ہفتہ، 17 نومبر، 2018

زندگی میں اولاد کے درمیان جائداد تقسیم کرنے کا حکم

*زندگی میں اولاد کے درمیان جائداد تقسیم کرنے کا حکم*

سوال :

زید حیات ہے اور اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کی کیا ترتیب ہوگی؟ کیا لڑکے لڑکیوں کو برابر برابر  ملے گا؟ یا لڑکوں کو دو حصہ اور لڑکیوں کو ایک حصہ ملے گا؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، بمبئی)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کی وفات کے بعد کے اس کے چھوڑے ہوئے مال کو ترکہ کہا جاتا ہے۔ اور زندگی میں وارثین کے درمیان جائداد تقسیم کردینے کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ کہتے ہیں، دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں زید خود اپنی جائداد برضا ورغبت اپنے وارثین میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو یہ ہبہ ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے لئے جتنا مال رکھنا چاہے رکھ لے بقیہ مال تمام اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کرے۔ (١) البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر جب کہ کسی وارث کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہوتو امام محمد رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حسبِ میراث تقسیم کرسکتا ہے، یعنی ہر لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر بھی دیا جاسکتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
صورت مسئولہ میں آپ کے والد کو چاہئے کہ اپنے اور اپنی بیوی (آپ کی والدہ) کے لئے بہ قدر ضرورت رکھ کر مابقیہ تمام جائیداد ایک بیٹے اور پانچ بیٹیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کرکے ہر ایک کو مکمل قبضہ دخل کے ساتھ دیدے اور اپنا عمل دخل ختم کرلے، زندگی میں تقسیم جائیداد کی بہتر اور مستحب شکل یہی ہے؛ باقی اس کی بھی گنجائش ہے کہ وہ للذکر مثل حظ الانثیین (بیٹے کو بیٹیوں کا دوگنا) کے اصول پر تقسیم کرے یعنی جائیداد کے سات حصے کرکے دو حصہ بیٹے کو اور ایک ایک حصہ پانچوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو دیدے۔ (رقم الفتوی : 169269)

لیکن ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرے جس  میں  دیگر اولاد کے حق میں اضرار یعنی نقصان پہنچانے کا قصد یا اضرار کا واضح پہلو پایا جاتا ہو۔ (٢)

١) ولو وھب رجل لأولادہٖ في الصحۃ سوّی بینھم ھو المختار۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۴؍۳۹۱)

وفي الخلاصۃ : المختار التسویۃ بین الذکر والأنثیٰ في الہبۃ، ولو کان ولدہ فاسقًا۔ (البحر الرائق : ۷؍۲۸۸)

2) حاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند، ۱۷: ۵۰۸، تکملہ فتح الملہم ۲: ۶۸، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت وغیرہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم

4 تبصرے: