*حلال جانوروں کے حرام اجزاء کی خرید و فروخت کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ جانور کے پتّے کا کاروبار جائز یا نہیں؟
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
---------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حلال جانوروں کے وہ اجزاء جن کا کھانا ممنوع ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔
۱) وہ اجزاء جن کا استعمال حرام ہے، جیسے دم مسفوح (خون) اس کی حرمت نص قطعی یعنی قرآن کریم سے ثابت ہے، جس کا نہ کھانا جائز ہے اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت جائز ہے، اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔
۲) دوسری قسم میں وہ اجزاء ہیں جن کے استعمال کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہے، جیسے ذکر، خصیتین، غدود، مثانہ اور پِتہ وغیرہ ۔
ان چیزوں کا کھانا تو مکروہ تحریمی ہے، لیکن ان کی خرید وفروخت اس لئے جائز ہے کہ یہ چیزیں کھانے کے علاوہ بطور علاج استعمال ہوسکتی ہیں، لہٰذا ان کی تجارت جائز ہے اور اس سے ہونی والی آمدنی بھی حلال ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ۔ (سورۃ المائدۃ، آیت : ۳)
وأما بیان ما یحرم أکلہ من أجزاء الحیوان المأکول، فالذي یحرم أکلہ منہ سبعۃ الدم المسفوح، والذکر، والأنثیان، والقبل، والغدۃ، والمثانۃ، والمرارۃ، والمروي عن أبي حنیفۃؒ أنہ قال: الدم حرام، وأکرہ الستۃ أطلق اسم الحرام علی الدم المسفوح، وسمی ماسواہ مکروہا۔ (بدائع الصنائع، کتاب الذبائح، والصیود ما یستحب في الزکوۃ، زکریا ۴/ ۱۹۰، کراچی ۵/ ۶۱)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21ربیع الاول 1440