جمعرات، 22 نومبر، 2018

قبروں پر کیے جانے والے بعض اعمال کا حکم

سوال :

محترم و مکرم مفتی صاحب ! درج ذیل سوالات کے مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
1) مردہ کو دفن کیا گیا، کچھ دنوں بعد قبر پر پانی ڈالنا کیسا ہے؟
2) قبر میں دوسرے مردہ کو کتنے دن بعد داخل کرنا درست ہے؟
3) قبر  کسی مَرد کی ہے اسی قبر میں عورت کو دفن کرنے کا کیا حکم ہے؟
4) قبر میں اہل قبر کو عذاب نہ ہو اس عقیدہ سے قبر پر درخت پیڑ پودے لگانے کا کیا حکم ہے،  نیز  پھول چڑھانے، اگربتی لگانے، عطر چھڑکنے اور پیالہ میں پانی رکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
(ألمستفتی :حافظ سفیان احمد ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تدفین کے فوراً بعد قبر پانی چھڑکنا مسنون و مستحب ہے، اور کچھ دنوں کے بعد جب قبر کی مٹی منتشر ہونے لگے اس وقت بھی پانی ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ بلا ضرورت یا ہر پیر جمعرات، اسی طرح عاشورا یا شب برأت کے موقع پر قبر وں  پر  پانی  ڈالنا بدعتِ قبیحہ ہے، نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ کسی حدیث سے ثابت ہے اور نہ فقہ کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے۔

عن جعفر بن محمد، عن أبيه:أن النبي صلى اللہ عليه وسلم رش على قبر ابنه إبراهيم ووضع عليه حصباء۔ (الرش تفريق الماء والحصباء : الحصى ومعلوم أن إبراهيم مات طفلا لا وزر عليه وإنما يفعل ذلك الرسول تعليما لنا۔ (مسند الإمام الشافعي، رقم الحدیث : ۵۹۹)

ولابأس برش الماء علیہ حفظاً لترابہ عن الاندراس۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : الفصل السادس فی القبر، ۱؍۱۶۶)

2) جب مدفون میت کے جسم کے بوسیدہ ہوکر ختم ہوجانے کا غالب گمان ہوجائے تب اس قبر میں دوسری میت دفن کی جاسکتی ہے، شرعاً کوئی مخصوص مدت متعین نہیں ہے۔

ولو بلی المیت وصار تراباجاز دفن غیرہ فی قبرہ وزرعہ والبناء علیہ۔ (شامی : ٣/١٨٣)

3) عورت کی پرانی قبر میں مرد کی میت دفن کرنا بلا کراہت درست ہے، اسی طرح اس کے برعکس کرنا بھی بلاتردد جائز ہے۔

4) قبر پر پودے لگانے کو علما بہتر نہیں سمجھتے ہیں، اور جس حدیث شریف میں حضور ﷺ کا شاخ گاڑنا ثابت ہے وہ حضور ﷺ کے ہاتھ کی برکت اور حضور ﷺ کیساتھ خاص ہے، اسلئے اس سے استدلال درست نہیں ہے۔  لیکن خود رو پودے اور گھاس اُگ جائے تو ہری گھاس کو بلا ضرورت کاٹنا درست نہیں ہے۔

البتہ پھول چڑھانا، اگربتی لگانا، عطر چھڑکنا، اور پیالے میں پانی رکھنا بے اصل ہے، اس سے میت کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ نیز یہ اعمال حضور اکرم ﷺ، خلفائے راشدین، جمہور صحابہ، ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب ضروری ہے۔

وضع الناس الجرید ونحوہ فی القبر عملاً بہذا الحدیث قال الطرطوشی لأن ذلک خاص ببرکۃ یدہ ۔ (اعلاء السنن ، کتاب الجنائز،باب استحباب غرز الجریدۃ الرطبۃ علی القبر ، ۸/۳۳۱)

وقال الراقم : اتفق الخطابی والطرطوشی والقاضی عیاض علی المنع، وقولہم أولیٰ بالاتباع حیث أصبح مثل تلک المسامحات والتعللات مثاراً للبدع المنکرۃ والفتن السائرۃ ، فتری العامۃ یلقون الزہور علی القبور الخ۔ (معارف السنن، کتاب الطہارۃ ، باب التشدید فی البول اشرفیہ ۱/۲۶۵) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
03 محرم الحرام 1440

5 تبصرے:

  1. ولو بلی المیت وصار تراباجاز دفن غیرہ فی قبرہ وزرعہ والبناء علیہ۔ (شامی : ٣/١٨٣)
    السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
    مفتی صاحب اس میں وزرعه والبناء عليه ہے تو کیا معلوم ہونے کے باوجود قبر پر کھیتی باڑی کرنے میں یا تعمیری کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیا؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جب اس بات کا غالب گمان ہوجائے کہ میت بوسیدہ ہوکر مٹی ہوگئی ہوگی تو پھر اس پر زراعت اور تعمیر کرنے میں بلاشبہ کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ یہ جگہ وقف کی نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کسی جگہ پر تدفین ہوگئی تو اب قیامت تک یہ جگہ قبر ہی رہے گی، بلکہ جب میت بوسیدہ ہوجائے تو مالک زمین کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ اس زمین پر جو چاہے کرے۔ دنیا میں انسانوں کی تعداد کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ہر جگہ کسی نہ کسی کی تدفین ہوئی ہوگی۔

      واللہ تعالٰی اعلم

      حذف کریں