بدھ، 13 مارچ، 2019

کیا رجب کی مخصوص تاریخ کے روزوں کی فضیلت ثابت ہے؟

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ شہر عزیز کی ایک عالمہ نے درس قرآن میں رجب المرجب کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ "رجب کی ایک تاریخ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، دو تاریخ کا روزہ دو سال کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اسی طرح رجب کے 15 روزے رکھنے پر زندگی بھر کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور جنت کے آٹھوں دروازے اس کے لیے کھول دئیے جاتے ہیں۔
درس قرآن کے بعد سے اکثر  علاقے میں اہتمام کے ساتھ رجب کے روزے رکھے جارہے ہیں خصوصاً خواتین کا اس بات پر زور ہے۔
سوال یہ ہے کہ رجب کے روزے کی کیا حقیقت ہے؟ اور مذکورہ فضیلتیں صحیح ہے یا نہیں؟ مذکورہ بالا فضیلتیں حاصل کرنے کیلئے اگر رجب کا روزہ رکھا جائے تو روزہ کا کیا حکم ہوگا؟ رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور اور عندالناس مشکور ہوں۔
(المستفتی : عبداللہ حنفی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رجب کے مہینے میں کسی خاص دن کا کوئی خاص روزہ ثابت نہیں ہے۔

علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ رجب کے روزے کے متعلق کوئی روایت درست سند سے موجود نہیں۔

قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في "مجموع الفتاوى" (25/290) : وأما صوم رجب بخصوصه فأحاديثه كلها ضعيفة، بل موضوعة، لا يعتمد أهل العلم على شيء منها، وليست من الضعيف الذي يروى في الفضائل، بل عامتها من الموضوعات المكذوبات۔

علامہ ابن قیم بھی رجب کے کسی مخصوص نماز اور روزے کا انکار کرتے ہیں۔

وقال ابن القيم رحمه الله: كل حديث في ذكر صيام رجب وصلاة بعض الليالي فيه فهو كذب مفترى. (المنار المنيف، ص:96)

علامہ ابن حجر رحمه اللہ بھی کسی فضیلت کے ثبوت کے منکر ہیں۔

وقال الحافظ ابن حجر في "تبيين العجب" (ص11): لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه ولا صيام شيء منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث صحيح يصلح للحجة۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ رجب کے مخصوص روزے یا مکمل روزے رکھنے والوں کے روزے افطار کروا دیا کرتے تھے۔

وأخرج ابن أبي شيبة في مصنفه أن عمر رضی اللہ عنه كان يضرب أكف الناس في رجب حتى يضعوها في الجفان، ويقول: كلوا، فإنما هو شهر كان تعظمه الجاهلية.

امام شافعی رحمہ اللہ بھی رجب کے کسی مخصوص دن میں روزے کو مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے تھے۔

وقد نقل البيهقي عن الشافعي قوله في القديم: أكره أن يتخذ الرجل صوم شهر يكمله من بين الشهور، كما يكمل رمضان، وكذلك أكره أن يتخذ الرجل يوماً من بين الأيام، وإنما كرهت ذلك؛ لئلا يتأسى جاهل، فيظن أن ذلك واجب۔

درج بالا تشریحات سے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک رجب کے کسی مخصوص دن کا کوئی روزہ کسی بھی مستند صحیح یا ضعیف روایت سے ثابت نہیں، چنانچہ سوال نامہ میں مذکور روایات بھی من گھڑت اور شیعوں کی روایات ہیں، جن کا بیان کرنا اور ان پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔

البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اشہرحرم یعنی ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب کے مہینوں میں روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اشہر حرم میں کبھی روزے رکھو کبھی چھوڑ دو۔ (١)

اس لیے اگر کسی مخصوص دن کو متعین کئے بغیر رجب کا کوئی روزہ رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے اس روزے کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ نیز پیر اور جمعرات کا روزہ یا ایام بیض کے روزے جیسے عام مہینوں میں رکھے جاتے ہیں اسی طرح اس مہینے میں بھی ان روزوں کو رکھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے لاعلمی میں غیر معتبر روایات کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھ لیا ہے تو اس کا روزہ افطار نہ کروایا جائے بلکہ اس کی نیت درست کردی جائے۔

١) قَالَ النبی صلى الله عليه وسلم : صُمْ مِنْ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ۔ (أبوداود، 2428)
مستفاد : تنبیہات 106)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1440

5 تبصرے:

  1. Assalamualaikum
    . Shab-E-Meraj ka ek Roza hota hai na

    جواب دیںحذف کریں
  2. اَلْسَّـــــــلَاٰمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُاللّهِ وَبَرَكـَـاتُهُ!


    اس بلاگ کے ذریعے آپ نے عوام کے مسائل کو جو یوں سوال اور جواب کی شکل میں جمع کیا ہے میری نظر میں تو شاید اسکا بدلہ آپکو اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔
    اللہ تعالیٰ آپکی کوششوں کو قبول فرمائے۔
    آمین۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

      آمین ثم آمین

      حوصلہ افزائی کے لئے مشکور ہیں ۔

      جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

      حذف کریں
  3. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    حضرت والا ایک سوال کا جواب مطلوب ہے دلیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں
    سوال- ایک شخص قیام اور رکوع بر قادر ہے لیکن سجدہ اور قاعدہ پر قادر نہیں ہے اگر یہ شخص کرسی پر نماز پڑھیگا تو پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھیگا یا قیام اور رکوع کھڑے ہونے کی حالت میں کریگا جبکہ کھڑے ہونے کی حالت میں صفوں سے باہر ہوجاتا ہے؟
    برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں