکر کی جاتی ہیں۔

١) اگر وہ جلد کو گندھوا کر بنایا گیا ہے تو وہ جلد ہی کے حکم میں ہوگا، لہٰذا اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسلِ واجب درست ہوجائے گا۔

٢) اگر ایسا رنگ لگاکر بنوایا ہے جو مہندی کی طرح بدن کا حصہ بن جاتا ہے اور رنگ کی تہہ یا پرت نہیں بنتی تو اس کے ہوتے ہوئے بھی وضو اور غسل درست ہوگا۔

٣) اگر ایسے رنگ سے بنوایا ہے جس کی تہہ اور پرت بن گئی ہوتو وضو اور واجب غسل کے وقت اس کا چھڑانا ضروری ہے، اس کے ہوتے ہوئے وضو اورغسل صحیح نہ ہوگا، ویسے آج کل بازاروں میں ایسے کیمیکل دستیاب ہیں جن سے یہ ٹیٹو صاف ہوجاتے ہیں۔

البتہ اگر ایسا کیمیکل اس وقت موجود نہ ہو جس سے ٹیٹو کی پرت صاف ہوسکتی ہو اور کوشش کے باوجود وہ رنگ نہ اتر رہا ہو اور دوسری طرف نماز کے فوت ہوجانے کا خطرہ ہو یا ایسا پرت دار ٹیٹو جو دائمی ہو کسی صورت نکل نہ سکتا ہوتو ان صورتوں میں مجبوری کی وجہ سے وضو اور غسلِ واجب درست ہوجائے گا۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔(بنی اسرائیل، آیت : ۲۷)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد ۲؍٢٥١)

الغسل إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن غسلہ من بدنہ مرۃ واحدۃ حتی لو ترک شیئا یسیرا لم یصبہ الماء لم یخرج من الجنابۃ وکذا في الوضوء ۔(بدائع الصنائع : ۱/۱۱۱)

وإن کان علی ظاھر البدن جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف فاغتسل ولم یصل الماء إلی ما تحتہ لایجوز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۳)

أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ إلی نحو الصابون۔ (مجمع الأنہر : ۱؍۹۰)

والمراد بالأثر اللون والریح، فإن شق إزالتہما سقطت۔ (البحر الرائق : ۱؍۲۳۷)

وَفِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ سُئِلَ أَبُو الْقَاسِمِ عَنْ وَافِرِ الظُّفُرِ الَّذِي يَبْقَى فِي أَظْفَارِهِ الدَّرَنُ أَوْ الَّذِي يَعْمَلُ عَمَلَ الطِّينِ أَوْ الْمَرْأَةِ الَّتِي صَبَغَتْ أُصْبُعَهَا بِالْحِنَّاءِ، أَوْ الصَّرَّامِ، أَوْ الصَّبَّاغِ قَالَ كُلُّ ذَلِكَ سَوَاءٌ يُجْزِيهِمْ وُضُوءُهُمْ إذْ لَا يُسْتَطَاعُ الِامْتِنَاعُ عَنْهُ إلَّا بِحَرَجٍ وَالْفَتْوَى عَلَى الْجَوَازِ مِنْ غَيْرِ فَصْلٍ بَيْنَ الْمَدَنِيِّ وَالْقَرَوِيِّ. كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ وَكَذَا الْخَبَّازُ إذَا كَانَ وَافِرَ الْأَظْفَارِ. كَذَا فِي الزَّاهِدِيِّ نَاقِلًا عَنْ الْجَامِعِ الْأَصْغَرِ۔ (الفتاوى الہندیۃ : ١/٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 رجب المرجب 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں