منگل، 27 جولائی، 2021

کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

سوال :

امید کرتا ہوں کہ آپ بخیریت ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ ایسی کوئی حدیث ہے یا نہیں؟ اطمینان بخش جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شعبان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بعض روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا جبکہ بکری کا گوشت کھانے پر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو وضو کرلو۔

ایک قول کے مطابق یہ روایات منسوخ مانی جاتی ہیں، کیونکہ اس کے بعد کی روایات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل وارد ہوا ہے کہ آپ نے وضو کی حالت آگ پر پکا ہوا گوشت تناول فرمایا جس میں بلاشبہ اونٹ کا گوشت بھی شامل ہے اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھ لی۔

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ روایات اپنے لغوی معنی پر محمول ہیں، یعنی ان احادیث میں "تَوَضَّئُوا" سے مراد نماز کا وضو نہیں بلکہ وضوء طعام یعنی صرف ہاتھ منہ دھونا ہے، جیسا کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی جس روایت سے ثابت ہوتا ہے، اس میں بھی وضو کا لفظ آیا ہے، اور یہاں بالاتفاق وضو سے ہاتھ دھونا ہی مراد لیا گیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندھ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اسے کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے جبکہ بکری میں اونٹ کی بہ نسبت چکنائی کم ہوتی ہے، اس لئے اس کے بارے میں فرمایا کہ اگر طبیعت چاہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھولیا کرو اور اگر طبیعت نہ چاہے تو کوئی حرج نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خلفائے اربعہ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، جمہور تابعین اور امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ سب کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ سَهْلٍ أَبُو عِمْرَانَ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ : كَانَ آخِرَ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ۔ (ابوداؤد، رقم : 192)

قال الإمام المحدث السہارنفوري : وأما القائلون بعدم النقض فاحتجوا بحدیث جابر رضي اللّٰہ علیہ الذي أخرجہ الأربعۃ أنہ قال: ’’کان آخر الأمرین من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ترک الوضوء مما مست النار‘‘ أي تحقق الأمران: الوضوء والترک، وکان الترک آخر الأمرین، فارتفع الوضوء أي وجوبہ۔ ولہٰذا قال الترمذي : وکأن ہٰذا الحدیث ناسخ للحدیث الأول حدیث الوضوء مما مست النار، ولما کانت لحوم الإبل داخلۃ فیما مست النار، وکانت فرداً من أفرادہ، ونُسِخ وجوبُ الوضوء عنہ بجمیع أفرادہ، استلزم نسخ الوجوب عن ہٰذا الفرد أیضاً۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، ۱؍۶۵-۶۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی الحجہ 1442

2 تبصرے: