جمعرات، 8 نومبر، 2018

پلاسٹک اور چٹائی کی ٹوپیوں میں نماز کا حکم

*پلاسٹک اور چٹائی کی ٹوپیوں میں نماز کا حکم*

سوال :

مسجدمیں آجکل فائبر یا پلاسٹک اور کچھ مساجد میں گھاس کی ٹوپیاں ہواکرتی ہیں، جسکے متعلق بریلوی کے ایک عالم نے حرام کا فتویٰ دیا ہے ۔ علماء دیوبند اس معاملے میں کیا کہنا ہے؟
(المستفتی : محمد مسیب، جنتور)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پلاسٹک، اور گھاس پھوس کی ایسی ٹوپیاں جن کو لوگ پہن کر شرفاء اور معززین کی مجلس میں جانے سے عار اور شرم محسوس کرتے ہوں تو نماز میں ایسی ٹوپیوں کا استعمال خلافِ ادب ہے، حرام نہیں۔ البتہ ان ٹوپیوں میں نماز بہرحال ہوجاتی ہے، یہ سمجھنا غلط ہے کہ ان ٹوپیوں میں نماز ہوتی ہی نہیں ۔ اسی طرح اگر کسی وجہ ٹوپی چھوٹ گئی ہوتو ننگے سر نماز پڑھ لینے سے بہتر ہے کہ ان ٹوپیوں کو پہن کر نماز پڑھ لی جائے ۔

مساجد کے ذمہ داران کو چاہیے کہ ایسی ٹوپیوں کو مسجد سے ہٹادیں، اگر رکھنا ہو تو اچھی ٹوپیاں رکھیں مثلاً آج کل بازار میں پلاسٹک کے تاروں سے بنی ہوئی سفید ٹوپی مہیا ہے جو دور سے بالکل کپڑے کی ٹوپی کے مشابہ معلوم ہوتی ہے ۔ اس کے پہننے میں کوئی کراہت نہیں ہے، اور اس کو پہن کر نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز سب سے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو مستقل اپنے پاس اچھی اور صاف ستھری ٹوپی رکھنا چاہیے تاکہ ہر قسم کے اختلاف و انتشار سے حفاظت ہو ۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : یٰبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ (سورۃ الأعراف، آیت : ۳۱)

وصلاتہ في ثیاب بذلة یلبسہا في بیتہ ومِہنة (درمختار) قال الشامي تحتہ: وفسرہا في شرح الوقایة بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہة تنزیہیة اھ (رد المحتار علی الدر المختار : ۲/۴۰۷)

وکرہ صلا تہ حاسراً أی کاشفاً رأسہ للتکاسل۔ (در مختار مع الشامی : ۲؍۴۰۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شوال المکرم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں