اتوار، 11 نومبر، 2018

بسی کے آگے کے نمبروں کی خرید و فروخت کا حکم

*بسی کے آگے کے نمبروں کی خرید و فروخت کا حکم*

سوال نمبر 07

مالیگاؤں میں بسی لگانے اور اٹھانے کا جو نظام ہے امید ہے مفتیان کرام اس سے واقف ہونگے، اسی ضمن میں مندرجہ ذیل سوال دریافت کیا گیا ہے، توجہ فرمائیں :

بسی کا نظم سنبھالنے والے شروع کے کچھ نمبرات آپ اپنے پاس رکھتے ہیں اور انکے قریبی لوگوں کو اس کا فائدہ ہوتا ہے، اور وہ لوگ قریبی نمبرات فروخت بھی کرتے ہیں، میں ضرورت مند ہوں، ناظم ِ بسی اسی ہزار والی بِسّیِ قریبی نمبر پر پانچ ہزار میں دے رہے ہیں؛ یعنی مجھے بسی اٹھنے پر پچھتر ہزار ہی ملیں گے،
کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟؟؟
میں قریبی نمبر خرید سکتا ہوں؟؟
( المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں بسی کے منتظم اور رکن کا آپس میں اس طرح کا معاملہ کرنا دو وجوہات کی بناء پر ناجائز و حرام ہے۔

پہلا یہ کہ اعانت کی شرط پر مال کا لین دین کیا جارہا ہے، مطلب بسی کا منتظم صرف آگے نمبر دینے کی وجہ سے جو مال طلب کرے گا اور رکن جو مال ادا کرے گا یہ رشوت کہلائے گا۔ اور رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے۔ 

دوسرے یہ کہ کم مال کو زیادہ مال کے بدلے فروخت کیا جارہا ہے، مطلب بسی کا منتظم پچہتر ہزار کو رکن سے اسی ہزار میں فروخت کررہا ہے جو کہ سود میں شمار ہوگا۔

صحیح مسلم میں حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے :
لعن رسول اللّٰہ ﷺ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال:ھم سواء
سود کھانے والے ،سودکھلانے والے،سود لکھنے والے اور سود پرگواہی دینے والے پر لعنت فرمائی،اور فرمایا کہ گناہ میں سب برابر ہیں۔

لہٰذا منتظم کو چاہئے کہ اگر ضابطہ کے مطابق اسے کچھ نمبرات پہلے لینے کا اختیار ہے تو وہ ضرورت مند افراد کو بغیر کسی عوظ کے دے دے، اس پر رقم وغيرہ کا مطالبہ نہ کرے، جس کے لیے وہ عنداللہ اجر عظیم کا مستحق ہوگا. اور اگر کسی سے یہ رقم لے لی گئی ہے تو اسے واپس کرنا ضروری ہے، اور اگر مالک کو لوٹانا ممكن نہ ہوتو بلانیتِ ثواب اس کو غرباء اور مساکین میں تقسیم کیا جائے گا۔

وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)

عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي  والمرتشي في الحکم،)

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي : ۶؍۳۸۵)فقط
محمد عامر عثمانی ملی
28 جنوری 2017

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں