اتوار، 4 جولائی، 2021

نکاح میں عورت کو وکیل بنانے کا حکم

سوال :

محترم المقام مفتی صاحب ! نکاح میں ایک عورت کو وکیل بنایا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر ہے۔ تو کیا لڑکی کی طرف سے کوئی مرد وکیل نہ  ہوتو دو عورتوں کو بطور وکیل بنایا جائے تو نکاح درست ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : حافظ سفیان ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کے صحیح ہونے کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، نیز ان گواہوں کا مسلمان، عاقل، بالغ اور مجلسِ نکاح میں موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کی جاتی ہے، لہٰذا اس مجلس میں دلہن موجود نہیں ہوتی بلکہ اس کے ولی یا پھر وکیل کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہوتا ہے۔ اب یہ وکیل اگر مرد کی جگہ صرف ایک عورت کو بنایا جائے تب بھی نکاح درست ہوجائے گا، کیونکہ دلہن کا وکیل مرد کو بنانا ضروری نہیں۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ مجلسِ نکاح مسجد میں منعقد ہونے کی وجہ سے جب دلہن وہاں موجود نہیں ہوتی تو پھر اس کی وکیل عورت کو کیسے اس مجلس میں لایا جائے گا؟ لہٰذا جب مسجد میں نکاح ہوتو ولی کی غیرموجوگی میں کسی مرد کو ہی وکیل بنایا جائے۔ ہاں اگر گھر وغیرہ میں مجلسِ نکاح منعقد ہوتو عورت پردہ کی رعایت کے ساتھ وکیل بن جائے تو کوئی حرج نہیں۔

عن عمران بن حصین، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لانکاح إلا بولي، وشاہدي عدل۔ (المعجم الکبیر للطبراني، رقم : ۲۹۹)

ولاینعقد نکاح المسلمین إلابحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل، و امرأ تین۔ (ہدایۃ، کتاب النکاح ، ۲/۳۰۶)

أَمَرَهُ بِتَزْوِيجِ امْرَأَةٍ فَزَوَّجَهُ أَمَةً جَازَ... لِأَنَّ الْوَكَالَةَ نَوْعٌ مِنْ الْوِلَايَةِ لِنَفَاذِ تَصَرُّفِهِ عَلَى الْمُوَكِّلِ۔ (شامی : ٣/٩٥)

ويشترط أن يكون الوكيل ممن يعقل العقد ويقصده لأنه يقوم مقام الموكل في العبارة فيشترط أن يكون من أهل العبارة حتى لو كان صبيا لا يعقل أو مجنونا كان التوكيل باطلا۔ (ھدایہ : ۱۸۷/۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ذی القعدہ 1442

2 تبصرے: