جمعرات، 30 جنوری، 2025

خواتین بائک پر کس طرح بیٹھیں؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی  ملی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! متعدد فکرمند احباب مسلسل اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ ہمارے یہاں خواتین کے بائک پر بیٹھنے کی ہیئت دن بدن تبدیل ہوتی جارہی ہے اور حیا کے خلاف معاملات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ 

بوقتِ ضرورت پردہ کی رعایت اور اپنے محرم مردوں اور شوہر کے ساتھ بائک پر بیٹھ کر آنے جانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن بائک پر اس طرح بیٹھا جائے جسے ہمارے یہاں سب سے محفوظ اور باحیا طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین دونوں پیر ایک طرف کرکے بیٹھیں اور سہارے کے لیے ضرورت ہوتو ہاتھ بائک چلانے والے اپنے محرم مرد یا شوہر کے کاندھے پر رکھ لیا جائے، خواہ بائک چلانے والا مرد ہو یا عورت، پیچھے بیٹھنے والی خواتین کے لیے یہی طریقہ مناسب، محفوظ اور زیادہ ستر والا ہے۔ 

اب اس کے علاوہ اگر کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے غالب گمان یہ ہے کہ راستہ چلنے والے مردوں کی نظریں اس خاتون پر پڑے گی، بلکہ پڑتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اس کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے مردوں کی نظریں عورت پر پڑے یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ شیطان کا تو کام ہی یہی ہے کہ عورتوں کو مزین کرکے مردوں کو دکھائے اور انہیں گناہ میں مبتلا کرے۔

بعض خواتین دونوں طرف پیر کرکے بیٹھتی ہیں، یہ طریقہ ہمارے یہاں مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے بیٹھنے والی خاتون کی طرف لوگوں کی نظریں اُٹھتی ہیں۔

کوئی اپنے شوہر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بیٹھتی ہے تو کوئی اس کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتی ہے۔ بعض خواتین مرد کے پیٹ کے گرد حلقہ بناکر بیٹھتی ہیں تو بعض خواتین کہنی کے اوپر کا حصہ مرد کے کاندھے پر رکھ بالکل مرد سے لگ کر بلکہ اس پر لَد کربیٹھتی ہیں۔

بلاشبہ میاں بیوی کا اس طرح ایک دوسرے کو چھونا جائز اور اس کے بالکل قریب رہنا جائز ہے، لیکن ایسے اعمال کے دوران دوسروں کی نظر پڑجائے اس کا موقع فراہم کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں حیاء کے خلاف بلکہ بعض انتہائی بے حیائی کی ہیں، لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے۔

امید ہے کہ عزت مآب خواتین اسلام اور ہمارے غیور اسلامی بھائی مذکورہ بالا تمام باتوں پر توجہ فرماکر عمل فرمائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی بے حیائی سے حفاظت اور ہم سب کو باحیاء اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

بدھ، 29 جنوری، 2025

انڈر گراؤنڈ ڈرینج کا قہر

   خدارا اس سے نجات دلا دیجیے 

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! کہا جاتا ہے کہ مالیگاؤں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں کے سرکاری درباری کام کاج پہلے تو ہوتے نہیں، اگر ہوں بھی تو انتہائی سست رفتاری، غفلت اور غیرمعیاری طرز کے ہوتے ہیں۔ فی الحال انڈر گراؤنڈ ڈرینج کا کام جاری ہے، نئی پرانی بنی ہوئی سڑکوں کو کھود کر پائپ ڈالے جارہے ہیں۔ اور یہ کام بغیر کسی منصوبہ بندی اور ترتیب کے انتہائی لاپروائی اور سُست رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔

 پہلی بات تو یہی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ  یہ انڈر گراؤنڈ گٹر ہے یا سنڈاس کے پائپ؟ کیوں کہ اس کے پائپ کی سائز پانچ چھ انچ ہے یہ ڈرینج، گٹر اور نالی کا کام تو بالکل نہیں کرسکتا۔ کیوں ہمارے یہاں جس حساب سے کچرے اور ڈائپر گٹروں میں ڈالے جاتے ہیں یہ پائپ پہلے ہی دن چوکپ ہوجائیں گے اور کئی سو کروڑ کی یہ اسکیم فیل ہوجائے گی۔

اندھیر تو اس وقت ہورہی ہے جب یہی کام ندی کے اُس پار ہوتا ہے تو وہاں پائپ لائن ڈالنے کے بعد گڑھوں کو فوراً ڈامر یا سمنٹ سے برابر کردیا جاتا ہے۔ لیکن ندی کے اِس پار جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں پائپ لائن ڈالنے کے بعد مزدور یہاں کے ذمہ داروں کی بے حسی، غفلت اور لاپروائی کا قبر نما نشان بناکر نکل لیتے ہیں گویا وہ کہہ رہے ہیں کہ بھُگتو کیڑے مکوڑو ! تم انسان تو ہو نہیں کہ تمہیں درد اور تکلیف ہو، نہ ہی تم میں اپنی تکلیف بتانے کے لیے زبان ہے، نہ تمہارے پاس ایسے لیڈر ہیں جو تمہاری تکلیفوں کا ازالہ کرسکیں۔ 

اس کھدائی اور سڑکوں کو برابر نہ کرنے کی وجہ سے پورا شہر دھول میں اَٹا ہوا ہے، ہر وقت شہر کہرے میں نظر آتا ہے۔ دو چار کلومیٹر بندہ شہر میں گھوم کر جب گھر پہنچتا ہے تو دھول سے اس کی حالت قریب قریب چکی میں کام کرنے والے شخص جیسی ہی ہوجاتی ہے۔ دھول سے الرجی والے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اور جن کو دھول سے تکلیف نہیں تھی وہ بھی مسلسل دھول سے بیماری کا شکار ہورہے ہیں۔

اس پروجیکٹ کی بے ترتیبی کی وجہ سے غریب عوام کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب پائپ لائن بچھانے کے لیے سڑکیں کھودی جاتی ہے تو گھروں میں جانے والے نل کے پائپ توڑ دئیے جاتے ہیں، اور کہیں نلوں میں گٹروں کا گندا پانی آنے لگتا ہے اور اسے درست کرنے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے، غریب عوام کو مجبوراً ہزاروں روپے لگاکر اسے درست کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے بڑا تکلیف دہ کام ہے۔

ابھی کل کی ہی بات ہے کہ مغرب کے مجھے سلیمانی مسجد کے پاس سے کوہ نور مسجد جانا تھا جس کا فاصلہ بائک پر دو منٹ ہے۔ لیکن مجھے یہاں پہنچنے کے لئے پندرہ منٹ لگ گئے۔ یہی روڈ کھود کھاد کے چکر میں ہر جگہ لمبا لمبا ٹرافک لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجھے پورا گھوم کر تین قندیل کے پاس سے چھوٹا قبرستان ہوتے ہوئے کوہ نور مسجد پہنچنا پڑا۔ وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ میں نماز سے کافی پہلے ہی نکل گیا تھا، ورنہ مغرب کی نماز میری ٹرافک میں ہوجاتی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عوام کس درجہ کی مصیبتوں کا سامنا ہے؟

یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ کسی شہر میں نہیں بلکہ جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں کسی کی کوئی سنوائی نہیں ہے، کارپوریشن اور وہاں کے انجینئرس کو فون کرنے والے فکرمند احباب کو بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بھی ان سخت تکالیف کے ازالے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں تو انہیں ضرور کرنا چاہیے، اس لیے کہ شہریان فی الحال بہت زیادہ تکلیف میں ہیں، اور کسی کو تکلیف سے نجات دینا بڑا صدقہ اور نیکی کا کام ہے۔

اخیر میں دعا کے بجائے شہر کو کباڑ خانے میں تبدیل کرنے کا جو بھی کسی بھی درجہ میں ذمہ دار ہے میں بددعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی ضرور عذاب میں مبتلا کرے تاکہ اس کی حالت دیکھ کر دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو اور وہ اس کام سے دور رہیں۔ آمین یا مجیب المضطرین

آپ سب بھی بد دعا کرسکتے ہیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، اور ایسے حالات میں جب کہ کسی کے ذریعہ قومی وملی نقصان ہو تو ایسے شخص کے شر سے بچنے کے لئے اُس کے حق میں بد دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

 

جمعرات، 23 جنوری، 2025

سڑکوں پر اتی کرمن کرنے والے

اللہ کے لیے اب باز آجائیں 


✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی
 (امام و خطیب مسجد کوہ نور)


قارئین کرام! شہر عزیز مالیگاؤں میں ہر سال کی طرح امسال بھی شہر میں اتی کرمن ہٹاؤ مہم توڑ پھوڑ کے ساتھ جاری ہے۔ چوں کہ یہ ایک موقع ہوتا ہے کہ متاثرین اور انتظامیہ سے کچھ بات کی جائے، لہٰذا کچھ سنجیدہ، فکرانگیز اور مفید باتیں اتی کرمن کرنے والوں اور انتظامیہ سے اس مضمون اور سوشل میڈیا کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری بات سب کے دلوں میں اتار دے۔

محترم قارئین ! متاثرین یعنی جن لوگوں نے سڑکوں پر اتی کرمن کر رکھا ہے ان تمام افراد سے مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرلیں کہ اتی کرمن اور سڑکوں پر قبضہ کرلینا شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر اس سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہورہی ہے تو اس پر دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا گناہ الگ ہوگا۔ یعنی یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس عمل پر احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔ (سنن نسائی)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو ،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپا ہوا ہو۔ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۶۹۳۷۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔ (مسلم)

حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد (قبول) نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

ان احادیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس عمل کی سنگینی کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ دوسروں کو تکلیف دے کر اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے جو روزی کمائی جائے گی اس میں برکت کہاں سے ہوگی؟ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ آپ کے اتی کرمن کی وجہ سے ٹرافک میں پھنسنے والے راہ گیر آپ کو کیا کچھ کہہ جاتے ہیں؟ کیسی کیسی بد دعائیں اور آہیں ان کے دلوں سے نکلتی ہے؟ ایسی بددعائیں اور آہیں لے کر آپ کیسے چین اور سکون سے رہ سکتے ہیں؟ جب کہ یہ بات قسم کھا کر کہی جاسکتی ہے کہ جتنا آپ حضرات اتی کرمن کرکے کماتے ہیں اگر اتی کرمن نہ کرتے ہوئے صرف اپنی اصل اور خاصگی جگہ پر تجارت اور کاروبار کریں تب بھی آپ کو ان شاءاللہ اتنی روزی مل کر رہے گی اور اگر خدانخواستہ شروعات میں منجانب اللہ آزمائش کی وجہ سے کچھ کمی بھی ہوئی تو ان شاء اللہ اس میں ضرور ایسی برکت ہوگی کہ آپ کی ضروریات پوری ہوجائیں گی، بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکل رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سال پھر اتی کرمن مخالف دستہ کی طرف سے آپ کی محنت کی کمائی سے غلط جگہ یعنی اتی کرمن پر بنائے ہوئے اوٹے، کھوکھے، زینے، آگے نکالے ہوئے پترے توڑے جائیں گے، آپ کا مال بڑی مقدار میں ضائع ہوگا۔ چنانچہ اس پر ہماری آپ سے عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توبہ اور تلافی کا ایک اور موقع دیا ہے۔ لہٰذا اب اللہ کے لیے باز آجائیں اتی کرمن کرکے دوسروں کو تکلیف دے کر اپنی آخرت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی حلال روزی کو بے برکت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔

انتظامیہ سے یہ درخواست ہے کہ وہ صرف توڑ پھوڑ میں دلچسپی نہ لے۔ بلکہ مستقبل میں اتی کرمن نہ ہو اس کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ اس مہم کے بعد بھی مستقل ناجائز قبضہ جات پر نظر رکھی جائے، مستقل گشت لگانے کا انتظام کیا جائے۔ جن سڑکوں پر گٹریں نہیں ہیں وہاں فوری طور پر گٹریں بنوائی جائیں، گٹریں نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں بہت جلد خراب ہوجاتی ہیں، سڑکوں کو مکمل تعمیر کیا جائے، سڑکوں کی دونوں جانب تین تا پانچ فٹ چھوڑ کر سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ سڑک یہیں تک ہے۔ لہٰذا بقیہ جگہ اتی کرمن کی نذر ہوجاتی ہے۔ سڑکیں چوڑی ہوں تو بجلی کے کھمبوں کو سڑک کے بالکل درمیان میں لگایا جائے یا پھر بالکل کنارے پر لگایا جائے، کھمبوں کو سڑک کے بالکل کنارے نہ لگاتے ہوئے کچھ آگے لگانے کی صورت میں یہ کھمبے بھی اتی کرمن میں معاون بنتے ہیں اور کھمبوں تک اتی کرمن کرنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا ان تمام باتوں پر توجہ دے کر اس پر عمل کیا جائے تب ہی اتی کرمن مخالف مہم کامیاب اور فائدہ مند ہوسکتی ہے، ورنہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ مہم چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ثابت ہوگی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے حق میں مفید بنائے اور ہمارے شہر کو اتی کرمن کی وبا سے پاک فرمائے۔ آمین

پیر، 20 جنوری، 2025

مساجد میں نکاح کی تقریب کی فوٹو گرافی کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا علماء کرام اور مفتیان کرام نے مسجدوں میں DSLR کیمرے سے فوٹو گرافی اور ویڈیو شوٹنگ کی اجازت دے دی ہے؟ بڑی دھوم سے امام صاحب اور دیگر علمائے کرام کی موجودگی میں نکاح سے لیکر دولہا، باراتی اور گلے ملتے ہوئے، مسجد کے اندر ہی شوٹنگ ہو رہی ہے۔ پہلے پہل یہ کام چوری چھپے، موبائل کیمرے سے خاموشی سے کر لیا جاتا تھا، مگر اب کئی جگہوں پر کھل کر ہو رہا ہے۔ براہ کرم اس پر رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ڈیجیٹل تصویر کے مسئلہ میں ہمارے علماء کے درمیان اختلاف ہے۔

جامعہ دارالعلوم کراچی اور جامعۃ الرشید کراچی، جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی وغیرہ کے مفتیان کرام کے نزدیک ڈیجیٹل  کیمرے سے لی گئی تصویر کا جب تک پرنٹ  نہ لیا گیا ہو یا اسے پائیدار طریقے سے کسی چیز پرنقش نہ کیا گیا ہو اس وقت تک اس تصویر پر ناجائز کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ عکس ہے جیسے پانی کے سامنے جانے پر عکس نظر آتا ہے۔ بشرطیکہ اس تصویر یا ویڈیو میں نامحرم افراد نہ ہوں اور فحش مناظر نہ ہوں۔

دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہ کے مفتیان کرام عدم جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک ڈیجیٹل تصویر اگرچہ وہ موبائیل، اور کمپیوٹر میں ہی موجود ہو تب بھی یہ تصویر کے حکم میں ہے اور جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ان علماء کرام کے نزدیک مسجد میں نکاح کی مجالس میں فوٹوگرافی اور ویڈیو شوٹنگ کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ 

اسی طرح پہلے طبقہ کے علماء کے نزدیک بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ نکاح کی مجالس میں فوٹو گرافی اور  ویڈیو شوٹنگ  کی جائے۔ کیونکہ اس غیر ضروری اور غیر اہم کام کے لیے ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جو بلاشبہ فضول خرچی میں داخل ہے، اور فضول خرچی کرنے والے کو قرآن کریم میں شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔

دوسرے یہ کہ ان کیمروں اور فوٹو، ویڈیو گرافی کی وجہ سے مسجد کی بے احترامی ہوتی ہے اور اس کا تقدس پامال ہوتا ہے، جو بلاشبہ گناہ کی بات ہے۔

تیسرے یہ کہ نکاح کی مجالس میں فوٹو اور ویڈیو گرافی سے عموماً نام ونمود اور دکھاوا مقصود ہوتا ہے۔

لہٰذا دونوں طبقہ کے علماء کے نزدیک مساجد میں نکاح کی مجالس میں فوٹو گرافی اور ویڈیو شوٹنگ کی اجازت نہیں ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔ اور ائمہ کرام کو بھی چاہیے کہ وہ اس سے منع کریں۔


قال النووي : قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرامٌ شدید التحریم، وہو من الکبائر … فصنعتہ حرام بکل حال۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۱۹۹، ونحو ذٰلک في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹)

أما الصورۃ التي لیس لہا ثبات واستقرار ولیست منقوشۃ علی شیئ بصفۃ دائمۃ، فإنہا بالظلأشبہ (تکملۃ فتح الملہم، باب تحریم صورۃ الحیوان، اشرفیہ دیوبند ۴/۱۶۴)

قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔ (سورۂ بنی اسرائیل: ۲۷)

وقال القرطبي : من أنفق مالہ في الشہوات زائداً علی قدر الحاجات وعرّضہ بذٰلک للنفاد فہو مبذر۔ (تفسیر القرطبي : ۵؍۲۲۴ بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رجب المرجب 1446

اتوار، 19 جنوری، 2025

سنگین فتنہ پر شہریان کی کاری ضرب

     ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! دو دن پہلے بروز جمعرات 16 جنوری کو ہم نے میوزک اور گانوں پر ویڈیوز بناکر اسے سوشل میڈیا پر ڈالنے والے نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور بچوں کو تنبیہ کرنے والا ایک مضمون قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھا تھا۔ جس میں ہم نے کسی مخصوص فرد کا نام نہیں لیا، نہ ہی کسی فرد واحد کو نشانہ بنایا اور نہ ان شاءاللہ بنائیں گے، بلکہ ہم نے مجموعی طور پر ان تمام لوگوں کو خیرخواہانہ انداز میں شریعت کا حکم بتانے کی کوشش کی تھی جو سوشل میڈیا پر خود گانے بناکر گاتے ہیں، یا دوسروں کے گانے گاتے ہیں، ناچتے ہیں، یہاں تک کہ مرد ہوکر عورتوں کی طرح ناچتے ہیں، چند لڑکیاں برقعے میں ہی صحیح اپنے آپ کی نمائش کرتی ہیں۔ اس لیے کسی ایک کو نشانہ بنانے کے بجائے سب پر حکمت اور مصلحت کے ساتھ محنت کی جائے اور سب کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔

معزز قارئین ! ہمارا مضمون الحمدللہ ہزاروں کی تعداد میں پڑھا گیا، ضیاء الرحمن مسکان (گمشدہ بچوں کی تلاش) اور ان کے رفقاء نے اسے خصوصی طور پر شیئر کیا، اور سب نے اسے سنجیدگی سے لیا اور گویا سوشل میڈیا پر ایک مہم چھیڑ دی گئی کہ سوشل میڈیا بالخصوص youtube اور Instagram پر شہر کے بچے بچیاں جو کچھ غلط سلط کام کررہے ہیں اس پر فوری طور پر روک لگے۔ اس کو دیکھ کر تو اقبال کا یہی شعر یاد آتا ہے کہ :

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 

یعنی ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی شہریان کی ایک بہت بڑی تعداد سنجیدہ اور دینی فکر رکھنے والی ہے اور وقت پڑنے پر دینی حمیت اور غیرت کا ثبوت دینے والی ہے۔  جو ہمارے لیے بڑے حوصلے کی بات ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

محترم قارئین ! سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کرنا کتنا مفید یا نقصان دہ ہے؟ اس سے قطع نظر اطلاعات ہیں کہ اس طرح کے کئی اکاؤنٹ بین ہوگئے ہیں یا خود سے بند کردئیے ہیں، اگر خود سے بند کیے گئے ہیں اور توبہ و استغفار کرکے آئندہ اس سے دور رہنے کا ارادہ کرلیا گیا ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے اور تاحیات انہیں عفت وپاکدامنی کے ساتھ رہنے اور ہر طرح کی برائیوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بقیہ افراد کو بھی ہم پھر یہی دعوت دیں گے کہ فوراً یہ تمام ناجائز کام بند کردیں اور اپنے اکاؤنٹ سے یہ ساری reels ڈیلیٹ کردیں اور ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرکے اپنی تعلیم اور روزگار پر محنت کریں کہ اسی سے آپ کی دنیا وآخرت کامیاب ہوگی۔ ان شاءاللہ 

اسی طرح اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ ناجائز contents یعنی گانے، میوزک، رقص اور عورتوں کی تصاویر اور ویڈیوز پر مشتمل چینل اور آئی ڈیز کو فالو اور سبکرائب کرنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور انہیں تقویت پہنچتی ہے۔ لہٰذا فوری طور پر ایسے چینلس اور آئی ڈیز کو ان فالو اور ان سبکرائب بلکہ رپورٹ بھی کردیا جائے تاکہ ان برائیوں پر کسی نہ کسی درجہ میں قدغن لگے۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کی تمام برائیوں سے حفاظت فرمائے اور ہمیں ایمان کے پہلے درجہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

ہفتہ، 18 جنوری، 2025

میت کے ساتھ قبر میں قرآن مجید رکھنا

سوال :

مفتی صاحب ! ایک جنازے میں مٹی دینے کے لئے جانا ہوا۔ ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ جنازے کے ساتھ مرحوم کے سر کے پاس ایک بوسیدہ قرآن شریف رکھا گیا اور پھر تدفین کا عمل مکمل کیا گیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مرحوم اپنی پوری زندگی یہی قرآن شریف کی تلاوت کیے ہیں۔ تو اسی لیے اس قرآن شریف کو اُن کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا۔ تو کیا یہ عمل درست ہے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء کرام بالخصوص مشہور حنفی فقیہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآنی آیتیں اور دعائیں کفن کے اوپر لکھنا سخت بے ادبی ہے۔ اور جنہوں نے کفن پر لکھنے پر قیاس کیا ہے یہ قیاس ممنوع اور ساقط الاعتبار ہے، کیوں کہ جب میت کی ہڈی، گوشت گل جائیں گے، تو قرآن کی آیت اور دعاؤں کے الفاظ نجاستوں کے ساتھ ملوث ہوجائیں گے، یہ قطعاً درست نہیں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قرآن مجید میت کے ساتھ قبر میں رکھنا ایک ناجائز عمل ہوا، اس پر ندامت شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ 


وَقَدْ أَفْتَى ابْنُ الصَّلَاحِ بِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَى الْكَفَنِ يس وَالْكَهْفُ وَنَحْوُهُمَا خَوْفًا مِنْ صَدِيدِ الْمَيِّتِ وَالْقِيَاسُ الْمَذْكُورُ مَمْنُوعٌ لِأَنَّ الْقَصْدَ ثَمَّ التَّمْيِيزُ وَهُنَا التَّبَرُّكُ، فَالْأَسْمَاءُ الْمُعَظَّمَةُ بَاقِيَةٌ عَلَى حَالِهَا فَلَا يَجُوزُ تَعْرِيضُهَا لِلنَّجَاسَةِ، وَالْقَوْلُ بِأَنَّهُ يُطْلَبُ فِعْلُهُ مَرْدُودٌ لِأَنَّ مِثْلَ ذَلِكَ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلَّا إذَا صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - طَلَبُ ذَلِكَ وَلَيْسَ كَذَلِكَ۔ (شامی : ۲/ ۲۴۶)

الاستفسار : قد تعارف في بلادنا أنہم یلقون علی قبر الصلحاء ثوباً مکتوباً فیہ سورۃ الإخلاص، ہل فیہ بأس؟
الاستبشار : ہو استہانۃ بالقرآن ؛ لأن ہٰذا الثوب إنما یلقی تعظیماً للمیت ویصیر ہٰذا الثوب مستعملاً مبتذلاً، وابتذال کتاب اللّٰہ من أسباب عذاب اللّٰہ۔ (نفع المفتي والسائل ۴۰۳ دار ابن حزم، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۸؍۵۳۶ ڈابھیل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رجب المرجب 1446

جمعرات، 16 جنوری، 2025

شہر میں بڑھتا ہوا ایک سنگین فتنہ

خدارا اسے روک لیجئے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں اپنی نیک نامی میں دور دور تک مشہور ہے۔ جس میں عفت مآب خواتینِ اسلام کا اسلامی پردہ بھی اہم سبب ہے۔ لیکن وقفہ وقفہ سے بے پردگی، بے حیائی اور شریعت کی دھجیاں اڑا دینے والے واقعات شہرِعزیز کی نیک نامی اور اس کی مذہبی شناخت پر سوالیہ نشان لگانے کا کام کررہے ہیں۔ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں ایک سنگین فتنہ بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ وہ فتنہ یہ ہے کہ شہر کے نوجوان لڑکوں کے ساتھ بچے اور بڑی تعداد میں لڑکیاں بھی ویڈیوز بناکر youtube, instagram وغیرہ پر اپلوڈ کررہی ہیں۔

بعض بچے اور بچیاں اپنے اسکول کی ویڈیوز اپلوڈ کررہی ہیں جس میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی بھی تصویریں آجاتی ہیں۔ 

کچھ لڑکے اور لڑکیاں فیک اکاؤنٹ سے یہاں وہاں اور اِس کے اُس کے گھر کی ویڈیو اپلوڈ کرکے پوچھتے ہیں کہ یہ کہاں ہے؟ اور کمنٹ باکس میں سینکڑوں لوگ اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ دینی اور دنیاوی تعلیم سے دور خرافات، منکرات اور فضولیات میں اپنے سونے سے زیادہ قیمتی وقت ضائع کررہا ہے۔

بعض لڑکیاں بلکہ شادی شدہ خواتین vlog بنارہی ہیں، کبھی گاندھی مارکیٹ تو کبھی انجمن چوک اور کبھی قدوائی روڈ کے علاوہ دیگر علاقوں کی ویڈیوز سوشل سائٹس پر اپلوڈ کی جارہی ہے جس میں دیگر خواتین کی تصویریں بھی آجاتی ہیں۔

کچھ نوجوان خود گانے بناکر یا دوسرے گانوں پر اپنے کارخانوں، دوکانوں، سڑکوں اور فارم ہاؤس میں ناچ رہے ہیں اور شان سے اس کی ویڈیو اپلوڈ کی جارہی ہے اور اسے creativity کا نام دیا جارہا ہے۔

کچھ دن پہلے ایک چھوٹی سی غیرمسلم بچی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جو مسلم علاقوں میں زوروں سے ناچ رہی تھی، ہم نے اس پر کمنٹ کیا تھا کہ جہاں یہ بچی اس طرح کی حرکت کرتی ہوئی دکھائی دے وہاں کے لوگ اسے فوراً اچھے انداز میں منع کردیں کہ آپ کہیں اور جاکر اپنا ٹیلنٹ دکھائیں ہمارے گھر اور دوکان کے سامنے براہ کرم کوئی نحوست نہ پھیلائیں۔

ایک لڑکی Instagram پر کافی وائرل ہے۔ اور اس کی ہمت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ اب وہ براہ راست لڑکوں کے ساتھ ویڈیو بنا رہی ہے، ابھی اس نے اپنے ایک لاکھ فالورس کا جشن instagram پر مشہور لڑکوں کے ساتھ کیک کاٹ کر منایا ہے۔

ان تمام ویڈیوز میں میوزک اور گانے لازمی شامل ہوتے ہیں، جن کا سننا اور سنانا اور اسے دوسروں کے سننے کا ذریعہ بننا سب ناجائز اور حرام ہے۔ اس پر دنیا وآخرت میں سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔

حضرت علی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب میری اُمت پندرہ کام کرنے لگے گی تو اس پر مصائب ٹوٹ پڑیں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ کون سے کام ہیں؟ آپﷺنے فرمایا : جب مالِ غنیمت تمام حق داروں کو نہیں ملے گا، امانتیں ہڑپ کرلی جائیں گی، زکوٰة تاوان سمجھی جائے گی، خاوند بیوی کا فرمانبردار ہوگا، بیٹا ماں کی نافرمانی کرے گا، اپنے دوست سے نیک سلوک اور باپ سے جفا سے پیش آئے گا، مسجدوں میں لوگ زور زور سے بولیں گے، انتہائی کمینہ ذلیل شخص قوم کا سربراہ ہوگا، کسی آدمی کی شر سے بچنے کے لئے اس کی عزت کی جائے گی، شراب نوشی عام ہوگی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والی عورتیں عام ہوجائیں گی، ساز باجوں کی کثرت ہوگی اور آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر طعن کریں گے۔ (ترمذی)

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی گلو کارہ کی مجلس میں بیٹھا اور اس نے گانا سنا، قیامت کے روز اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ (قرطبی)

عمران بن حصین  سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا : اس امت میں زمین میں دھنسا نا، صورتیں بدلنا اور پتھروں کی بارش جیسا عذاب ہوگا تو مسلمانوں میں سے ایک مرد نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ کیسے ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا : جب گانے والیاں اور باجے گاجے ظاہر ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔ (ترمذی)

ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ویڈیوز پر جتنے زیادہ وویوز ہوں گے اتنے ہی زیادہ ہی یہ لوگ کامیاب ہوں گے۔ جب کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جتنے زیادہ لوگ آپ کے اپلوڈ کیے ہوئے ویڈیو دیکھیں گے، گانے اور میوزک سنیں گے، سب کا گناہ آپ کو بھی ملے گا، یعنی ان کے گناہ کا میٹر مسلسل جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ ان کے مرنے کے بعد بھی یہ گناہ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ گویا دنیا کے انتہائی معمولی فائدے اور چند لوگوں کی واہ واہی حاصل کرنے کے لیے یہ لوگ اپنی عظیم الشان اور ہمیشہ رہنے والی آخرت مکمل طور پر تباہ وبرباد کرنے کا پورا سامان کررہے ہیں۔ 

حیرت ان کے گھر والوں پر بھی ہوتی ہے کہ وہ یہ سب دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں یا پھر خود انہیں شہہ دیتے ہیں، ان کی بہن، بیٹی اور بیوی پر نازیبا اور فحش تبصرے کیے جاتے ہیں، اور ان پر دیوثیت چھائی ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ایسے شخص کو دیوث کہا گیا ہے جو اپنے گھر کی عورتوں کو بے حیائی میں مبتلا دیکھے اور انہیں نہ روکے، ایسے شخص پر جنت حرام قرار دی گئی ہے۔

اور ہم بھی حتی الامکان ان ساری برائیوں کو روکنے کی کوشش اپنی تحریروں اور تقریروں وغیرہ کے ذریعے کرتے رہیں گے خواہ کسی کو اچھا لگے یا برا۔

اخیر میں ان تمام reels بنانے والوں سے ہماری مخلصانہ ،عاجزانہ اور مؤدبانہ درخواست ہے کہ پہلی فرصت میں یہ تمام ناجائز کام بند کردیں اور اپنے اکاؤنٹ سے یہ ساری reels ڈیلیٹ کردیں اور توبہ و استغفار کرکے جائز اور حلال کاموں میں اپنی صلاحیتوں کو لگائیں، جہاں آپ کو حلال روزی کے ساتھ دنیا وآخرت کا سکون بھی  ضرور ملے گا۔  ان شاءاللہ 

اسی طرح اس مضمون کو پڑھنے والے بھی اسے اپنی حد تک نہ رکھیں، بلکہ ایسے لوگوں کو بھی بھیجیں جو اس کام میں ملوث ہیں، یا زبانی طور پر بھی ایسے لوگوں سے ملاقات کرکے سمجھائیں، تب ہی ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنكر جیسے اہم فریضے کے ادا کرنے والے شمار ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے منکرات سے بچنے اور اس کو حتی الامکان روکنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

منگل، 7 جنوری، 2025

اجتماع کی اختتامی دعا سے متعلق عاجزانہ درخواست

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام! تبلیغی جماعت کے اجتماعات الحمدللہ پوری دنیا میں ہوتے ہیں، اور جس علاقے میں ہوتے ہیں اس دن اس علاقے کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ لوگوں کا جوش وخروش اور اجتماع میں شرکت کی تڑپ قابلِ دید ہوتی ہے۔ اجتماعات سے بڑی تعداد میں لوگ اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں اور خود کی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں جو بلاشبہ بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔

اجتماع کی اختتامی دعا میں لوگ دور دور سے اور بڑی عقیدت کے ساتھ پہنچتے ہیں، لیکن ایک بات کا احساس ہمیں اس وقت سے ہے جب ہم نے پہلی مرتبہ 2007 کے صوبائی اور تاریخی اجتماع میں شرکت کی تھی۔ یہ اجتماع تیسرے دن ظہر کے وقت ختم ہوا تھا۔ اس اجتماع میں اختتامی دعا ظہر سے کچھ پہلے شروع ہوئی تھی، اور دعا کے اختتام کے بعد ظہر کی نماز ہوئی جبکہ پچاس فیصد سے زائد مجمع گھروں کو روانہ ہوچکا تھا۔ اس کے بعد سے شہر میں متعدد ضلعی اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا، اور ہر ایک میں یہی بات دیکھنے کو ملی کہ رات میں نو بجے کے آس پاس اختتامی دعا ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد عشاء کی اذان اور پھر جماعت ہوتی ہے جبکہ دعا ختم ہوتے ہی تقریباً ستر فیصد مجمع گھروں کو روانہ ہوجاتا ہے اور اجتماعی طور پر ترکِ جماعت بلکہ سرے سے نماز ہی چھوڑ دینے کے گناہ گار ہوتے ہیں، اور اس مجمع میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو نماز کے پابند ہوتے ہیں لیکن تاخیر ہوجانے کی وجہ سے وہ نماز پڑھے بغیر ہی نکل جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑی نحوست اور بے برکتی کی بات ہے کہ ایک بہت بڑا مجمع اجتماعی طور پر جماعت یا نماز چھوڑے۔ اہل علم بخوبی اس کی قباحت کو سمجھ سکتے ہیں۔

لہٰذا اس سلسلے میں ہماری عاجزانہ، مؤدبانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ اگر آخری بیان کے فوراً بعد اذان دے کر جماعت کھڑی کردی جائے اور نماز کی دعا میں ہی آخری دعا رکھ دی جائے۔ جس کی وجہ سے تقریباً پورا مجمع باجماعت نماز بھی ادا کرلے گا اور اس دعا کی فضیلت بھی بڑھ جائے گی جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔

أيُّ الدُّعاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ : جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَواتِ۔ (ترمذی)

یا پھر ایسا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ تقریباً تمام لوگ عشاء کی نماز باجماعت ادا کرکے ہی اجتماع گاہ سے تشریف لے جائیں۔ جیسا کہ دو سال پہلے اجتماع میں دعا سے پہلے مجمع کو نماز کی تاکید کی گئی اور دعا کے فوراً بعد اذان اور پھر جماعت کھڑی کردی گئی جس کی وجہ سے تقریباً 90 فیصد مجمع نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کرلی تھی جو اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ  تھا۔

بعض لوگوں نے کہا کہ ٹریفک کا نظام درست کرنے کے لئے اس طرح کیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کا نظام خراب نہ ہو، ہم نے اس پر جواب دیا کہ نماز سے پہلے دعا کی صورت میں تقریباً 70 فیصد مجمع ایک ساتھ باہر نکل جاتا ہے، نماز پڑھ کر نکلیں گے تو اس میں بہت ہوا تو 25 فیصد کا مزید اضافہ ہوجائے گا، 05 فیصد تو بہرحال اجتماع گاہ میں ہی انتظامات اور جماعت میں نکلنے کے لیے ٹھہرا ہوتا ہے۔ اتنے میں کوئی نظام ان شاءاللہ درہم برہم نہیں ہوگا، بلکہ باجماعت نماز کی برکت سے ان شاء اللہ مزید آسانی ہوگی۔

ہم نے یہ بات کئی لوگوں سے کہی، لیکن اب سوشل میڈیا کے توسط سے مفصل اور مدلل انداز میں یہ بات کہہ رہے ہیں تاکہ مالیگاؤں سمیت جہاں کے بھی اجتماع میں اس طرح کا نظام بنا ہو وہاں اس پر غور کیا جائے۔

اسی طرح صرف اختتامی دعا کی عقیدت میں اجتماع میں شرکت کرنے اور عشاء کی نماز ترک کردینے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف دعا میں شریک رہیں گے تو بہت بڑی خیر حاصل کرلیں گے اور ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا تو ایسے حضرات کو اچھی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اپنی مسجد میں باجماعت نماز پڑھ کر اپنے طور سے جو بھی ٹوٹی پھوٹی ایک دو منٹ دعا کرلیں گے تو یہ دعا اس دعا سے کئی ہزار گنا بہتر ہوگی جو اجتماع میں جاکر نماز چھوڑ کر کی جاتی ہے۔ لہٰذا ایسے افراد سے بھی عاجزانہ درخواست ہے کہ اجتماع میں شرکت صرف دعا کے لیے نہ ہو بلکہ عشاء کی نماز باجماعت کا اہتمام بہرحال ہو، ورنہ سوائے محرومی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آنے والا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دل کی آواز بھی ہوگی۔ اور ہر ذی شعور اور دین کی معمولی سمجھ رکھنے والے نے اس کو محسوس بھی کیا ہوگا۔ لہٰذا ہماری تبلیغی جماعت کے اجتماع کے ذمہ داران سے مؤدبانہ، مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ اس معقول اور شرعاً درخواست پر ضرور غور فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین میں ترجیحات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

پیر، 6 جنوری، 2025

مزارات پر چادر چڑھانے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! مزاراتِ اولیاء پر چادر چڑھانا کیا بدعت نہیں ہے؟ اور کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جعل فی قبر رسول اللہﷺ قطيفة حمراء سے مزار پر چادر چڑھانا ثابت ہوسکتا ہے؟ ایک صاحب کا کہنا ہے مزار پر چادر چڑھا سکتے میری پاس اس کی دلیل ہے میرے حساب سے دلیل وہی اوپر مذکور روایت ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہےکہ ولیوں کی قبروں کا امتیاز ہونا مقصود ہوتا ہے اس لیے چادر چڑھانے کی گنجائش ہے۔ کیا شریعت کی روشنی میں یہ خیال صحیح ہے؟
(المستفتی : مسیّب رشید خان، جنتور)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : قبروں پر چادر چڑھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ کرام اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت، مکروہِ تحریمی اور ناجائز عمل ہے۔

سوال نامہ میں جو روایت آپ نے لکھی ہے وہ مسلم شریف میں موجود ہے : 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی قبر میں ایک سرخ لوئی (چادر) ڈالی گئی تھی۔

اس حدیث شریف کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ایک خادم تھے جن کا نام "شعران" تھا انہوں نے صحابہ کرام کی مرضی اور ان کی اجازت کے بغیر از خود اس چادر کو آنحضرت ﷺ کی قبر میں رکھ دیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اسے قطعی ناپسند کرتا ہوں کہ جس چادر مبارک کو سرکار دو عالم ﷺ خود استعمال کر چکے ہوں اسے آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص استعمال کرے۔

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قبر میں یہ چادر رکھنا آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے تھا (اب کسی دوسرے کے لئے اجازت نہیں کہ اس کی قبر میں چادر وغیرہ بچھائی جائے یا رکھی جائے) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر میں چادر رکھنے کے بارہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت علی اور حضرت عباس کے بارہ میں منقول ہے کہ ان دونوں نے شعران سے اس بات پر سخت مؤاخذہ  کیا کہ انہوں نے وہ چادر قبر مبارک میں کیوں رکھی؟ نیز علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے تو " کتاب استیعاب" میں یہ لکھا ہے کہ " وہ لوئی (جو شعران نے آپ ﷺ کی قبر مبارک میں ڈالی تھی) مٹی ڈالنے سے پہلے قبر مبارک سے نکال لی گئی تھی۔ بہر حال علماء نے قبر میں مردہ کے نیچے کپڑا بچھانے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس میں مال کا اسراف اور اس کا ضائع کرنا ہے۔

معلوم ہوا کہ اس حدیث شریف میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ چادر قبر کے اندر رکھی گئی تھی، قبر کے اوپر چڑھائی نہیں گئی تھی۔ لہٰذا اس روایت کو قبر پر چادر چڑھانے کی دلیل بنانا جہالت اور حماقت ہے۔

اسی طرح علماء کرام اور بزرگانِ دین کی قبروں کے امتیاز کے لیے بھی چادر چڑھانے کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے میت کی تعظیم اور قُرب جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ دونوں باتیں شرک کا ذریعہ ہیں۔ جبکہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں قبروں پر چراغ جلانے والے پر لعنت کی گئی ہے، اور علماء نے لعنت اور ممانعت کی حکمت اور مصلحت یہ بیان فرمائی ہے کہ قبروں پر چراغ جلانے میں بہت بڑا خطرہ قبر پرستی کا تھا، اس لیے شرک کا دروازہ بند کرنے کے لیے اس سے ممانعت فرمائی گئی۔


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٩٦٧)

(وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : «جُعِلَ فِي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ») فِي النِّهَايَةِ: الْقَطِيفَةُ هِيَ كِسَاءٌ لَهُ خَمْلٌ وَهُوَ الْمُهَدَّبُ، وَمِنْهُ الْحَدِيثُ: «تَعِسَ عَبْدُ الْقَطِيفَةِ»، أَيِ: الَّذِي يَعْمَلُ لَهَا، وَيَهْتَمُّ بِتَحْصِيلِهَا. قَالَ النَّوَوِيُّ: وَهَذِهِ الْقَطِيفَةُ أَلْقَاهَا شُقْرَانُ مَوْلًى مِنْ مَوَالِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: كَرِهْتُ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَهُ ﷺ، وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ مِنَ الْفُقَهَاءِ عَلَى كَرَاهَةِ وَضْعِ الْقَطِيفَةِ وَالْمِخَدَّةِ وَنَحْوِهِمَا تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ، وَقِيلَ: إِنَّ ذَلِكَ مِنْ خَوَاصِّهِ ﷺ فَلَا يَحْسُنُ فِي غَيْرِهِ اهـ. وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ نَقْلًا عَنْ وَكِيعٍ: إِنَّ ذَلِكَ مِنْ خَصَائِصِهِ ﷺ. قَالَ التُّورِبِشْتِيُّ: وَذَلِكَ أَنَّهُ ﷺ كَمَا فَارَقَ أَهْلَ الدُّنْيَا فِي بَعْضِ أَحْكَامِ حَيَاتِهِ فَارَقَهُمْ فِي بَعْضِ أَحْكَامِ مَمَاتِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ لُحُومَ الْأَنْبِيَاءِ، وَحَقَّ لِجَسَدٍ عَصَمَهُ اللَّهُ عَنِ الْبِلَى وَالِاسْتِحَالَةِ أَنْ يُفْرَشَ لَهُ فِي قَبْرِهِ ; لِأَنَّ الْمَعْنَى الَّذِي يُفْرَشُ لِلْحَيِّ لَهُ لَمْ يَزَلْ عَنْهُ ﷺ بِحُكْمِ الْمَوْتِ، وَلَيْسَ الْأَمْرُ فِي غَيْرِهِ عَلَى هَذَا النَّمَطِ اهـ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: تَنَازَعَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ فَقَصْدُ شُقْرَانَ بِوَضْعِهَا دَفَعَ ذَلِكَ. ذَكَرَهُ ابْنُ حَجَرٍ، وَهُوَ بَعِيدٌ جِدًّا، وَقَالَ الشَّيْخُ الْعِرَاقِيُّ فِي أَلْفِيَّتِهِ فِي السِّيرَةِ: وَفُرِشَتْ فِي قَبْرِهِ قَطِيفَةٌ وَقِيلَ أُخْرِجَتْ، وَهَذَا أَثْبَتُ، وَكَأَنَّهُ أَشَارَ إِلَى مَا قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي الِاسْتِيعَابِ: إِنَّهَا أُخْرِجَتْ قَبْلَ إِهَالَةِ التُّرَابِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ. (رَوَاهُ مُسْلِمٌ)۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٣/١٢١٥)

قَوْلُهُ (جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ) هَذِهِ الْقَطِيفَةُ أَلْقَاهَا شُقْرَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ كَرِهْتُ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ نَصَّ الشَّافِعِيُّ وَجَمِيعُ أَصْحَابِنَا وَغَيْرُهُمْ مِنَ الْعُلَمَاءِ عَلَى كَرَاهَةِ وَضْعِ قَطِيفَةٍ أَوْ مِضْرَبَةٍ أَوْ مِخَدَّةٍ وَنَحْوِ ذَلِكَ تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ وَشَذَّ عَنْهُمُ الْبَغَوِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا فَقَالَ فِي كِتَابهِ التَّهْذِيبِ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ لِهَذَا الْحَدِيثِ وَالصَّوَابُ كَرَاهَتُهُ كَمَا قَالَهُ الْجُمْهُورُ وَأَجَابُوا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ بِأَنَّ شُقْرَانَ انْفَرَدَ بِفِعْلِ ذَلِكَ لَمْ يُوَافِقْهُ غَيْرُهُ مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا عَلِمُوا ذَلِكَ وَإِنَّمَا فَعَلَهُ شُقْرَانُ لِمَا ذَكَرْنَاهُ عَنْهُ مِنْ كَرَاهَتِهِ أَنْ يَلْبَسَهَا أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَلْبَسُهَا وَيَفْتَرِشُهَا فَلَمْ تَطِبْ نَفْسُ شُقْرَانَ أَنْ يَسْتَبْدِلَهَا أَحَدٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَخَالَفَهُ غَيْرُهُ فروى البيهقي عن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُجْعَلَ تَحْتَ الْمَيِّتِ ثَوْبٌ فِي قَبْرِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔ (شرح النووی : ٧/٣٤)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٢٣٦)

قَالَ فِي فَتَاوَى الْحُجَّةِ وَتُكْرَهُ السُّتُورُ عَلَى الْقُبُورِ۔ (شامی : ٦/٣٦٣)

اتفق الخطابي و الطرطوشي و القاضي عیاض علی المنع، وقولہم أولیٰ بالاتباع حیث أصبح مثل تلك المسامحات والتعللات مثاراً للبدع المنکرۃ و الفتن السائرۃ، فتری العامة یلقون الزهور علی القبور۔ (معارف السنن : ٢٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1446

ہفتہ، 4 جنوری، 2025

کیا ہے ہکوکا مٹاٹا کی حقیقت ؟


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! گذشتہ دنوں دیانہ کے ایک نوجوان کی آڈیو کال ریکارڈ واٹس اپ کافی وائرل ہوئی تھی، جس میں اس نوجوان نے دین اور خدا سے متعلق کچھ ایسی باتیں کہی تھیں جس کی وجہ سے شہر میں بے چینی پائی جا رہی تھی، اس کلپ میں اس نوجوان سے سوال کیا گیا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ تو اس نے کہا تھا کہ میرا مذہب "ہکوکا مٹاٹا" ہے۔

چنانچہ اس معاملے کو لے کر چند فکرمند نوجوان مثلاً مولانا سلمان، لئیق رحمانی اور حافظ سالک وغیرہ اس نوجوان سے ملے اور اسے دارالقضاء معہد ملت، مالیگاؤں لے کر پہنچے جہاں قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی حسنین محفوظ صاحب نعمانی نے اس سے کئی اہم سوالات کئے اور مطمئن ہونے کے بعد اسے توبہ و استغفار کرایا، یہ نوجوان بھی الحمدللہ اسلام پر مطمئن ہے۔ اور اس نے پختہ عزم کیا ہے کہ آئندہ ان معاملات سے مکمل طور پر دور رہے گا اور اسلام پر قائم رہے گا۔ اللہ تعالٰی اسے استقامت عطا فرمائے اور ساری زندگی اسے اسلام پر قائم فرما کر ایمان پر خاتمہ فرمائے۔آمین 

اس نوجوان سے دارالقضاء معہد ملت میں پوچھا گیا تھا کہ یہ ہکوکا مٹاٹا کہاں سے آیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ یوٹیوب پر ایک ایکس مسلم (مرتد) کی کسی عام مسلمان سے بحث سنی تھی، جس میں مسلمان نے اُس مرتد سے پوچھا تھا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہکوکا مٹاٹا کہ کارٹون، میرا مذہب بھی ہکوکا مٹاٹا ہے۔ تو اس وقت میرے ذہن میں یہی الفاظ آئے تو میں نے بھی ایسے ہی اپنے مذہب کا نام یہی بتا دیا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ الفاظ بھی اصل میں "ہکونا مٹاٹا" ہے۔ جو کسی دوسری زبان جملہ ہے جس کے معنی "کوئی مسئلہ نہیں" ہوتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اصل فتنہ ارتداد اور انڈین ایکس مسلمس (Indian ex muslims) کا ہے۔ جو یوٹیوب کے ذریعے عام مسلمانوں کو لائیو بلاکر ان سے ایسے سوالات (مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کم عمری میں نکاح، غزوہ بدر میں فرشتوں کا مدد کے لیے اترنا اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے نا اترنا۔ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے وغیرہ) کرتے ہیں جن کے جوابات عموماً ان کے علم میں نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کے بہکنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ ہکوکا مٹاٹا نامی کوئی چیز نہیں ہے۔اس لیے اب اس بے معنی، من گھڑت اور بے وقوفی پر مبنی الفاظ کو بالکل استعمال نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس نام کا کوئی فتنہ نہ کبھی رہا ہے اور نہ ہی فی الحال ایسا کوئی فتنہ ہے۔ اور یہ بات بھی الحمدللہ اطمینان کی ہے کہ اس نوجوان کے ذریعے اور کوئی فتنہ ارتداد کا شکار نہیں ہوا ہے اور نہ ہی یہ نوجوان کسی کے ذریعے گمراہ ہوا تھا، بلکہ یہ خود اپنے طور پر یوٹیوب گردی کے دوران ایکس مسلم ساحل کے چینل سے متاثر ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہے اور ایسے یوٹیوب چینلس کو بین کروانے کی کوشش کرنا ہے، مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب اور ان کی ٹیم اور ان جیسے دیگر علماء جو ان مرتد لوگوں کے خلاف کام کررہے ہیں، ان کی آڈیو، ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرنا اور ان کے چینلس کی تشہیر کرنا ہے اور بالخصوص اپنے نوجوان بچوں پر نظر رکھنا ہے کہ وہ یوٹیوب پر کیا دیکھ رہے ہیں؟ کہیں کوئی بات کھٹکے تو فوراً علماء کرام سے رابطہ کریں تاکہ فتنہ کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی ان سنگین فتنوں سے حفاظت فرمائے اور ہمیں بقدر استطاعت اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


*What is the truth about Hakuka Matata?*

Dear readers! Recently, an audio call recorded on WhatsApp of a young man from Dayana, Malegaon went viral, in which the young man had said some things related to religion and God, due to which there was unrest in the city. In this clip, the young man was asked what is your religion? So he said that my religion is "Hakuka Matata".
Therefore, regarding this matter, some concerned youths like Maulana Salman, Laeeque Rahmani and Hafız Salik etc. met this young man and took him to Darul Qaza, Ma'had e Millat, Malegaon where Qazi e Shari'at Hazrat Maulana Mufti Hasnain Mahfooz Sahab No'mani asked him several important questions and after being satisfied, made him repent and seek forgiveness to ALLAH s.w.t. Alhamdulillah, this young man is satisfied with Islam. And he has firmly resolved that in future he will stay away from these matters completely and will remain steadfast in Islam. May ALLAH Almighty grant him steadfastness and make him remain steadfast in Islam for the rest of his life and end it with faith, Ameen.
This young man was asked in the Darul Qaza Ma'had-e-Millat that where did this word "Hakuka Matata" come from? So he said that I once heard a discussion on YouTube between an ex-Muslim (apostate) and an ordinary Muslim, in which the Muslim asked the apostate what is your religion? So he said that "Hakuka Matata" a cartoon, my religion is also "Hakuka Matata". So at that time these words came to my mind, so I also told the name of my religion in the same way. It should be known that these words are originally "Hakuna Matata". Which is a phrase in another language which means "no problem".

From the above details, it is clear that the real temptation is of apostasy and ex-Muslims. Who live-broadcast regular Muslims through YouTube and ask them such questions (for example, Hazrat Aaisha (RA) married at a young age, angels descending to help in the Battle of Badr and not descending to help the Palestinians, Islam spread by the power of the sword, etc.) the answers to which are usually unknown to them, due to which the fear of misleading regular Muslims increases. There is no such thing as Hakuka Matata. Therefore, don't use these meaningless, fabricated and foolish words, because there has never been any temptation of this name and there is no such temptation at present Alhamdulillah. So we have to work on this and try to ban such YouTube channels, share as much audio and video of Mufti Yasir Nadeem Al-Wajdi Sahib and his team and other scholars like him who are working against these apostates and promote their channels and especially keep an eye on our young children to see what they are watching on YouTube. If something goes wrong, contact the scholars immediately so that the fitna is ended at the very first stage.

May ALLAH Almighty protect us all from these serious temptations and grant us the ability to completely eliminate them to the best of our ability. Ameen.

✍️ Mufti Muhammad Aamir Usmani sahab
(Imam and preacher of Koh-e-Noor Masjid, Malegaon)

جمعرات، 2 جنوری، 2025

مسجد میں جمعہ کا چندہ اور ہمارے نوجوان

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
                    (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! برِصغیر ہندوپاک وغیرہ میں مساجد کی تعمیر اور ان کے اخراجات کی تکمیل مسلمانوں کی حلال کمائی سے ہوتی ہے۔ اور مسلمان اسے بحسن وخوبی ادا کررہے ہیں اور اسے اپنے لیے دارین کی سعادت سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ ایسا ہی ہے کہ قرآن وحدیث میں مسجد کی تعمیر اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۶۱)

ترجمہ : جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

دوسری جگہ ہے :
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ۲۶۵)

ترجمہ : ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ 

مسجد کی تعمیر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ : جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)

مذکورہ بالا فضائل کو بار بار سننے اور پڑھنے کے باوجود فی الحال نوجوان نسل اس سلسلے میں بڑی غیرذمہ داری اور کوتاہی کا ثبوت دیتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنے روزمرہ کے شوق گٹکا، تمباکو، بیڑی، سگریٹ، پان اور چائے وغیرہ میں ایک دن کے حساب سے سو روپے تک خرچ کررہے ہیں، اور یہ رقم ہفتہ واری پانچ سے سات سو تک تجاوز کررہی ہے۔ لیکن یہی نوجوان اپنے محلہ کی مسجد اور جہاں یہ لوگ نماز جمعہ ادا کرتے وہاں انہیں معمولی سی رقم بیس روپے تک دینا گوارا نہیں ہورہا ہے۔ حالات کا جائزہ لینے والے فکرمند افراد بتاتے ہیں کہ صف کی صف نکل جاتی ہے اور کوئی چندہ دینے والا نہیں ہوتا۔ ایک بڑی تعداد تو سلام پھیرتے ہی سیدھے دروازے کی طرف لپکتی ہے کہ ان کو دعا اور فرض کے بعد کی تاکیدی سنت اور مسجد کے تعاون سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اور جو دعا کے لیے رُکتے بھی ہیں تو ان میں سے بہت سے لوگ اپنا ہاتھ تعاون کے لیے روکے رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت ساری مساجد میں اخراجات کی تکمیل یعنی بجلی، پانی، صاف صفائی اور امام ومؤذن حضرات کی تنخواہ کے لیے قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے جو بڑی تشویش کی بات ہے۔

لہٰذا ایسے حالات میں ہر شخص کو بطور خاص جمعہ کی نماز میں مسجد کے تعاون کے لئے بالکل آخری درجہ میں بیس روپے تو لے جانا ہی چاہیے، اور پھر اس سے زیادہ جس کی استطاعت ہو وہ ضرور مسجد کا تعاون کرے، یہ عمل آپ کی آخرت کو سنوارنے کے ساتھ آپ کی روزی میں برکت، بیماریوں، بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹالنے کا سبب ہوگا۔ ان شاء اللہ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مساجد کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین