پیر، 19 نومبر، 2018

علماء کرام کا مقام و مرتبہ اور ان کی توہین کا حکم

*علماء کرام کا مقام و مرتبہ اور ان کی توہین کا حکم*

✍  محمد عامر عثمانی ملی

محترم قارئین کرام ! اللہ تبارک و تعالٰی نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا، چنانچہ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر نبی آخری الزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک چلتا رہا، آپ کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا، اس کے بعد اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام کے مشن کی ذمہ داری علماء کرام کو سونپ دی اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک کہلوادیا ترمذی شریف کی روایت میں ہے :

عن ابی الدرداء قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَکَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَائً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِيتَانُ فِي الْمَائِ وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ إِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَائِ إِنَّ الْأَنْبِيَائَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا ایک راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اس کے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں۔ عالم کے لئے آسمان و زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے۔ یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں۔ پھر عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جیسے چاند کی فضیلت ستاروں پر۔ *علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک انبیاء کی وراث درہم و دینار نہیں ہوتے بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا ۔*
(ترمذی شریف)

اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ انبیاء کرام نے درہم و دینار میراث میں نہیں چھوڑے ہیں بلکہ انہوں نے علم دین کی میراث چھوڑی ہے اور یہ علم انتہائی عظیم نعمت اور بیش بہا دولت ہے، اللہ تعالٰی جس انسان کو بھی اس دولت سے مالا مال فرمائے گا، وہ یقیناً دونوں جہان میں کامیاب ہونے والا ہے ۔

علماء کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور بروز حشر ان کے درجات بہت اعلی و ارفع ہوں گے ۔

قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں کثرت سے ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ.
ترجمہ : اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا.
(سورہ مجادلہ، آیت 11)

دوسری جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
ترجمہ : اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں. (سورہ فاطر، آیت 28)

ایک جگہ اللہ تعالٰی نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے ۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ۔
ترجمہ : اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں.
(سورۃ الزمر، آیت 9)

متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی اور ان سے دشمنی و عداوت رکھنے کو ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے ۔

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَخْطُبُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ.
ترجمہ:  حمید، معاویہ بن ابی سفیان سے روایت کرتے ہیں ان کو خطبہ پڑھتے ہوئے سنا ، اس میں انہوں نے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے ۔(بخاری شریف)

نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: " لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا , وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ ۔
ترجمہ : جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے ۔ (صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب : 101)

ایک روایت میں آتا ہے :

حدثنا عطاء بن مسلم ، عن خالد الحذاء ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، عن أبيه - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " اغد عالماً ، أو متعلماً ، أو مستمعاً ، أو محباً ، ولا تكن الخامس فتهلك ۔
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے.
(شعب الإيمان للبیھقی، 1709)

حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے ۔

مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے، اور ان کی شان میں گستاخی دنیا و آخرت میں خسارے کا سبب ہے ۔

لیکن دن بدن اور گذرتے وقت کے ساتھ یہ مشاہدہ ہورہا ہے کہ عوام الناس کے دلوں میں علماء کرام کی قدر و منزلت میں کمی آرہی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علماء کرام کے تئیں بعض حضرات بغض و عناد کا شکار ہیں، جس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ امت کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا ہے کہ جو عالم ہمارے موقف کے مطابق چل رہا ہو وہ تو ہمارے لیے باعزت اور مکرم ہے اور جو ہمارے موقف سے ہٹ جائے وہ لائق تعظیم نہیں ہے ۔ علماء کو لائق تعظيم نہ سمجھنے کی ایک وجہ علاقائی تعصب بھی ہوتا ہے، اسی طرح ایک اہم وجہ علماء کرام کا عملی سیاست میں حصہ لینا بھی ہے کہ اگر کوئی عالمِ دین عملی سیاست میں حصہ لے لے تو دیگر پارٹیوں کے افراد اب اس عالم کی عزت کو اپنے لئے حلال سمجھنے لگتے ہیں، اور اس عالم کی عزت کو سرِعام اچھالا جاتا ہے، اور اسے حق گوئی اور بے باکی کا نام دیا جاتا ہے ۔

معزز قارئین کرام ! زیر نظر تحریر کے وجود میں آنے اور مذکورہ بالا تمہید کا اصل مقصد شہرِعزیز (جسے مسجدوں اور میناروں، علماء و حفاظ کا شہر کہا جاتا ہے) میں رونما ہونے والا ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے، جسے سن کر ہر ایک سلیم الفطرت مسلمان کا دل دہل اٹھا، اس واقعہ نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اور ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا ایسے شقی اور بدبخت لوگ بھی اس شہر میں رہتے ہیں جو سیاسی رقابت اور ذاتی مفاد کے لئے اس حد تک گِر سکتے ہیں کہ ایک عالم دین وہ بھی معمولی عالم دین نہیں، جس کی خدمات کا دائرہ صرف مالیگاؤں شہر تک نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے، جو کہ متعدد معتبر و مؤقر دینی اور فلاحی اداروں کے صدر اور رکن کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، جن کی اقتداء میں ہزاروں شہریان جمعہ اور عیدالفطر کی نماز ادا کرتے ہیں، ایسے باوقار اور جید عالم دین کے ساتھ ایسا  سلوک کیا گیا جسے نقل کرنا بھی دل پر گراں گذر رہا ہے ۔

شہر کے ایک معتبر اخبار کی اطلاع کے مطابق ایک مخصوص برادری کے اجتماعی نکاح کی تقریب میں شرکت کی غرض سے جب مذکورہ عالمِ دین وہاں پہنچے تو کچھ افراد انہیں اسٹیج پر لے گئے، اور جب وہ اسٹیج پر پہنچ کر بیٹھ گئے تو کچھ افراد کے درمیان چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں، اور پھر وہ ہوا جس کی وجہ سے شہر کی سنجیدہ عوام سخت بے چینی کا شکار ہے، ناظم تقریب نے مائک سے اعلان کیا کہ مذکورہ عالمِ دین اسٹیج سے تشریف لے جائیں ۔

چنانچہ راقم الحروف بحیثیت ایک مفتی یہ فتوی دیتا ہے (جس کے مستفتی شہر کے سلیم الفطرت شہریان ہیں، نجی نمبر پر بھی بعض حضرات نے سوال کئے ہیں) کہ جن بدبختوں کی ایما اور خواہش پر مذکورہ عالمِ دین کے ساتھ ایسا قبیح، اخلاق سوز اور گستاخانہ فعل انجام دیا گیا ہے وہ سب کے سب سخت گناہ گار ہیں، کیونکہ کسی دنیوی وشخصی غرض کی وجہ سے کسی عالمِ دین سے بغض رکھنا فسق وفجور ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کی تذلیل و تنقیص اور توہین کرنا انتہائی خطرناک اور مبغوض عمل ہے ۔
لہٰذا ان سب پر توبہ و استغفار لازم ہے اور جب تک یہ لوگ مذکورہ عالمِ دین سے عوامی سطح پر یا انفرادی طور پر معافی نہیں مانگ لیتے دنیا و آخرت میں اللہ تعالی کی گرفت سے بچ نہیں سکتے ۔

وفی جامع الفصولین بغض عالمًا او فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر (جامع الفصولین‘ الباب الثامن والثلثون فی مسائل کلمات الکفر ۲/۳۰۹‘ ناشر اسلامی کتب خانہ کراچی)

یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ تھے جو ایک عالمِ دین کے دفاع اور حمایت میں لکھے گئے ہیں، اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ اس تحریر کو قبول فرمالے، اور ہمیں وارثین انبیاء کی قدر دانی اور ان کی عزت و اکرام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین

*وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں