پیر، 19 نومبر، 2018

انشورنس اور اس کی کمپنی میں ملازمت کا حکم

*انشورنس اور اس کی کمپنی میں ملازمت کا حکم*

سوال :

انشورنس کمپنی کے لیے کام کرنا کیسا ہے؟ میرے معلومات کے مطابق اس میں دو طرح کے کام ہے ۔
1- لائف انشورنس ( medical insurance)
2 - جنرل انشورنس General  insurance motor - insurance وغیرہ، انشورنس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟ تفصیل سے بتائیں ۔
(المستفتی : تمیم بھائی، پونے)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جان و مال کا بیمہ اصلاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ اگر پالیسی مکمل کی تو پالیسی لینے والا جتنی رقم ادا کرتا ہے، کمپنی اس سے زیادہ رقم واپس کرتی ہے جو کہ سود ہے ۔ اور سودی لین دین کرنے والوں کے متعلق حدیث شریف میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت وارد ہوئی ہے ۔ اگر پالیسی مکمل ہونے سے پہلے حادثہ پیش آگیا تو رقم پوری مل جاتی ہے، حالانکہ اس نے چند قسطیں ہی جمع کی ہیں، گویا پالیسی لینے والے کو اپنی پالیسی کا انجام معلوم نہیں، کسی کو دو تین قسطوں کی ادائیگی پر پوری رقم مل جائے گی، اور کسی کو تمام قسطیں ادا کرنی ہوں گی، ظاہر ہے کہ یہ صورت قمار( جوا) میں داخل ہے ۔ قمار اور جوئے کی حرمت نصِّ قطعی سے ثابت ہے ۔

اگر کسی نے قانونی مجبوری کی وجہ سے کسی بھی قسم کا انشورنس کروالیا تو اس کے لئے صرف اپنی جمع کی ہوئی رقم حلال ہوگی، زائد ملنے والی رقم کا استعمال اسکے لئے جائز نہ ہوگا، اس رقم کا بلا نیت ثواب فقراء اور مساکین کو دینا ضروری ہوگا ۔

البتہ ایسے علاقے جہاں فسادات کا خطرہ ہو وہاں آل انڈیا فقہ اکیڈمی کے فیصلے کے مطابق املاک کا انشورنس کرانے کی گنجائش ہے، اور فسادات کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی بھرپائی کمپنی سے وصول کرنا بھی جائز ہوگا ۔ طبعی نقصان کی صورت میں صرف جمع کردہ رقم حلال ہوگی، زائد رقم کا بلا نیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا ۔

انشورنس کمپنی میں چونکہ سود اور جوئے کے معاملات پائے جاتے ہیں، لہٰذا جس ملازمت میں سودی اور جوئے کے معاملات میں پڑنا پایا جاتا ہو ایسی ملازمت بھی جائز نہیں ہے ۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (سورۃ المائدۃ : ۹۰)

کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا۔ (شامی، ۷؍۳۹۵)

عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ. قَالَ : قُلْتُ : وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ ؟ قَالَ : إِنَّمَا نُحَدِّثُ بِمَا سَمِعْنَا ۔ (صحيح مسلم حديث نمبر ١٥٩٧)

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة، آیت ۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ربیع الاول 1440

1 تبصرہ: