پیر، 26 نومبر، 2018

غیرمسلم کو سلام کرنے اور جواب دینے کا حکم

*غیرمسلم کو سلام کرنے اور جواب دینے کا حکم*

سوال :

مجھے ایک سوال کرنا تھا کہ کسی غیر مسلم کو سلام کر سکتے ہے یا نہیں؟ میری ملاقات غیر مسلم سے ہوتی ہے تو میں کس طرح ملاقات کروں؟
(المستفتی : ڈاکٹر فیصل، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمہور علماء وفقہاء اور شارحینِ حدیث نیز امام ابو حنیفہ اور امام ابویوسف رحمھم اللہ کے نزدیک حدیثِ مبارکہ "یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو" کی بناء پر غیرمسلموں کو "السلام علیکم" کے لفظ سے سلام میں پہل کرنا جائز نہیں ہے ۔ اِس لئے کہ "السلام علیکم" صرف ایک دعا ہی نہیں، بلکہ ایک اِسلامی شعار ہے، اِس لئے اس  کا استعمال اِسلامی علامت کے طور پر ہونا چاہئے، جیسا کہ دیگر شعائر اسلام صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

البتہ اگر وہ لوگ خود سلام میں پہل کریں اور "السلام علیکم" کہیں تو اس کے جواب میں صرف" وعلیکم" کہہ دیا جائے اور علماء نے لکھا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ غیرمسلم کے جواب میں ھَداک اللہ کہا جائے ۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کا کسی غیرمسلم کو سلام کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا ان سے ملاقات کے وقت " اَلسلامُ علی مَنِ اتَبَعَ الہُدیٰ" یا دیگر رسمی باتوں سے ابتداء کی جائے ۔

لاتبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ ۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم ۲؍۲۱۴ رقم: ۲۱۶۷)

إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا : وعلیکم۔ (صحیح البخاري / کیف الرد علی أہل الذمۃ السلام ۲؍۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸)

روی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’لا یبدأ الیہودي بالسلام‘‘ وعن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا یبدأ بالسلام في کتاب ولا في غیرہ ، وعن أبي یوسفؒ: لا تسلم علیہم ولا تصافحہم، وإذا دخلت فقل: السلام علی من اتبع الہدیٰ، ورخص بعض العلماء في ابتداء السلام علیہم، إذا دعت إلی ذٰلک حاجۃ، وأما إذا سلموا علینا، فقال أکثر العلماء: ینبغي أن یقال: وعلیک۔ (تفسیر الفخر الرازي الجزء العاشر، النساء: ۸۶، ۵؍۲۲۱ دار الفکر بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ربیع الاول 1440

4 تبصرے:

  1. جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    بعض مرتبہ غیر مسلم شخص نمستے کرتے ہیں اور ان کے تعلقات کی بناء پر ہمارے کچھ ایمان والے بھی ان کے جواب میں نمستے ہی کہتے ہیں اگر ان کے ان الفاظ میں جواب نہ دیا تو وہ لوگ ناراض ہوتے ہیں
    تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟
    ان کو نمستے ہی کےذریعے جواب دیا جائے پھر بعد میں توبہ کرلیا جائے اور ایسا باربار کیا جائے اور توبہ کر لی جائے تو یہ ایک طرح کا مذاق ہوجائے گا

    جواب دیںحذف کریں