اتوار، 25 نومبر، 2018

نکاح کی دعوت میں تحائف کے لین دین کا حکم

*نکاح کی دعوت میں تحائف کے لین دین کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع  متین اس مسئلے کے بارے میں دور حاضر میں جو رواج چلاہے کہ شادیوں میں دعوت دینے کیلئے شادی کارڈ پر لکھا ہوتا ہے *"دعوت طعام برائے"* اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد یا پہلے کچھ نہ کچھ نقد رقم یا برتن وغیرہ دینا ہوتا ہے اگر یہ رقم یا برتن وغیرہ نہ دیا جائے اور ایسے کھانا کھاکر واپس آجائے تو یہ کھانا کھانا کیسا ہوگا؟ اور اسی طرح شادی کارڈ پر دعوت طعام تحریر کرنا یا یہ اشارہ کرنا کہ کچھ نہ کچھ نہ عطیہ یا تحفہ دیں تو کیا کسی بھی شکل میں عطیہ یا ہدیہ کا سوال کیا جاسکتا ہے ؟ اور اگر رسم رواج کو سامنے رکھتے ہو ئے اس طرح کا سوال کرنا کیسا ہے ؟ اوراسی طرح  *دعوت ولیمہ* لکھنے کے باجود بھی عطیہ و تحفہ وصولی کیلئے لوگ کاؤنٹر لگا کر بیٹھتے ہیں تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل رہنمائی فرمائیں ۔
(المستفتی : عبد الرحمن نہال احمد، شبیر نگر سیلانی چوک)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں اگر نکاح کی خوشی میں دعوت طعام دی گئی ہے تو اس میں مدعو حضرات کا صرف کھانا کھا کر بغیر تحفہ تحائف دئیے واپس آجانا بلا کراہت جائز ہے، اگر اس سے دعوت دینے والے کو برا لگتا ہوتو یہ خود اس کی بدبختی ہے ۔ کیونکہ عوض پانے کے لئے کسی کو نکاح کی دعوت دینا شرعاً درست نہیں ہے ۔

دعوتِ ولیمہ کے انویٹیشن کارڈ پر دعوت طعام برائے اس نیت سے لکھوانا  کہ مدعو حضرات تحائف لے کر آئیں یہ بے غیرتی کی بات ہے جو کہ شرعاً بھی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ اسی طرح دعوتِ ولیمہ لکھنے کے باوجود تحائف وصولی کا کاؤنٹر لگالینا بھی اسی حکم میں داخل ہے ۔

البتہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ نکاح  کا موقع چونکہ خوشی و مسرت کا موقع ہوتا ہے، اس لئے اس موقع پر اگر رشتہ دار دوست واحباب کو دعوتِ ولیمہ پر مدعو کیا جائے اور وہ برضا و رغبت بطور نذرانہ نقد وغیرہ دیں تو اس طرح کے لین دین میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ حدیث شریف میں ہدیہ لینے دینے کی ترغیب وارد ہوئی ہے اور اس کو محبت کا ذریعہ بتلایا گیا ہے، لیکن رسم ورواج سے مجبور ہوکر دینا اور اس امید پر دینا  کہ ہمارے یہاں بھی کوئی تقریب ہوگی تو وہ بھی ہمیں اتنا ہی دے گا، یہ ہدیہ نہیں ہے، بلکہ مفاد پرستی اور ظلم ہے، اس طرح کی قبیح رسومات سے اجتناب کرنا مسلمانوں پر لازم وضروری ہے ۔

عن عائشۃ ؓ قالت : قال رسول اللہ ﷺ: تہادوا تحابوا الحدیث۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، دارالفکر بیروت۵/۲۵۴، رقم : ۷۲۴۰)

و ھي التبرع بتملیک مال في حیاتہ، و ھي مستحبۃ ۔ ( الکافي : ۳/۵۹۳ ، باب الھبۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الاول 1440

4 تبصرے:

  1. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. بڑی صراحت کے ساتھ جواب دینے کے لیے بہت بہت شکریہ ۔ اللہ آپ کے علم میں خوب برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں