جمعرات، 29 نومبر، 2018

حلال جانوروں کے حرام اجزاء کی خرید و فروخت کا حکم

*حلال جانوروں کے حرام اجزاء کی خرید و فروخت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ جانور کے پتّے کا کاروبار جائز یا نہیں؟
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
---------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حلال جانوروں کے وہ اجزاء جن کا کھانا ممنوع ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔

۱) وہ اجزاء جن کا استعمال حرام ہے، جیسے دم مسفوح (خون) اس کی حرمت نص قطعی یعنی قرآن کریم سے ثابت ہے، جس کا نہ کھانا جائز ہے اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت جائز ہے، اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔

۲) دوسری قسم میں وہ اجزاء ہیں جن کے استعمال کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہے، جیسے ذکر، خصیتین، غدود، مثانہ اور پِتہ وغیرہ ۔ 

ان چیزوں کا کھانا تو مکروہ تحریمی ہے، لیکن ان کی خرید وفروخت اس لئے جائز ہے کہ یہ چیزیں کھانے کے علاوہ بطور علاج استعمال ہوسکتی ہیں، لہٰذا ان کی تجارت جائز ہے اور اس سے ہونی والی آمدنی بھی حلال ہے۔

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ۔ (سورۃ المائدۃ، آیت : ۳)

وأما بیان ما یحرم أکلہ من أجزاء الحیوان المأکول، فالذي یحرم أکلہ منہ سبعۃ الدم المسفوح، والذکر، والأنثیان، والقبل، والغدۃ، والمثانۃ، والمرارۃ، والمروي عن أبي حنیفۃؒ أنہ قال: الدم حرام، وأکرہ الستۃ أطلق اسم الحرام علی الدم المسفوح، وسمی ماسواہ مکروہا۔ (بدائع الصنائع، کتاب الذبائح، والصیود ما یستحب في الزکوۃ، زکریا ۴/ ۱۹۰، کراچی ۵/ ۶۱)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21ربیع الاول 1440

بدھ، 28 نومبر، 2018

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد تجارت اور اس کی آمدنی کا حکم

*جمعہ کی پہلی اذان کے بعد تجارت اور اس کی آمدنی کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے مفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے متعلق کہ جمعہ کی اذان کے بعد تجارت ممنوع ہے اس سے اذان اول مراد ہے یا اذان ثانی؟ اگر کوئی  اذان جمعہ کے بعد تجارت کرے تو اس کی آمدنی حلال ہے یا حرام؟ مدلل جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالواجد، بیڑ )
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کی پہلی ہی اذان کے بعد خرید و فروخت مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ اس کی  وجہ سے جمعہ کی سعی اور تیاری متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لیے جمعہ کی پہلی اذان کے بعد تجارت کو موقوف کر دینا ضروری ہے، ورنہ ایسا شخص گناہ گار ہوگا۔

تاہم جمعہ کے دن اذانِ اول کے بعد خرید وفروخت کے ذریعہ جو نفع کمایا جائے وہ حرام نہیں ہے، اس لئے کہ یہ بیع فی نفسہ صحیح ودرست اور ملکیت کا فائدہ دینے والی ہے، لہٰذا اس نفع  کا استعمال کرنا جائز ہے۔

قال اللہ تعالیٰ : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (سورۃ الجمعۃ، آیت :۹،۱۰)

وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ۔ (ہدایہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعہ، ۱/۱۷۱)

وَيَجِبُ السَّعْيُ وَتَرْكُ الْبَيْعِ بِالْأَذَانِ الْأَوَّلِ، ..... وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ الْمُعْتَبَرُ هُوَ الْأَذَانُ عَلَى الْمَنَارَةِ وَالْأَصَحُّ أَنَّ كُلَّ أَذَانٍ يَكُونُ قَبْلَ الزَّوَالِ فَهُوَ غَيْرُ مُعْتَبَرٍ وَالْمُعْتَبَرُ أَوَّلُ الْأَذَانِ بَعْدَ الزَّوَالِ سَوَاءٌ كَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ أَوْ عَلَى الزَّوْرَاءِ، كَذَا فِي الْكَافِي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٤٩)

والبیع عنداذان الجمعۃ قال اللّٰہ تعالٰی وذرواالبیع ثمّ فیہ اخلال بواجب السعی علٰی بعض ابوجوہ وقدذکرنا الاذان المعتبر فیہ فی کتاب الصلوٰۃ کل ذٰلک یکرہ لما ذکرنا ولایفسد بہ البیع۔ (ہدایہ، کتاب البیوع، فصل فیما یکرہ، ٣/٦٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شوال المکرم 1439

منگل، 27 نومبر، 2018

بابری مسجد کی شہادت کی برسی پر اذان دینے کا حکم

بابری مسجد کی شہادت کی برسی پر اذان دینے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب بعض لوگ چھ دسمبر کو مسجدوں میں اور شہر کے چوراہوں پر اذان دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : محمد عارف محمد حنیف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع پر فقہاء نے اذان دینے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً :

١) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے۔

٢) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے۔

٣) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے۔

٤) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے۔

٥) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)

٦) آگ پھیل جانے کے وقت۔

٧) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے۔

لیکن بابری مسجد کی شہادت کی برسی پر اذان کا ثبوت مذکورہ مواقع سے نہیں ہوتا، اس لئے اس وقت چوراہوں اور مساجد سے اذان دینا شرعاً درست نہ ہوگا۔

۶؍ دسمبر کا واقعہ یقیناً نہایت تکلیف دہ، کربناک اور ناقابلِ فراموش ہے، لہٰذا سال بھر بابری مسجد کی بازیابی کے لئے اکابر علماء اور مؤقر دینی تنظیموں کی رہنمائی میں بساط بھر کوشش اور دعاؤں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے ۔ یہ نہ ہو کہ صرف ۶؍ دسمبر کو نام نہاد دینی حمیت کا ثبوت دے کر سال بھر خوابِ غفلت میں پڑے رہنا چاہیے۔

وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذن المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا ۔ (شامي ۲؍۵۰ زکریا، ۱؍۳۸۵ کراچی، منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)

وکذا یندب الأذان وقت الحریق و وقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع ۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1440

داڑھی سے متعلق احکامات

*داڑھی سے  متعلق احکامات*

سوال :

مفتی صاحب آج کل داڑھی کے سلسلے میں افراط و تفریط پائی جارہی ہے بعض کافی بڑی داڑھی رکھتے ہیں اور بعضے ڈاڑھی بچہ صاف کروالیتے ہیں اور بعضے خط بنواتے ہیں اور خاص بات خط بنوانے میں رخسار کے اوپر کے بال اور گلے کے اوپر کے بال کاٹتے ہیں ۔ براہ کرم ہر جزئیہ پر روشنی ڈالیں ۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صحیح احادیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے ۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔

قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ (بخاري شریف ۲/۸۷۵، رقم:۵۶۶۴)

مگر بعض حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول داڑھی ایک مشت سے بڑھ جانے پر کٹا دینے کا تھا، جیسے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرھم ۔

وکان ابن عمر إذا حج، أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ ۔ (بخاري شریف، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳)

عن أبي ذرعۃ کان أبو ہریرۃؓ یقبض علی لحیتہ، ثم یأخذ ما فضل عن القبضۃ ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۲)

عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ أن یؤخذ منہا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)

اس لئے ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ امام مالک امام شافعی امام احمد  رحمہم اﷲ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس سے پہلے کٹانا ناجائز اورحرام ہے ۔ ایک مشت سے زائد ہونے پر کاٹنے کی گنجائش ہے، ایک مشت سے زائد ہونے پر کٹانے کو ناجائز  سمجھنا درست نہیں ہے ۔ اسی طرح داڑھی اگر اعتدال سے زیادہ بڑھ جائے تو اس کا ایک مشت کروالینا بہتر ہے ۔

واما قطع مادون ذلک فحرام اجما عاً بین الا ئمۃ رحمھم اﷲ ۔ (ج۴ ص ۳۸۰ باب اعفآء اللحی، فیض الباری)

وأما الأخذ منہا وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود ومجوس الأعاجم۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۹۸ زکریا)

أو تطویل اللحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (الدر المختار۲؍۴۱۷ کراچی)

رخسار اور حلقوم (گردن) کے بال داڑھی میں داخل نہیں ہیں، لہٰذا رخسار اور حلق کے بالوں کو منڈانے کی گنجائش ہے اور رخسار کے بالوں کو گولائی میں منڈانے کی بھی گنجائش ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ نہ منڈایا جائے ۔

ولا یحلق شعر حلقہ، وعن أبي یوسفؒ لابأس بذلک، ولا بأس بأخذ الحاجبین، وشعر وجہہ ما لم یتشبہ بالمخنث، کذا في الینابیع ۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع، زکریا قدیم ۵/۳۵۸، جدید ۵/۴۱۴)

نیچے کے ہونٹ سے ملے ہوئے بال بھی داڑھی میں داخل ہیں، لہٰذا اس کا مونڈنا بھی جائز نہیں ہے ۔ البتہ اگر اتنا بڑھ جائے کہ منہ میں آنے لگے تو اس کا برابر کرلینا درست ہے، اسی طرح اس کے بازو کے بال بھی کاٹنے کی گنجائش ہے ۔

ونتف الفنیکین بدعۃ، وہما جانبا العنفقۃ، وہي شعر الشفۃ السفلیٰ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۸ زکریا)

محدث دہلوی رحمہ اللہ در شرح صراط مستقیم می آرد: حلق طرفین عنفقہ لا باس بہ است۔ (داڑھی اور انبیاء کی سنتیں : ص۵۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1440

پیر، 26 نومبر، 2018

ائمہ و مؤذنین کو حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد کا ذمہ دار کا ان سے لے لینا

*ائمہ و مؤذنین کو حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد کا ذمہ دار کا ان سے لے لینا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آندھراپردیش وتلنگانہ سرکار  ائمہ مساجد ومؤذنین کے لیے ہر ماہ تقریباً  پانچ ہزار روپے دینے کا اعلان کیا اور دے بھی رہے ہیں اور تمام پروف آدھار کارڈ و کھاتہ نمبر امام ومؤذن کو دینا پڑتاہے اور جب روپے کھاتے میں آجاتے ہیں تو وہ رقم مسجد کے ذمہ دار امام سے لے لیتاہے اور وہ رقم امام کو نہیں دی جاتی کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ یہ حق تلفی میں شمار نہیں ہوگا؟ حالانکہ سرکار امام کو رقم دیتی ہے ۔ مدلل جواب تحریر فرمائیں مہربانی ہوگی ۔
(المستفتی : محمد ناظم، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں حکومت کی طرف سے ائمہ و مؤذنین کو دی جانی والی امداد کے مستحق وہی لوگ ہیں، کسی دوسرے کا یا مسجد کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، لہٰذا مسجد کے ذمہ دار کا امام کو ملنے والی امداد کا امام سے لے لینا شرعاً غصب اور حق مارنا  کہلائے گا، جو کہ نا جائز اور حرام کام ہے، اس رقم کو ذمہ دار خود اپنی ذات پر یا مسجد میں قطعاً خرچ نہیں کرسکتا، اب تک جتنی رقم لی گئی ہے سب کا واپس کرنا ضروری ہے ورنہ ایسا شخص بروزِ حشر  لائقِ مؤاخذہ ہوگا ۔

لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ، ( السنن الدارقطني :۳/۲۲، کتاب البیوع ، رقم الحدیث :۲۸۶۲)

لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ۔
(۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر، الدر المختار مع الشامی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الاول 1440

غیرمسلم کو سلام کرنے اور جواب دینے کا حکم

*غیرمسلم کو سلام کرنے اور جواب دینے کا حکم*

سوال :

مجھے ایک سوال کرنا تھا کہ کسی غیر مسلم کو سلام کر سکتے ہے یا نہیں؟ میری ملاقات غیر مسلم سے ہوتی ہے تو میں کس طرح ملاقات کروں؟
(المستفتی : ڈاکٹر فیصل، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمہور علماء وفقہاء اور شارحینِ حدیث نیز امام ابو حنیفہ اور امام ابویوسف رحمھم اللہ کے نزدیک حدیثِ مبارکہ "یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو" کی بناء پر غیرمسلموں کو "السلام علیکم" کے لفظ سے سلام میں پہل کرنا جائز نہیں ہے ۔ اِس لئے کہ "السلام علیکم" صرف ایک دعا ہی نہیں، بلکہ ایک اِسلامی شعار ہے، اِس لئے اس  کا استعمال اِسلامی علامت کے طور پر ہونا چاہئے، جیسا کہ دیگر شعائر اسلام صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

البتہ اگر وہ لوگ خود سلام میں پہل کریں اور "السلام علیکم" کہیں تو اس کے جواب میں صرف" وعلیکم" کہہ دیا جائے اور علماء نے لکھا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ غیرمسلم کے جواب میں ھَداک اللہ کہا جائے ۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کا کسی غیرمسلم کو سلام کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا ان سے ملاقات کے وقت " اَلسلامُ علی مَنِ اتَبَعَ الہُدیٰ" یا دیگر رسمی باتوں سے ابتداء کی جائے ۔

لاتبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ ۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم ۲؍۲۱۴ رقم: ۲۱۶۷)

إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا : وعلیکم۔ (صحیح البخاري / کیف الرد علی أہل الذمۃ السلام ۲؍۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸)

روی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’لا یبدأ الیہودي بالسلام‘‘ وعن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا یبدأ بالسلام في کتاب ولا في غیرہ ، وعن أبي یوسفؒ: لا تسلم علیہم ولا تصافحہم، وإذا دخلت فقل: السلام علی من اتبع الہدیٰ، ورخص بعض العلماء في ابتداء السلام علیہم، إذا دعت إلی ذٰلک حاجۃ، وأما إذا سلموا علینا، فقال أکثر العلماء: ینبغي أن یقال: وعلیک۔ (تفسیر الفخر الرازي الجزء العاشر، النساء: ۸۶، ۵؍۲۲۱ دار الفکر بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ربیع الاول 1440

اتوار، 25 نومبر، 2018

نکاح کی دعوت میں تحائف کے لین دین کا حکم

*نکاح کی دعوت میں تحائف کے لین دین کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع  متین اس مسئلے کے بارے میں دور حاضر میں جو رواج چلاہے کہ شادیوں میں دعوت دینے کیلئے شادی کارڈ پر لکھا ہوتا ہے *"دعوت طعام برائے"* اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد یا پہلے کچھ نہ کچھ نقد رقم یا برتن وغیرہ دینا ہوتا ہے اگر یہ رقم یا برتن وغیرہ نہ دیا جائے اور ایسے کھانا کھاکر واپس آجائے تو یہ کھانا کھانا کیسا ہوگا؟ اور اسی طرح شادی کارڈ پر دعوت طعام تحریر کرنا یا یہ اشارہ کرنا کہ کچھ نہ کچھ نہ عطیہ یا تحفہ دیں تو کیا کسی بھی شکل میں عطیہ یا ہدیہ کا سوال کیا جاسکتا ہے ؟ اور اگر رسم رواج کو سامنے رکھتے ہو ئے اس طرح کا سوال کرنا کیسا ہے ؟ اوراسی طرح  *دعوت ولیمہ* لکھنے کے باجود بھی عطیہ و تحفہ وصولی کیلئے لوگ کاؤنٹر لگا کر بیٹھتے ہیں تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل رہنمائی فرمائیں ۔
(المستفتی : عبد الرحمن نہال احمد، شبیر نگر سیلانی چوک)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں اگر نکاح کی خوشی میں دعوت طعام دی گئی ہے تو اس میں مدعو حضرات کا صرف کھانا کھا کر بغیر تحفہ تحائف دئیے واپس آجانا بلا کراہت جائز ہے، اگر اس سے دعوت دینے والے کو برا لگتا ہوتو یہ خود اس کی بدبختی ہے ۔ کیونکہ عوض پانے کے لئے کسی کو نکاح کی دعوت دینا شرعاً درست نہیں ہے ۔

دعوتِ ولیمہ کے انویٹیشن کارڈ پر دعوت طعام برائے اس نیت سے لکھوانا  کہ مدعو حضرات تحائف لے کر آئیں یہ بے غیرتی کی بات ہے جو کہ شرعاً بھی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ اسی طرح دعوتِ ولیمہ لکھنے کے باوجود تحائف وصولی کا کاؤنٹر لگالینا بھی اسی حکم میں داخل ہے ۔

البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ نکاح  کا موقع چونکہ خوشی و مسرت کا موقع ہوتا ہے، اس لئے اس موقع پر اگر رشتہ دار دوست واحباب کو دعوتِ ولیمہ پر مدعو کیا جائے اور وہ برضا و رغبت بطور نذرانہ نقد وغیرہ دیں تو اس طرح کے لین دین میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ حدیث شریف میں ہدیہ لینے دینے کی ترغیب وارد ہوئی ہے اور اس کو محبت کا ذریعہ بتلایا گیا ہے، لیکن رسم ورواج سے مجبور ہوکر دینا اور اس امید پر دینا  کہ ہمارے یہاں بھی کوئی تقریب ہوگی تو وہ بھی ہمیں اتنا ہی دے گا، یہ ہدیہ نہیں ہے، بلکہ مفاد پرستی اور ظلم ہے، اس طرح کی قبیح رسومات سے اجتناب کرنا مسلمانوں پر لازم وضروری ہے ۔

عن عائشۃ ؓ قالت : قال رسول اللہ ﷺ: تہادوا تحابوا الحدیث۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، دارالفکر بیروت۵/۲۵۴، رقم : ۷۲۴۰)

و ھي التبرع بتملیک مال في حیاتہ، و ھي مستحبۃ ۔ ( الکافي : ۳/۵۹۳ ، باب الھبۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الاول 1440

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

خود کشی سے متعلق چند سوالات کے جوابات

*خود کشی سے متعلق چند سوالات کے جوابات*

سوال :

مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ دور حاضر میں ڈپریشن بڑھ جانے کی وجہ خودکشی کے واقعات بڑھ گئے ہیں اس میں بعض مرتبہ ذہنی طور پر مریض اس قدر ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے کہ اچھے برے کی تمیز ختم ہوجاتی ہےکبھی وہ اپنا غم ہلکا کرنے کے لئے شراب یا کسی اور چیز کا سہارا لیتا ہے اسی طرح کچھ لوگ جراثیم کش دوائیں چیونٹی کا پاؤڈر وغیرہ استعمال کرلیتے ہیں یعنی کچھ لوگوں کی نیت مرنے کی نہیں ہوتی مگر مقدار زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہے تو کیا یہ خودکشی میں داخل ہے؟ اسی طرح جنونی کیفیت میں پھانسی لگالیں یا کہیں سے کود جائیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر آدمی نے اپنے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر موت کو قریب دیکھ کر توبہ کرلے تو کیا اس توبہ قبول ہوجائیگی؟ مطلب یہ کہ کسی نے زہر استعمال کرلیا خودکشی کی نیت سے یا تیز دھار ہتھیار سے کسی عضو کو کاٹ لیا اور  کچھ دیر بعد موت واقع ہوگئی لیکن موت سے پہلے اگر توبہ کرلے تو کیا توبہ قبول ہوگی؟
اسی طرح جن لوگوں پر خودکشی کا اطلاق ہوجائے تو ان کے بحیثیت کلمہ گو ہونے کے آخرت میں سزا بھگتنے کے بعد معافی کا موقع ہوگا یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : محمد رافع الدین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر خود کشی کی نیت سے مذکورہ اقدام نہ کیے گئے ہوں لیکن اس اقدام کی وجہ سے مرجائے تو ایسا شخص خود کشی کا مرتکب تو نہیں کہا جائے گا، لیکن خود کو تکلیف پہنچانے اور شراب وغیرہ پینے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔

اگر کوئی خود کشی کے ارادہ سے زہر کھالے یا دھار دار ہتھیار سے کوئی عضو کاٹ لے لیکن حالتِ نزع سے پہلے پہلے سچی پکی توبہ کرلے تو یہ عنداللہ مقبول ہوگی، اور ایسا شخص خود کشی جیسے گناہِ کبیرہ  کا ارتکاب کرنے والا شمار نہیں ہوگا۔

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا۔ (سورةالنساء : آیت ١٤)

ولیست التوبة ۔۔۔۔ وقع فی النزع ورأی ملائکة العذاب قال انی تبت لآن یعنی حین یساق روحہ فحینئذ لایقبل من کافر ایمان ولامن عاص توبة۔ (تفسیرمظہری : ٢٥٧/٢)

عن ابن عمر رضي االلہ عنہ عن النبي صلی االلہ علیہ وسلم قال : إن االلہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ (ترمذي شریف، کتاب الدعوات، باب إن اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر، رقم : ۳۵۳۷)

خود کشی اکبر الکبائر میں سے ہے، احادیث میں خود کشی کرنے والے کے متعلق سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، اور فقہاء کرام نے اکابر و با اثر علماء کو ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو تنبیہ ہو، اور اس سے عبرت حاصل کریں۔ تاہم اسے کافر نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس کے انتقال کی خبر سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا جائے گا۔ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کی جائے گی۔ جس طرح دیگر معاصی اور گناہ کے کام حرام ہیں اسی طرح خودکشی بھی حرام ہے، جس طرح دوسرے گناہوں پر مؤاخذہ ہے اسی طرح خود کشی پر بھی ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص اپنے کئے کی سزا پا لینے کے بعد جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ اس لئے کہ اہلِ سنت والجماعت کا متفقہ مسلک یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اس وقت تک دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا جب تک اس گناہ کبیرہ کو حلال نہ سمجھے جس کی حرمت نصِّ قطعی سے ثابت ہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ۔ (سورۃ النساء : ۱۱۶)

اعلم إن الروایات قد صحت أن أہل التوحید یعذبون، ثم یخرجون منہا ولا یخلدون ۔ (فتح الملہم، اشرفیہ دیوبند : ۱/۲۲۵) 

من قتل نفسہ ولوعمدا یغسل ویصلی علیہ وبہ یفتی وان کان اعظم وزرامن قاتل غیرہ (وقال ابن عابدین)قولہ وبہ یفتی لانہ فاسق غیر ساع فی الارض بالفساد وان کان باغیا علی نفسہ کسائر فساق المسلمین ۔ (شامی : ١/٦٤٣)

ان الکبیرة التی ھی غیرالکفر لاتخرج العبدالمومن من الایمان لبقاء التصدیق الذی ھو حقیقة الایمان۔ (شرح العقائد : ١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1440

اذان و اقامت کا جواب دینے کا طریقہ

*اذان و اقامت  کا جواب دینے کا طریقہ*

سوال :

اذان و اقامت کا جواب دینے کا طریقہ مفصل و مدلل بیان فرمائیں ۔

اور درود شریف اذان کے بعد پڑھنا ہے تو کب پڑھنا ہے؟ اذان کی دعا سے پہلے یا پھر بعد میں؟
(المستفتی : محمود آئی ٹی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان و اقامت کے  جواب میں مؤذن و مکبرکے کلماتِ اذان و اقامت دوہرائے جائیں گے، لیکن " حی علی الصلوٰۃ"  اور "حی علی الفلاح" کے جواب میں "لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم" کہا جائے گا جیسا کہ متعدد احادیث میں مذکور ہے ۔

اسی طرح اقامت میں "قد قامت الصلوۃ" کے جواب میں "اقامہا اللہ وأدامہا" کہا جائے گا جیسا کہ ابوداؤد شریف کی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ 

فجر کی اذان میں جب مؤذن ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہے تو اس کے جواب میں ’’صدقتَ وبَرَرْتَ‘‘ (تونے سچ کہا اور تونے نیکی کا کام کیا) کے الفاظ کہے جائیں گے، لیکن یہ الفاظ حدیث شریف میں مذکور نہیں ہیں، بلکہ بعض سلف سے منقول ہیں، اور بعض علماء نے اس میں یہ بھی اضافہ کیا ہے : وبالحق نطقتَ (تونے حق بات زبان سے نکالی) ۔ لہٰذا ان الفاظ کو مسنون سمجھے بغیر کہا جائے گا ۔

2) اذان کے بعد پہلے درود شریف پڑھنا ہے اس کے بعد دعا پڑھی جائے گی حدیث شریف یہی مذکور ہے ۔

1) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ ، عَنْخُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسَافٍ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ أَحَدُكُمُ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ. ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ : أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ. ثُمَّ قَالَ : حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ. ثُمَّ قَالَ : حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ. ثُمَّ قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ. ثُمَّ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 385)

عن عبد اللہ بن الحارث بن نوفل أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا سمع المؤذن یؤذن، قال: اللہ أکبر اللہ أکبر -إلی قولہ- وإذا قال: حي علی الصلاۃ، قال: لا حول ولا قوۃ إلا با اللہ العلي العظیم ۔ (مصنف عبدالرزاق، المجلس العلمي ۱/ ۴۷۸، رقم: ۱۸۴۳)

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنِيرَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، أَوْ عَنْبَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ بِلَالًا أَخَذَ فِي الْإِقَامَةِ، فَلَمَّا أَنْ قَالَ : قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَقَامَهَا اللَّهُ وَأَدَامَهَا ". وَقَالَ فِي سَائِرِ الْإِقَامَةِ كَنَحْوِ حَدِيثِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْأَذَانِ ۔ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 385)

ویجیب الإقامۃ ندبا إجماعا، کالأذان، ویقول: عند قدقامت الصلوۃ، أقامہا اللہ وأدامہا۔ (شامي، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، زکریا ۲/ ۷۱)

وفي ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ فیقول : صدقت وبررت ۔ (درمختار) ونقل الشیخ اسماعیل عن شرح الطحاوي زیادۃ ’’وبالحق نطقت‘‘۔ (شامي ۲؍۶۷ زکریا)

قال الرافعي: ولم یرد حدیث اٰخر في ’’صدقت وبررت‘‘ بل نقلوہ عن بعض السلف۔ (تقریرات رافعي ۲؍۴۷)

2) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ حَيْوَةَ ، وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ وَغَيْرِهِمَا ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : "إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 384)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1440