ہفتہ، 31 جولائی، 2021

بچپن میں چوری کی ہوتو اس کی تلافی کیسے کرے؟

سوال :
 
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی مسلم بچے نے جسکی عمر ۱۰ یا ۱۲ سال ہے کسی غیرمسلم کے یہاں چوری کی اور جب اس لڑکے کی عمر ۲۰یا ۲۲ سال ہوئی تو وه مسجد میں جماعت کے ساتھ جڑ گیا اب اللہ نے اسے ہدایت دی تو وہ جو اسنے چوری کی تھی وه بات اسکے ذہن میں اسے پریشان کرتی ہے۔ جسکے یہاں چوری کی تھی اسکا اب کوئی ٹھکانہ ہے نہ یہ پتہ ہے کہ وہ حیات ہے یا مر گیا؟ تو اب اس غیرمسلم تک اسکا مال یا اتنی قیمت کس طرح پہنچائی جائے؟ کیا کسی مدرسہ میں اتنی قیمت دینے سے اس کا کفارہ ہوجائے گا، یا جو صورت ہوگی آپ بتائیں۔
(المستفتی : محمد اظہر، میرٹھ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلوغت سے پہلے بندہ شرعی احکامات کا مکلف اور پابند نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قلم تین آدمیوں سے اٹھالیا گیا ہے، سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوجائے، بچہ پر یہاں تک کہ وہ بڑا یعنی بالغ ہوجائے۔

لہٰذا بچپن میں اگر وہ کسی کو پریشان کرے یا کسی کا مال چوری کرلے تو اس پر کوئی گناہ تو نہیں ہوگا۔ تاہم گناہ نہ ہونے کے باوجود شرعی طور پر اس نابالغ بچے کے ذمہ اس چوری شدہ مال کا واپس کرنا ضروری ہے۔ نابالغ ہونے کی وجہ سے مالک کا حق ساقط نہیں ہوتا، بلکہ اس کا حق بدستور بچے کے ذمہ باقی رہے گا۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اس کے مالک کا علم ہو تو وہ رقم اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، اگر مالک انتقال کر گیا ہے تو اس کے ورثاء کو دینا ضروری ہے، اور ورثاء کو یہ بتا کر دینا ضروری نہیں ہے کہ یہ چوری کیا ہوا مال ہے، بلکہ قرض کہہ کر بھی واپس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر مالک کا پتہ نہ چل سکے جیسا کہ سوال نامہ سے معلوم ہوتا ہے تو یہ رقم بلا نیت ثواب غرباء اور مساکین میں تقسیم کردی جائے، یا ایسے مدارس میں بھی دی جاسکتی ہے جہاں بچوں کے قیام طعام کا نظم ہو۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ ؛ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَكْبَرَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٣٩٨)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی الحجہ 1442

سواری سے کسی کا جانی یا مالی نقصان ہوجائے تو؟

سوال :

مفتی صاحب ! کبھی کبھار سڑکوں پر حادثہ ہو جاتا ہے اچانک موٹر سائیکل کے نیچے مرغی آجاتی ہے اور مرجاتی ہے پھر مالک مرغی کی قیمت وصول کرتا ہے یا کوئی گاڑی سے زخمی ہوجاتا ہے تو گاڑی والے سے پیسہ وصول کیا جاتا ہے تو کیا یہ جرمانہ کا پیسہ لینا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موٹر سائیکل وغیرہ سوار کی غلطی سے اگر کسی کا جانی یا مالی نقصان ہوجائے تو نقصان کے بقدر اس سے رقم کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز اور درست ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر کسی کی گاڑی سے اکسیڈینٹ ہوگیا ہے اور اس کی غلطی ہے تو بطور دیت گاڑی والے سے جرمانہ لے سکتے ہیں۔  (رقم الفتوی :37201)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر غلطی گاڑی والے کی ہے تو پھر اس سے مرنے والی مرغی کی قیمت یا زخمی کے علاج ومعالجہ کا خرچ وصول کرنا جائز ہے۔ اور اگر غلطی گاڑی والے کی نہیں ہے تو پھر اس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کروانا جائز نہیں ہے۔

وَلَوْ أَتْلَفَ مَالَ غَيْرِهِ بِلَا سَبْقِ إيدَاعٍ أَوْ إقْرَاضٍ ضَمِنَ بِالْإِجْمَاعِ۔ (شامی : ۶/۱۴۶)

الضمانات تجب لہا بأخذ أو بشرط۔ (قواعد الفقہ : ۸۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی الحجہ 1442

جمعرات، 29 جولائی، 2021

کپڑے کے ساتھ دخول ہوتو غسل کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! زید اپنی بیوی سے بوس کنار میں کبھی کبھی اپنا آلہ تناسل بیوی کی شرمگاہ میں کپڑے کے اوپر سے داخل کردیتا ہے تو کیا غسل واجب ہوگا یا نہیں؟ حالانکہ منی نہیں نکلتی۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ یاسر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے اپنا عضو مخصوص کپڑے کے ساتھ ہی اپنی بیوی کی شرمگاہ میں داخل کیا یہاں تک کہ حشفہ (سپاری) داخل ہوگیا اور اسے حرارت اور لذت بھی محسوس ہوئی تو اس صورت میں بالاتفاق دونو‌ں پر غسل واجب ہوجائے گا خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اگر حشفہ داخل ہوگیا لیکن کپڑا موٹا ہونے کی وجہ سے حرارت اور لذت محسوس نہیں ہوئی تب بھی محتاط قول کے مطابق میاں بیوی دونوں پر غسل واجب ہوجائے گا، کیونکہ وہ اس صورت میں بھی دخول کرنے والا شمار ہوگا۔ اور اگر حشفہ داخل نہیں ہوا تو پھر بالاتفاق غسل واجب نہیں ہوگا۔

عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : إذا جاوزالختان الختان فقد وجب الغسل۔ (ابن حبان بسند صحيح، رقم 1177)

وَلَوْ لَفَّ عَلَى ذَكَرِهِ خِرْقَةً وَأَوْلَجَ وَلَمْ يُنْزِلْ قَالَ بَعْضُهُمْ: يَجِبُ الْغُسْلُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَجِبُ. وَالْأَصَحُّ إنْ كَانَتْ الْخِرْقَةُ رَقِيقَةً بِحَيْثُ يَجِدُ حَرَارَةَ الْفَرْجِ وَاللَّذَّةِ وَجَبَ الْغُسْلُ وَإِلَّا فَلَا وَالْأَحْوَطُ وُجُوبُ الْغُسْلِ فِي الْوَجْهَيْنِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٥)

وَلَوْ لَفَّ عَلَى ذَكَرِهِ خِرْقَةً وَأَوْلَجَ وَلَمْ يُنْزِلْ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجِبُ الْغُسْلُ؛ لِأَنَّهُ يُسَمَّى مُولِجًا وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَجِبُ وَالْأَصَحُّ إنْ كَانَتْ الْخِرْقَةُ رَقِيقَةً بِحَيْثُ يَجِدُ حَرَارَةَ الْفَرْجِ وَاللَّذَّةَ وَجَبَ الْغُسْلُ وَإِلَّا فَلَا وَالْأَحْوَطُ وُجُوبُ الْغُسْلِ فِي الْوَجْهَيْنِ۔ (البحر الرائق : ١/٦٣)

(أَوْلَجَ حَشَفَتَهُ) أَوْ قَدْرَهَا (مَلْفُوفَةً بِخِرْقَةٍ، إنْ وَجَدَ لَذَّةَ) الْجِمَاعِ (وَجَبَ) الْغُسْلُ (وَإِلَّا لَا) عَلَى الْأَصَحِّ وَالْأَحْوَطُ الْوُجُوبُ۔ (شامی : ١/١٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1442

چوہا تیل میں گر کر مر جائے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا کہ تیل کے ڈبے میں چوہا گر کر مرگیا ہے، اب اس تیل کا کیا حکم ہے؟ اگر تیل ناپاک ہوگیا ہے تو اس کی پاکی کا کیا طریقہ ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تیل کے ڈبے میں اگر چوہا گر کر مرجائے تو تیل ناپاک ہوجاتا ہے، لہٰذا اس تیل کا اسی طرح کھانے میں استعمال کرنا جائز نہیں۔ البتہ اسے جلانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس ناپاک تیل کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تیل کی مقدار کے تقریباً برابر پانی اس تیل میں ڈال کر اس کو چولہے پر پکایا جائے، یہاں تک کہ پانی مکمل طور پر جل جائے، اورصرف تیل باقی رہ جائے، اس عمل کو تین مرتبہ دہرایا جائے تو تیل پاک ہوجائے گا۔

اس سلسلے میں ایک مزید آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ تیل کو پانی میں جوش دینا بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ تیل میں تقریباً اتنی ہی مقدار میں گرم پانی ڈال کر اسے ہلایا جائے، پھر کچھ ٹھہرنے کے بعد جب تیل اوپر آجائے تو تیل کو نکال لیا جائے، تین دفعہ نئے پانی میں اس عمل کے بعد یہ تیل پاک اور حلال ہوجائے گا۔

الدُّهْنُ النَّجِسُ يُغْسَلُ ثَلَاثًا بِأَنْ يُلْقَى فِي الْخَابِيَةِ ثُمَّ يُصَبَّ فِيهِ مِثْلُهُ مَاءٌ وَيُحَرَّكَ ثُمَّ يُتْرَكُ حَتَّى يَعْلُوَ الدُّهْنُ فَيُؤْخَذَ أَوْ يَثْقُبَ أَسْفَلَ الْخَابِيَةِ حَتَّى يَخْرُجَ الْمَاءُ. هَكَذَا ثَلَاثًا فَيَطْهُرَ. كَذَا فِي الزَّاهِدِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٤٢)

لَوْ تَنَجَّسَ الْعَسَلُ فَتَطْهِيرُهُ أَنْ يُصَبَّ فِيهِ مَاءٌ بِقَدْرِهِ فَيُغْلَى حَتَّى يَعُودَ إلَى مَكَانِهِ، وَالدُّهْنُ يُصَبُّ عَلَيْهِ الْمَاءُ فَيُغْلَى فَيَعْلُو الدُّهْنُ الْمَاءَ فَيُرْفَعُ بِشَيْءٍ هَكَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ اهـ... فَقَدْ صَرَّحَ فِي مَجْمَعِ الرِّوَايَةِ وَشَرْحِ الْقُدُورِيِّ أَنَّهُ يُصَبُّ عَلَيْهِ مِثْلُهُ مَاءً وَيُحَرَّكَ فَتَأَمَّلْ۔ (شامی : ١/٣٣٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1442

بدھ، 28 جولائی، 2021

کیا گونڈی، مستری کام میں برکت نہیں ہوتی؟

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب ! آج ایک دوست نے بتایا کہ گونڈی، مستری کام میں برکت نہیں ہوتی، اس کا کہنا ہے کہ اُن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ جواب دے کر معلومات میں اضافہ کریں۔
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عمارتوں میں تعمیری کام کرنے والوں کو ہمارے یہاں گونڈی، مستری کہا جاتا ہے۔ حلال روزی کمانے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو کوئی بد دعا دی ہے، بغیر تحقیق کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرنا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے، جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

جہاں تک ہماری معلومات ہے کہ یہ کام مستقل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے بعض مرتبہ یہ کام کرنے والوں کو مالی تنگی ہوجاتی ہے، لہٰذا ان لوگوں کو چاہیے کہ مستری کام کے ساتھ اور کوئی کام بھی سیکھ لیں، اور جب مستری کام نہ ہوتو یہ کام کرلیا کریں۔ نیز نمازیں ترک کرنے، جھوٹ اور وعدہ خلافی سے مکمل طور پر اجتناب کریں کہ یہ روزی میں بے برکتی کے اہم اسباب میں سے ہیں۔

قَالَ النبی صلی اللہ علیہ و سلم : من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (صحیح البخاري، رقم ١٢٩١،صحیح مسلم، رقم : ٩٣٣)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعَةٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا أَوْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ الْأَرْبَعِ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (سنن نسائی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی الحجہ 1442

منگل، 27 جولائی، 2021

کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

سوال :

امید کرتا ہوں کہ آپ بخیریت ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ ایسی کوئی حدیث ہے یا نہیں؟ اطمینان بخش جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شعبان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا جبکہ بکری کا گوشت کھانے پر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو وضو کرلو۔

ایک قول کے مطابق یہ روایات منسوخ مانی جاتی ہیں، کیونکہ اس کے بعد کی روایات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل وارد ہوا ہے کہ آپ نے وضو کی حالت آگ پر پکا ہوا گوشت تناول فرمایا جس میں بلاشبہ اونٹ کا گوشت بھی شامل ہے اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھ لی۔

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ روایات اپنے لغوی معنی پر محمول ہیں، یعنی ان احادیث میں "تَوَضَّئُوا" سے مراد نماز کا وضو نہیں بلکہ وضوء طعام یعنی صرف ہاتھ منہ دھونا ہے، جیسا کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی جس روایت سے ثابت ہوتا ہے، اس میں بھی وضو کا لفظ آیا ہے، اور یہاں بالاتفاق وضو سے ہاتھ دھونا ہی مراد لیا گیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندھ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اسے کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے جبکہ بکری میں اونٹ کی بہ نسبت چکنائی کم ہوتی ہے، اس لئے اس کے بارے میں فرمایا کہ اگر طبیعت چاہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھولیا کرو اور اگر طبیعت نہ چاہے تو کوئی حرج نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خلفائے اربعہ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، جمہور تابعین اور امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ سب کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ سَهْلٍ أَبُو عِمْرَانَ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : كَانَ آخِرَ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ۔ (ابوداؤد، رقم : 192)

قال الإمام المحدث السہارنفوري : وأما القائلون بعدم النقض فاحتجوا بحدیث جابر رضي اللّٰہ علیہ الذي أخرجہ الأربعۃ أنہ قال: ’’کان آخر الأمرین من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ترک الوضوء مما مست النار‘‘ أي تحقق الأمران: الوضوء والترک، وکان الترک آخر الأمرین، فارتفع الوضوء أي وجوبہ۔ ولہٰذا قال الترمذي : وکأن ہٰذا الحدیث ناسخ للحدیث الأول حدیث الوضوء مما مست النار، ولما کانت لحوم الإبل داخلۃ فیما مست النار، وکانت فرداً من أفرادہ، ونُسِخ وجوبُ الوضوء عنہ بجمیع أفرادہ، استلزم نسخ الوجوب عن ہٰذا الفرد أیضاً۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، ۱؍۶۵-۶۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی الحجہ 1442

نماز کے بعد کلمہ پڑھ کر اسے اللہ تعالیٰ کے پاس امانت رکھوانا

سوال :

محترم مفتی صاحب! درج ذیل پوسٹ کی تحقیق مطلوب ہے۔
ہر نماز کے بعد 3 مرتبہ پہلا کلمہ پڑھو اور یہ دعا مانگو کہ اے اللہ پاک یہ کلمہ تیرے پاس میری امانت ہے اور مرنے سے 2 منٹ پہلے یہ مجھے لوٹا دینا۔ اللہ کبھی امانت میں خیانت نہیں کرتا۔
پوسٹ آپ کے پاس ایک امانت ہے آپ بھی خیانت نہیں کریں گے اور دوسروں کے ساتھ share کرو گے۔
(المستفتی : محمود اشرف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کلمہ امانت رکھوانے والی بات بے بنیاد ہے، اس طرح کرلینے سے یہ سمجھ لینا کہ موت کے وقت کلمہ نصیب ہوجائے گا خام خیالی ہے، اس طرح کا کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یا سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، اگر یہ عمل واقعتاً مفید ہوسکتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور امت کو اس کی تلقین کرتے۔ ہمارا اصل کام یہ ہے کہ ہم پوری زندگی اللہ تعالٰی کے حکموں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں، اور خاتمہ بالخير کے لیے دعا کرتے رہیں، قوی امید ہے کہ ان شاءاللہ خاتمہ ایمان پر ہی ہوگا۔ اور ایمان پر خاتمہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہو، بلکہ دل کا ایمان کے نور سے روشن ہونا کافی ہے۔

خلاصہ یہ کہ آپ کی ارسال کردہ پوسٹ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا اسے شیئر نہ کریں اور دوسروں کو بھی دین کی صحیح معلومات سے واقف کرائیں۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ۔(صحیح مسلم، رقم : 1718)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1442

معلق تین طلاق سے بچنے کی صورت

سوال :

مفتی صاحب! زید اور اس کے بہنوئی کی بحث ہوگئی اور زید کے بہنوئی نے غصے میں آکر زید سے کہہ دیا اگر میرے گھر پر قدم رکھا تو تیری بہن کو تین طلاق۔ اس بات کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا زید کو یہ بات یاد ہے مگر اس کا بہنوئی بھول گیا اور اب زید کا بہنوئی زید کی بہن کو کہ رہا کے بہت دن ہوگئے زید گھر نہیں آیا کیا بات ہے؟ اور ایک بات یہ کہ زید کی بہن اسکے پھوپھو کے پاس ہی دی ہوئی ہے اور زید کی پھوپھو بھی کہہ رہی ہے کیا بات زید گھر نہیں آرہا ہے؟ زید اب پریشان ہے کیا کرے؟ اگر بہن کے گھر گیا تو بہن طلاق ہوجائے گی اور یہ بات صرف زید کے علم میں ہے۔ مفتی صاحب مسئلہ کا حل بتائیں زید کیا کرے؟
(المستفتی : حافظ عمران، اورنگ آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق کو جب کسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائے تو شرط پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید جب بھی اپنے بہنوئی کے گھر میں قدم رکھے گا اس کی بہن پر تین طلاق واقع ہوجائیں گی۔ البتہ ایسی صورت میں تین طلاق سے بچنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے کہ زید کا بہنوئی اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دیدے (یعنی میں تجھے ایک طلاق بائن دیتا ہوں ایسا کہہ کر اپنے نکاح سے خارج کر دے) پھر جب عدت مکمل ہوجائے یعنی اس کی بیوی حاملہ نہ ہوتو تین ماہواری گزر جائے اور اگر حاملہ ہوتو وضع حمل اور ڈیلیوری ہوجائے۔ اس کے بعد زید کی بہن اس کے بہنوئی کے لیے اجنبیہ بن جائے گی اور نکاح کے تمام احکام ختم ہوجائیں گے۔ اب زید اپنے بہنوئی کے گھر جو اس کی پھوپھی کا گھر بھی ہے اس میں چلا جائے۔ اب جبکہ زید کی بہن اس کے بہنوئی کے نکاح میں نہیں ہے تو طلاق غیرمؤثر رہے گی اور ایک مرتبہ گھر میں قدم رکھنے کے بعد شرط پوری ہوجائے گی۔ لہٰذا زید کا بہنوئی جب دوبارہ اس کی بہن سے نکاح کرے گا تو اب زید کے اس کے بہنوئی کے گھر آنے جانے سے کوئی طلاق واقع نہیں  ہوگی، کیونکہ شرط پہلے ہی پوری ہوچکی ہے۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ تدبیر اس وقت کام کرے گی جب زید کے بہنوئی نے اس سے پہلے دو طلاق نہ دی ہو۔ اگر زید کا بہنوئی پہلے ہی دو طلاق دے چکا ہوتو پھر تین طلاق سے بچنے کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ زید اپنے بہنوئی کے گھر نہ جائے۔

فِي نَوَادِرِ ابْنِ سِمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى إذَا شَكَّ فِي أَنَّهُ طَلَّقَ وَاحِدَةً أَوْ ثَلَاثًا فَهِيَ وَاحِدَةٌ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ أَوْ يَكُونَ أَكْبَرُ ظَنِّهِ عَلَى خِلَافِهِ فَإِنْ قَالَ الزَّوْجُ: عَزَمْت عَلَى أَنَّهَا ثَلَاثٌ أَوْ هِيَ عِنْدِي عَلَى أَنَّهَا ثَلَاثٌ، أَضَعُ الْأَمْرَ عَلَى أَشَدِّهِ فَأَخْبَرَهُ عُدُولٌ حَضَرُوا ذَلِكَ الْمَجْلِسَ وَقَالُوا كَانَتْ وَاحِدَةً قَالَ إذَا كَانُوا عُدُولًا أُصَدِّقُهُمْ وَآخُذُ بِقَوْلِهِمْ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٦٣)

إذَا حَلَفَ بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ أَنْ لَا يُكَلِّمَ فُلَانًا فَالسَّبِيلُ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً بَائِنَةً وَيَدَعَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، ثُمَّ يُكَلِّمَ فُلَانًا، ثُمَّ يَتَزَوَّجَهَا كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٦/٣٩٧)

فَحِيلَةُ مَنْ عَلَّقَ الثَّلَاثَ بِدُخُولِ الدَّارِ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً ثُمَّ بَعْدَ الْعِدَّةِ تَدْخُلُهَا فَتَنْحَلُّ الْيَمِينُ فَيَنْكِحُهَا۔ (شامی : ٣/٣٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1442

پیر، 26 جولائی، 2021

قربانی کے جانور کی ہڈی، چربی فروخت کرنا یا اس کے بدلے کوئی چیز لینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ قربانی کے جانور کی ہڈی یا چربی فروخت کرنا یا اس کے بدلے نمک یا اور کوئی چیز لے کر استعمال کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : مجتبی ثاقب، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اپنی قربانی کے جانور کی ہڈی یا چربی فروخت کرنا یا نمک وغیرہ کے بدلے دینے کی اگرچہ گنجائش ہے، لیکن اس کی قیمت یا اس کے عوض جو نمک وغیرہ لیا گیا وہ یا پھر اس نمک وغیرہ کی قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ قربانی کے جانور سے نفع حاصل کرنے میں شمار ہوتا ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ دوسروں کے یہاں سے ہدیہ آئے ہوئے گوشت کی ہڈی یا چربی وغیرہ فروخت کرکے اس کی قیمت یا اس کے بدلے میں لئے گئے نمک وغیرہ کا استعمال بلاکراہت درست ہے۔

فَكَمَا يُكْرَهُ لَهُ أَنْ يُعْطِيَ جِلْدَهَا الْجَزَّارَ. فَكَذَلِكَ يُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَبِيعَ الْجِلْدَ فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ كَمَا لَوْ بَاعَ شَيْئًا مِنْ لَحْمِهَا۔ (المبسوط للسرخسی : ج ١٢/ص ١٤)

(فَإِنْ) (بِيعَ اللَّحْمُ أَوْ الْجِلْدُ بِهِ) أَيْ بِمُسْتَهْلَكٍ (أَوْ بِدَرَاهِمَ) (تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ)۔ (شامی : ٦/٣٢٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی الحجہ 1442

اتوار، 25 جولائی، 2021

چرم قربانی کے بدلے دی جانے والی رقم کی مد کیا ہے؟

سوال :

مفتی صاحب! امسال ہمارے یہاں جانوروں کی کھال کی کوئی قیمت نہیں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے یا پھر بہت سے لوگوں نے اسے جمیعت علماء میں دے دیا ہے۔ لیکن چونکہ علماء کرام کی طرف سے یہ اپیل آئی تھی کہ کھالوں کی قیمت بالکل ختم ہوچکی ہے اس لیے اب نقد رقومات سے مدارس کا تعاون کیا جائے، پوچھنا یہ تھا کہ اب اگر ہم اپنی طرف سے کچھ رقم مدارس میں دیں گے تو اسے کس مَد میں لکھوایا جائے؟ اسے چرم قربانی کہا جائے یا عطیہ؟ براہ کرم تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صادق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کے جانور کی کھال بذات خود استعمال کی جاسکتی ہے یا کسی کو ہدیہ بھی دی جاسکتی ہے۔ لیکن جب اسے فروخت کردیا جائے تو اُس کی رقم صدقہ واجبہ بن جاتی ہے، یعنی اس رقم کا صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اور اس رقم  کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ کھال فروخت نہیں کی گئی ہے، بلکہ پھینک دی گئی ہے یا کسی ادارہ کو دے دی گئی ہے اور اب آپ اپنی طرف سے مزید کچھ رقم دینا چاہتے ہیں تو یہ چرم قربانی کی مَد نہیں ہوگی بلکہ یہ رقم عطیہ کہلائے گی، لہٰذا اس رقم کو مستحقین زکوٰۃ کو یا ایسے مدارس میں دینا ضروری نہیں ہے جہاں زکوٰۃ کا مصرف ہو۔ بلکہ یہ رقم مدارس ومکاتب اور مساجد جہاں بھی آپ دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔

نوٹ : قیام وطعام والے مدارس کے مالی حالات چونکہ دن بدن انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں، لہٰذا ان کو ہی ترجیح دینا چاہیے۔

ولا بَأْسَ بِأنْ يَشْتَرِيَ بِهِ ما يَنْتَفِعُ بِعَيْنِهِ فِي البَيْتِ مَعَ بَقائِهِ اسْتِحْسانًا۔ (فتح القدیر : ۸/۴۳۶)

وَيَتَصَدَّقُ بِجِلْدِهَا، أَوْ يَعْمَلُ مِنْهُ نَحْوَ غِرْبَالٍ، أَوْ جِرَابٍ۔ (البحر الرائق : ٨/٢٠٣)

أخرج أحمد في مسندہ حدیثًا طویلاً طرفہ ہٰذا : وَلَا تَبِيعُوا لُحُومَ الْهَدْيِ وَالْأَضَاحِيِّ فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَلَا تَبِيعُوهَا وَإِنْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ لَحْمِهَا فَكُلُوا إِنْ شِئْتُمْ۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۴؍۱۵ رقم: ۱۶۳۱۲)

(فَإِنْ) (بِيعَ اللَّحْمُ أَوْ الْجِلْدُ بِهِ) أَيْ بِمُسْتَهْلَكٍ (أَوْ بِدَرَاهِمَ) (تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ)۔ (شامی : ٦/٣٢٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی الحجہ 1442