اتوار، 24 مارچ، 2019

تیرہ سال کے بچے کی امامت کا حکم

*تیرہ سال کے بچے کی امامت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کیا تیرہ سال کا لڑکا تراویح پڑھا سکتا ہے؟ تراویح پڑھانے کے لئے کتنے سال کا ہونا ضروری ہے؟ مدلل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : دین محمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک بالغ حضرات کی امامت کے لئے امام کا بالغ ہونا شرط ہے، نابالغ کی امامت بالغ مرد و عورت کے حق میں درست نہیں ہے، خواہ فرض نماز ہو یا نفل، البتہ نابالغ بچوں کے حق میں نابالغ کی امامت درست ہے۔

لڑکا بارہ سال میں بالغ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ بلوغت کی علامتوں میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ لڑکے کو احتلام ہوجائے یا اس کی  وطی سے بیوی حاملہ ہوجائے، یا اس سے منی کا خروج ہوجائے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی نہ پائی جائے تو لڑکے کی عمر پندرہ سال مکمل ہونے پر بلوغت  کا حکم لگ جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں تیرہ سال کے لڑکے میں بلوغ کی کوئی علامت احتلام وغیرہ پائی جائے تو وہ بالغ شمار ہوگا اور تراويح سمیت فرض نمازوں میں بالغ مرد و عورت کی امامت کرسکتا ہے، ورنہ نہیں۔

فلا یصح اقتداء بالغ بصبی مطلقاً سواء کان فی فرض لأن صلاۃ الصبی ولو نوی الفرض نفل، أو فی نفل لأن نفلہ لا یلزمہ أی ونفل المقتدی لازم مضمون علیہ فیلزم بناء القوی علی الضعیف۔ (طحطاوی : ۱۵۷)

أما غیر البالغ فإن کان ذکراً تصح إمامتہ لمثلہ۔ (شامی : ۲؍۳۲۱)

یحکم ببلوغ الغلام بالاحتلام أو الإنزال أو الإحبال … وببلوغ الجاریۃ بالحیض أو الاحتلام أو الحبل۔۔ فإن لم یوجد شيء من ذٰلک فإذا تم لہ ثماني عشرۃ سنۃً، ولہا سبع عشرۃ سنۃً عندہ، وعندہما إذا تم خمسۃ عشر سنۃً فیہما، وہو روایۃ الإمام، وبہ قالت الأئمۃ الثلا ثۃ، وبہ یفتی … وأدنی مدتہ لہ ثنتا عشرۃ سنۃ، ولہا تسع سنین، الخ۔ (البحر الرائق، کتاب الإکراہ، باب الحجر، فصل في حد البلوغ، ۸؍۱۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 رجب المرجب 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں