ہفتہ، 2 مارچ، 2019

ساس بہو کے تنازعے اور ان کا حل

*ساس بہو کے تنازعے اور ان کا حل*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! اسلام نے ہر مسلمان کو اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار بنایا ہے، اور ہر مسلمان پر دوسرو‌ں کے کچھ حقوق عائد کیے ہیں، جن سے متعلق اس سے مؤاخذہ ہوگا، والدین پر اولاد کے حقوق، اولاد پر والدین کے حقوق، شوہر پر بیوی کے اور بیوی پر شوہر کے حقوق کی ادائیگی کو لازم کیا گیا ہے، اور ہر مسلمان اپنے حقوق کو کماحقہ ادا کرنے لگے تو یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے ۔ لیکن فی زمانہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو صرف اپنے حقوق کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ دوسروں کے اُن پر کیا حقوق ہیں؟ یا وہ جاننا ہی نہیں چاہتے ہیں کہ ان پر دوسروں کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ یا پھر جان کر انجان بنے ہوئے ہیں۔ یہ طبقہ دوسروں کے حقوق سے بے خبر اور دوسروں کے حقوق کی پامالی کرتے ہوئے صرف اپنے حقوق کو حاصل کرنے اور اس کے مطالبہ میں مصروف ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کا توازن بگڑرہا ہے اور اس کا امن و سکون راحت و آرام غارت ہوگیا ہے۔

محترم قارئین! بعض خواتین کو اپنے حقوق تو اچھی طرح ازبر ہیں لیکن شوہر کے حقوق اور شوہر کے واسطے سے اُن پر ساس سسر کی کیا ذمہ داری بنتی ہے اور ان کا اخلاقی فریضہ کیا ہے؟  یہ خواتین اس سے چشم پوشی کیے ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ گھر کے کام کاج نہیں کرے گی کیونکہ شریعت کے مطابق بہو پر ساس سسر اور دیگر لوگوں کا  کام کرنا اس پر فرض نہیں ہے۔ بلاشبہ بہو پر اپنے ساس سر اور دیگر لوگوں کی خدمت شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کچھ ذمہ داریاں اخلاقاً بھی عائد ہوتی ہیں، شوہر کی وجہ سے ساس سسر والدین کے حکم میں ہوتے ہیں، اور بہو بیٹی کے درجے میں ہوتی ہے، اس لیے ہر خاتون کو چاہیے کہ حسبِ ہمت وطاقت اپنے حقیقی ماں باپ اور شوہر کی طرح ساس سسر کی بھی خدمت کیا کرے۔ یہاں حسن سلوک کی فضیلت پر مشتمل چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں جو ان شاءاللہ خواتین کو اپنے ساس سسر کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت پر اُبھارنے کا باعث بنیں گی۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن آدمی اپنے اعلیٰ اخلاق سے سارے دن کے روزہ دار اور ساری رات کے تہجد گذار کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ (ابوداؤد)

حضرت ابوالدرداء ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میزان اعمال میں حُسنِ اخلاق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں۔ (ابوداؤد)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ (بخاری)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہے۔(ترمذی)

ذکر کردہ احادیثِ مبارکہ میں حُسنِ سلوک اور خوش خلقی کی فضیلت بیان کی گئی ہیں، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک انسان کے بھلے ہونے کی علامت ہے، اور عورت کے لئے اس کے شوہر اور حقیقی والدین کے بعد ساس سسر ہی اس کے حسن سلوک اور اچھے اخلاق کے سب سے زیادہ مستحق اور حقدار ہیں، لہٰذا ان کی خدمت کرنا حسن سلوک اور اعلی اخلاق کی علامت ہے، اور قوی امید ہے کہ یہ خدمت اس کے لئے نجات کا ذریعہ بن جائے۔

ترغیبی باتوں کے بعد اصول بات بھی سمجھ لی جائے کہ کوئی بھی سلیم الفطرت کریم النفس خاتون قطعاً یہ نہیں چاہے گی کہ بڑھاپے کی حالت میں اس کے والدین اپنے ہاتھوں سے کام کریں اور ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو، چنانچہ اگر یہ سوچ اپنے والدین کے متعلق ہوتو اپنے ساس سسر کے متعلق یہ سوچ کیوں نہیں بن سکتی؟ جب کہ انھیں بھی والدین کا درجہ دیا گیا ہے۔ ہر خاتون کو اس بات کا بھی خیال رہے کہ آج اگر وہ اپنے ساس سسر کی خدمت کرے گی تو اس کے بھائی کی بیوی اس کے والدین کی خدمت کرے گی، اس لئے کہ یہی دنیا  کا قاعدہ ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔

مذکورہ بالا تمام باتوں کو جان لینے کے بعد بھی اگر کوئی خاتون اپنے ساس سسر کی قصداً بلاعذر خدمت نہ کرے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے اور آج کا بویا کل  کاٹنا ہے۔

*تصویر کا دوسرا رخ*

قارئین عظام! اب تک ہم نے تصویر کے ایک رُخ  کو دیکھا ہے جب کہ اس کا دوسرا رخ بھی دیکھنا ضروری ہے، تاکہ تحریر کا توازن بھی  برقرار رہے۔  گھروں میں مسائل صرف بہوؤں کی طرف سے نہیں ہوتے، بلکہ بعض گھروں میں ساس کی زیادتیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں، بہوؤں پر زیادتی سے متعلق بعض مالدار اور دین دار گھرانوں سے جو باتیں نکل کر آرہی ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں، عجیب و غریب طریقے سے بہوؤں کو ہراساں کیا جاتا ہے، گھر کے ضروری  کاموں کے علاوہ  گھر کی صفائی کا کام بھی بہوؤں سے لیا جارہا ہے، گھر کی صفائی کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہاں مراد چھوٹا سا ایک دو کمروں پر مشتمل مکان نہیں ہے، بلکہ کئی کمروں پر مشتمل بنگلے ہیں، جن میں گارڈن کا حصہ بھی لازمی ہوتا ہے، ظاہر ہے اس کی صفائی وہ بھی تقریباً روزآنہ دیگر کاموں کے ساتھ موجودہ نسل کی کمزور بچیوں کے لیے کیسے ممکن ہے؟ جبکہ ان کے نکاح سے پہلے خادمات کے ذریعے یہ کام لیے جاتے تھے، اب مفت کی خادمات مل گئی ہیں تو انہیں سے یہ کام لینا اپنا حق سمجھا جارہا ہے۔ اسی طرح بعض گھروں میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ نندوں کی خدمت بھی لی جاتی ہے۔ اور ان تھکادینے والے کاموں کے بعد رات گیارہ بارہ بجے ایک دیڑھ گھنٹے  گھر کی تعلیم کے نام پر لیا جاتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہوؤں کو اپنی شفقت، محبت اور حسنِ اخلاق کے ذریعے دین سکھایا جاتا، لیکن دن بھر انہیں مختلف طریقوں سے ٹارچر کرکے رات کو ان کے سامنے اللہ و رسول کی بات کرنا کیسے مفید ہوسکتا ہے؟ یہ تو  خدانخواستہ دین سکھانے کا نہیں بلکہ دین بےزاری کا سبب بن جائے گا۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دین دار سعادت مند بچے والدہ کے احترام میں ان زیادتیوں کی مخالفت کرنا  گناہِ کبیرہ سمجھ رہے ہیں، انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا کرکے وہ اپنی بیوی پر ظلم کے گناہ گار ہورہے ہیں، کیونکہ والدین کی اطاعت صرف جائز کاموں میں واجب ہے، ناجائز امور میں ان کی نافرمانی گناہ نہیں ہے۔

عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا طاعۃ في معصیۃ اللّٰہ، إنما الطاعۃ في المعروف۔ (صحیح مسلم / باب وجوب طاعۃ الأمراء في غیر معصیۃ وتحریمہا في معصیۃ ۲؍۱۲۵)

وأما إطاعتہما في غیر المعاصي فواجب بقدر ما أمکن۔(أحکام القرآن للشیخ المفتی محمد شفیع : ۳/۲۶۸)

لہٰذا ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی بہوؤں کو اپنی بیٹی سمجھ کر ان کی استطاعت کے مطابق ان سے کام لیں، انہیں خادمہ نہ سمجھیں، اگر وہ واقعی دل سے انہیں بیٹی سمجھ لیں تو تمام مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے، تاہم اگر کسی گھر میں تمام تر کوششوں کے باوجود ساس بہو میں موافقت نہ ہوسکے تو شوہر کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ طول نہ پکڑنے پائے، اس لئے اپنی بیوی کے لیے الگ رہائش کا انتظام کرلے، لیکن اس صورت میں بھی والدین کے نان و نفقہ اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بیٹے پر ہی ہوگی بشرطیکہ والدین کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ بیوی کے لیے الگ رہائش کا انتظام کرنے کو جو لوگ غلط سمجھتے ہیں وہ اپنی سوچ درست کرلیں۔ اس لئے کہ احادیث مبارکہ اور فقہاء امت کے اقوال سے یہی ثابت ہوتا ہے۔

ولو أراد أن یسکنہا مع ضرتہا أو مع أحمائہا کأمہ وأختہ وبنتہ فأبت فعلیہ أن یسکنہا في منزل منفرد؛ لأن إباءہا دلیل الأذی والضرر، ولأنہ محتاج إلی جماعہا ومعاشرتہا في أي وقت یتفق لا یمکن ذلک مع ثالث(وقولہ) ذکر الخصاف أن لہا أن تقول: لا أسکن مع والدیک وأقربائک في الدار فأفرد لي دارا۔ (شامي : ۳/ ۶۰۱)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق کو جان کر اسے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، گھریلو تنازعات سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

1 تبصرہ:

  1. ماشاء اللہ درست🌹👍
    مگر آج کے کے شوہر بھی ایکدم لَلُّو قسم کے ہوتے ہیں- ان کو بیوی پر ماں کا ظلم نظر آتا ہے پھِر بھی چشم پوشی کرتے ہوئے اس پر ظلم ہونے دیتے ہیں- ماں کو سمجھائے اور اگر وہ نہ سمجھے اور ظلم کا سلسلہ دراز رکھے تو بیوی کے لئے الگ گھر لیکر اس کو وہاں رکھے- شوہروں کا باہَر برابر دماغ چلتا ہے صرف گھر پر ہی نہیں چل پاتا- دوسری بات کہ کچھ بہوئیں بھی ایڈوانس ہوتی ہیں جبکہ شوہر اس کو سر پر چڑھاکر رکھتا ہے- یہ چیز بھی سمجھنی چاہیے-مضمون ماشاء اللہ بہتر لکھا گیا ہے-اللھم زد فزد🌺

    جواب دیںحذف کریں