منگل، 6 جولائی، 2021

دسواں، بیسواں، چالیسواں اور برسی کی شرعی حیثیت

سوال :

مفتی صاحب! کسی کے انتقال کےبعد کچھ لوگ تیسرا، دسواں، بیسواں، چالیسواں برسی کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اِن دنوں قرآن خوانی ہوتی ہے اور کھانا پکتا ہے اُس پر فاتحہ ہوتی ہے (میّت) کے قریبی رشتہ دار اور جو لوگ جنازے میں شریک تھے انہیں دعوت دی جاتی ہے۔ ایسے موقع پر دعوت کھانا جائز ہے؟
(المستفتی : انصاری عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت کے لیے ایصالِ ثواب کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے کسی دن یا وقت کو مقرر کرنا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ حضراتِ صحابہ، تابعین تبع تابعین اور ائمہٴ مجتہدین سے۔ یہ دین میں ایک نئی چیز ہے جسے بعد کے لوگوں نے ایجاد کیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
کسی کے انتقال پر چالیسویں دن، چھ مہینہ پر یا سال مکمل ہونے پر چالیسویں، چھ ماہی اور برسی کی جو فاتحہ ہوتی ہیں اور ان کا ایصال ثواب کیا جاتا ہے، یہ سب محض رسومات وبدعات اور ناجائز ہیں، شریعت میں ایصال ثواب کے لیے کسی دن یا عمل وغیرہ کی تخصیص ثابت نہیں، لوگوں نے اپنی طرف سے یہ سب چیزیں گھڑی ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایصال ثواب کے ان سب طریقوں سے بچنا چاہیے اور مرحوم کے اعزہ، دوست واحباب اور متعلقین وغیرہ میں سے جو شخص بھی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا چاہے تو کسی دن یا عمل کی تخصیص کے بغیر انفرادی طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر مرحوم کو اس کا ثواب بخش دے ، مثلاً ایک قرآن یا اس کی چند سورتیں پڑھ کر ان کا ثواب بخش دے، غریبوں کو صدقہ خیرات دے کر اس کا ایصال ثواب کردے وغیرہ، اس میں نہ تو لوگوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی کو اطلاع دینے کی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کے تمام شریعت کے مطابق انجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ (فتوی نمبر: 148678)

مذکورہ بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں اور برسی کی رسم بدعت اور گمراہی ہے۔ چنانچہ اس ممنوع رسم میں شرکت کرنا بدعت کی حوصلہ افزائی کہلائے گی۔ لہٰذا اس رسم میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ، وَهِيَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ: وَرَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ " كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصُنْعَهُمْ الطَّعَامَ مِنْ النِّيَاحَةِ ". اهـ. وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ. وَفِيهَا مِنْ كِتَابِ الِاسْتِحْسَانِ: وَإِنْ اتَّخَذَ طَعَامًا لِلْفُقَرَاءِ كَانَ حَسَنًا اهـ وَأَطَالَ فِي ذَلِكَ فِي الْمِعْرَاجِ. وَقَالَ: وَهَذِهِ الْأَفْعَالُ كُلُّهَا لِلسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ فَيُحْتَرَزُ عَنْهَا لِأَنَّهُمْ لَا يُرِيدُونَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى۔ (شامی : ٢/٢٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی القعدہ 1442

1 تبصرہ:

  1. مرحوم کے اعزہ، دوست واحباب اور متعلقین وغیرہ میں سے جو شخص بھی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا چاہے تو کسی دن یا عمل کی تخصیص کے بغیر انفرادی طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر مرحوم کو اس کا ثواب بخش دے ، مثلاً ایک قرآن یا اس کی چند سورتیں پڑھ کر ان کا ثواب بخش دے، اس کی کیا دلیل ھے؟

    جواب دیںحذف کریں