جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

امیدوار سے فرضی ورکر کی اجرت وصولنا


سوال :

شہری سیاست میں انتخابات کے دوران مختلف پارٹیوں کے امیدوار اپنی انتخابی تشہیر کیلئے ورکروں کو محنتانہ (معاوضہ) ادا کرتے ہیں، اسی مناسبت سے ہر علاقہ میں مختلف اداروں اور گروپوں کیجانب سے علاقے کے ذمہ داران کے پاس ورکروں کے نام سے پرچیاں جمع کرائی جاتی ہے۔ اور انہیں پرچیوں کے ساتھ علاقہ وار ذمہ دار اپنی جانب سے فرضی پرچیاں بھی جمع کرتے ہیں اور امیدواروں کیجانب سے معاوضے کی ادائیگی کے وقت کسی کے علم میں لائے بغیر فرضی پرچیوں کی رقم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، ذمہ داران کا یہ عمل کیسا ہے اور ان کیلئے اس رقم کے تعلق سے کیا حکم ہے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : الیکشن کے موقع پر امیدوار حضرات ووٹ حاصل کرنے کے لئے ووٹروں میں اپنی تشہیر کے لئے کلبوں اور نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں، اور وہ اس کام کو انجام دینے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور وقت خرچ کرتے ہیں، لہٰذا اس محنت اور وقت دینے پر ملنے والی اجرت شرعاً جائز اور درست ہے۔ البتہ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جان بوجھ کر ایسے امیدوار کی تشہیر نہ کی جائے جو نا اہل ہو جس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہو کیونکہ ایسے امیدوار کی تشہیری مہم میں حصہ لینا تعاون علی المعصیت میں شمار ہوگا۔

معلوم ہوا کہ جب با صلاحیت اور اہل امیدوار کی ورکری کرنا جائز اور اس پر ملنے والی اجرت بھی حلال ہے اور اس اجرت کا حقدار وہی ہے جو باقاعدہ کام کرے گا۔ لہٰذا اداروں اور کلبوں کے ذمہ داران کا فرضی نام دے کر امیدوار سے ان کی اجرت وصول کرنا ناجائز اور حرام ہے، اس رقم کا امیدوار کو واپس کرنا ضروری ہے۔


الأجرۃ إنما تکون في مقابلۃ العمل۔ (شامي، زکریا ۴/ ۳۰۷)

وشرطہا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ۔ (الدرالمختار مع الشامي، زکریا ۹/ ۷-٨)

ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان یعنی لاتعاونوا علی ارتکاب المنہیات۔ (تفسیرمظہری :٤٨/٣)

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، رقم: ۲۷۶۲)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
27 ربیع الآخر 1446

بدھ، 30 اکتوبر، 2024

مسلمان بچوں کی آتش بازی عروج پر

              نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
         (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! برادران وطن کا سب سے بڑا تہوار دیوالی چل رہا ہے۔ اس تہوار پر آتش بازی بڑے پیمانے کی جاتی ہے، لیکن گذشتہ چند سالوں سے ان لوگوں میں یہ تحریک چل رہی ہے کہ آتش بازی اور پٹاخے بازی بند کردی جائے، اس لیے کہ اس میں صوتی آلودگی اور ماحول کی آلودگی کے ساتھ بلاوجہ پیسوں کا ضائع کرنا بھی پایا جاتا ہے، اگر یہی پیسے کسی غریب کو دے دئیے جائیں تو اس کے گھر میں بھی خوشیاں آسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب آپ ان کے یہاں آتش بازی میں پہلے کی بہ نسبت واضح طور پر کمی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن برادران وطن نے ایک اچھی پہل کی تو خیر امت کہے جانے والے مسلمانوں اور ان کے بچوں نے اس تکلیف دہ اور ناجائز اور حرام کام کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کا بندوق میں ٹکلیاں ڈال کر مسلسل پھوڑنا، لہسن پٹاخہ جسے جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسے پٹخ دیا جائے تو وہ پھوٹ جاتا ہے جس میں اچھی خاصی آواز آتی ہے، بیڑی پٹاخہ، اس کو بھی باقاعدہ کہیں رکھ کر جلانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ماچس کی طرح اسے باکس پر رگڑ کر پھینک دیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں کافی دھماکہ دار آواز رکھتا ہے۔ پھلجھڑیاں اور اس قسم کی متعدد بارودی اشیاء کا استعمال مسلمانوں کے یہاں بلاتکلف اور بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔

اور یہ آتش باز اور پٹاخے باز بچے آپ کو ہماری ہر مسلم بستی میں ملیں گے جو کسی کا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے یہاں تک کہ مسجد اور جماعت کے تقدس کا بھی خیال نہ کرتے ہوئے اپنی آتش بازی اور پٹاخے بازی میں مگن ملیں گے۔

اگر یہی کام کوئی غیرمسلم ہماری بستی اور ہماری مسجد کے پاس آکر کردے تو ہماری غیرت اور حمیت کا کیا حال ہوگا؟ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ پہلے اس طرح کی برائیوں پر لوگ روک ٹوک کیا کرتے تھے، لیکن ایسا لگتا ہے اب لوگ اسے برا بھی نہیں سمجھتے یا پھر انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ان بچوں کی شرارت کا شکار نہ ہوجائیں، کیونکہ ایسے بچے عموماً روکنے ٹوکنے والے بڑی عمر کے افراد کو ہی نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ دونوں وجوہات ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔

آج شہری حالات کیا چل رہے ہیں؟ ہم سب کو معلوم ہے۔ پاور لوم صنعت مندی کا شکار ہے۔ ملکی حالات مسلمانوں پر دن بدن سخت ہوتے جارہے ہیں، ایسے حالات میں ہمیں بچوں سمیت رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے تو یہاں ایک ایسا عجیب اور انتہائی سنگین گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے جسے دیکھ کر یہی کہا جائے کہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کو بھی ہری ہری سوجھ رہی ہے، اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کہ ہم نے ان کو پٹاخوں اور آتش بازی کی برائی اور قباحت سمجھائی ہی نہیں ہے، جبکہ پٹاخے  پھوڑنا اور آتش بازی کرنا درج ذیل متعدد وجوہات کی بناء پر اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔

اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔  (سورہ بقرہ، آیت : 195)

آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔

فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ 

اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت، اور دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی احادیث میں ممانعت اور سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

اگر بچے نابالغ ہیں اور بلاشبہ ایسا ہی ہے تو ان کا گناہ ان کے والدین پر ہورہا ہے، اور اس میں برابر کے گناہ گار وہ دوکاندار بھی ہیں جو ایسی چیزیں لاکر فروخت کرتے ہیں، اگر وہ فروخت ہی نہ کریں تو کوئی کیونکر خریدے گا؟ ویسے بھی آتش بازی کے سامان اور پٹاخوں کی تجارت شرعاً ناجائز اور سخت گناہ ہے، اس لیے کہ اس میں درج بالا متعدد کبیرہ گناہوں میں تعاون پایا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلم دوکانداروں کو فوراً اس ناجائز اور حرام چیز کی تجارت سے باز آجانا چاہیے۔

امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے والے تمام افراد فوری طور پر اس کا ایکشن لیں گے، خود اپنے گھر کے بچوں پر نظر رکھنے کے ساتھ حکمت اور نرمی کے ذریعے دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور حالات کی سنگینی کو سمجھ کر اپنے اعمال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

منگل، 29 اکتوبر، 2024

ایک امیدوار سے پیسہ لینا اور دوسرے کو ووٹ دینا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ پیسہ کسی امیدوار سے لینا اور ووٹ کسی دوسرے امیدوار کو دینا جائز ہے؟ شریعت کی روشنی میں مکمل ومدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ووٹ شہادت ہے جس کے لیے مال کا لین دین کرنا شرعاً رشوت کہلاتا ہے، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

معلوم ہوا کہ ووٹ کے نام پر کسی امیدوار سے پیسے لے لینا سرے سے ناجائز اور حرام ہے تو پھر پیسے لے کر کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دے دینا کیسے جائز ہوگا؟ بلاشبہ اس صورت میں بھی یہ رقم ووٹر کے لیے حلال نہیں ہے، بلکہ جس امیدوار سے رقم لی گئی ہے اسے یہ رقم واپس کرنا ضروری ہے، ورنہ قیامت کے دن اس مال کو لے کر سخت گرفت ہوگی۔ اور ووٹ بہرحال اہل اور قابل امیدوار کو ہی دی جائے گی۔ (4)


1) قال العلامۃ ابن عابدین :  الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)

2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)

3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)

4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1446

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نکاح میں تین مرتبہ ایجاب وقبول کروانا


سوال :

مفتی صاحب ! نکاح کے وقت تین مرتبہ ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے؟ یا پھر ایک مرتبہ میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے زیادہ تر علماء کرام تین مرتبہ ایجاب و قبول کرواتے ہیں۔رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایجاب و قبول ایک مرتبہ کرنے پر ہی نکاح منعقد ہوجاتا ہے، لہٰذا بات میں پختگی کے خیال سے ضروری نہ سمجھتے ہوئے دو یا تین مرتبہ اگر کروا لیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ البتہ اگر کوئی تین مرتبہ ایجاب وقبول کو ضروری سمجھے تو یہ بدعت ہے۔


(وَأَمَّا رُكْنُهُ) فَالْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ، كَذَا فِي الْكَافِي وَالْإِيجَابُ مَا يُتَلَفَّظُ بِهِ أَوَّلًا مِنْ أَيِّ جَانِبٍ كَانَ وَالْقَبُولُ جَوَابُهُ هَكَذَا فِي الْعِنَايَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٦٧)

وینعقد النکاح بلفظ واحد ویکون اللفظ الواحد إیجاباً وقبولاً۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ : ۲؍۵۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1446

ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

کیا علماء کو برا بھلا بولنے والے کی نسلوں میں علماء پیدا نہیں ہوتے؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک سوال یہ تھا کہ میں کہیں پڑھا ہوں کہ کسی مفتی عالم حافظ کو کم زیادہ بولنا، یا گالی دینے سے انکی نسلوں میں کوئی حافظ عالم پیدا نہیں ہوتا، کیا یہ بات صحیح ہے؟
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی اور ان سے دشمنی و عداوت رکھنے کو ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے۔

ایک حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (بخاری)

ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے ۔ (الترغیب والترہیب)

ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (بیہقی)

حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے۔

مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے، اور ان کی شان میں گستاخی دنیا وآخرت میں خسارے کا سبب ہے۔

لیکن ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ علماء کو برا بھلا بولنے والے کی نسلوں میں علماء پیدا نہیں ہوتے۔ یہ بات سوشل میڈیا پر ماضی قریب کے ایک بڑے عالم دین وداعی حضرت مولانا عمر صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرکے چلائی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قول مولانا عمر صاحب پالنپوری کا بھی نہیں ہے، ان کے فرزند حضرت مولانا یونس صاحب پالن پوری نے اس کی تردید بھی کی ہے۔ بلکہ یہ کسی اور کا گھڑا ہوا ہے اور یہ قول شرعاً بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے جرم کی سزا کسی اور کو نہیں دیتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لہٰذا یہ بات نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرکے کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور کا قول کہہ کر بیان کی جاسکتی ہے۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
21 ربیع الآخر 1446

بدھ، 23 اکتوبر، 2024

کاسٹ CAST سرٹیفکیٹ بنوانے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! کاسٹ سرٹیفکیٹ (جو حکومت کی جانب سے پسماندہ برادری کے افراد کو دیا جاتا ہے تاکہ اسکے ذریعہ اپنے ایجوکیشن کے اخراجات میں رعایت تخفیف کرسکے مزید تعلیمی وظیفے حاصل کرسکے اور سرکاری ملازمتوں میں مزید ترقی اسکے ذریعہ سےحاصل کی جائے۔ کیاکوئی صاحب حیثیت مسلمان اس کاسٹ سرٹیفیکٹ کے ذریعہ فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ کیونکہ سرکار مالدار ہونے نہ ہونے کے اعتبار سے یہ سرٹیفیکٹ نہیں دیتی بلکہ اس پسماندہ طبقہ میں سے ہونے کی شرط پر دیتی ہیں اسی وجہ سے مالدار قسم کے لوگ مسلم، غیرمسلم دونوں اس سے مستفیدہوتے ہیں، تو کیا شرعاً اسکا استعمال جائز ہے؟مدلل ومحقق جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محبوب علی، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کے اختیارات میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کو آگے بڑھانے کے لیے فائدہ مند کام کریں، لہٰذا ان مخصوص طبقات کے لیے اگر حکومت کی طرف سے اس طرح کی کوئی اسکیم جاری ہوتی ہے تو ان مخصوص طبقات کے لیے اپنی کاسٹ کا سرٹیفکیٹ بنوانا اور ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانا شرعاً جائز اور درست ہے، خواہ وہ غریب ہوں یا مالدار، اس لیے کہ اس میں مالدار یا غریب کی کوئی قید بھی نہیں ہے۔


قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الآخر 1446

اتوار، 20 اکتوبر، 2024

روایت "کپڑا میلا ہونے تک اللہ کا ذکر کرتا ہے" کی تحقیق


سوال :

حضرت مفتی صاحب ! ایک حدیث میں پڑھنے میں آیا کہ امّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ کپڑا اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے جب تک وہ میلا نہ ہوجائے، میلا ہوجائے تو تسبیح منقطع ہوجاتی ہیں، کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟ سندی اعتبار سے کس درجہ کی ہے؟ ایک اور جگہ پڑھنے میں آیا ہے کہ سفید کپڑا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے جب تک میلا نہ ہوجائے، کیا یہ بات بھی صحیح ہے؟ بینوتوجروا۔
(المستفتی : مسیّب رشید خان، جنتور)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز  چاہے وہ جاندار ہو یا غیرجاندار، وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح بیان کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا۔
ترجمہ : ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی ساری مخلوقات اس کی پاکی بیان کرتی ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ٤٤)

تسبیح کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنے وجود سے اپنے بنانے والے پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن تمام مخلوقات کا ایک طرزِ تسبیح قولی بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے، اور وہ اپنی زبانِ خاص سے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف ہے۔

ایک روایت میں بغیر سفید کی قید کہ یہ ملتا ہے کہ کپڑا اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے جب تک وہ میلا نہ ہوجائے، میلا ہوجائے تو تسبیح منقطع ہوجاتی ہیں، لیکن اس روایت کو ماہرِ فن علماء نے غیرمعتبر لکھا ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور دونوں روایات معتبر نہیں ہیں جن کا بیان کرنا بھی درست نہیں ہے۔ 

 
أنَّ الثَّوبَ يُسَبِّحُ ، فإذا اتَّسخَ زالَ تسبيحُهُ.
    الراوي: -
    المحدث: الذهبي
    المصدر:  ميزان الاعتدال
    الصفحة أو الرقم:  2/275
    خلاصة حكم المحدث:  باطل
    
دخلَ عليَّ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ لي: يا عائشةُ اغسِلي هذينِ البُردينِ، قالت: فقلتُ بأبي وأمِّي يا رسولَ اللَّهِ بالأمسِ غسلتُهما، فقالَ لي: أما علِمتِ أنَّ الثَّوبَ يسبِّحُ فإذا اتَّسخَ انقطعَ تسبيحُهُ.
 الراوي: عائشة أم المؤمنين
    المحدث: الخطيب البغدادي
    المصدر:  العلل المتناهية
    الصفحة أو الرقم:  2/684
    خلاصة حكم المحدث:  منكر 
    
 (حديث في غسل الثوب) أنا القزاز، انا ابو بكر أحمد بن علي، قال: اخبرنا محمد بن احمد ابن محمد بن الابنوسي، قال: نا عمر بن ابراهيم الكتاني، قال: نا ابراهيم بن احمد القرميسيني قال: نا ابراهيم بن الحسين الدمشقي، قال: نا شعيب بن احمد البغدادي، قال: حدثني جدي عبد الحميد بن صالح، عن برد عن مكحول، عن الاصبغ بن نباته، عن الحسن بن علي، عن عائشة، قالت: دخل علي رسول الله، فقال لي يا عائشة! اغسلي هذين البردين! قالت: فقلت: بابي وامي يا رسول الله! بالأمس غسلتهما، فقال لي: اما علمت؟ ان الثوب يسبح، فإذا اتسخ، انقطع تسبيحه . قال الخطيب: هذا حديث منكر، قال المؤلف: قلت : وكأنه اتهم به شعيبا على ان الاصبغ ليس بشيء، قال يحيى بن معين: لا يساوي الاصبغ شيئا۔ (العلل المتناهية : ٢/٦٨٤)

 أصبغ بن نباتة [ق] الحنظلي المجاشعي الكوفي. عن علي وعمار. وعنه ثابت البناني، والأجلح الكندي، وفطر بن خليفة، وطائفة. قال أبو بكر بن عياش: كذاب. وقال ابن معين: ليس بثقة. وقال - مرة: ليس بشئ. وقال النسائي وابن حبان: متروك. وقال ابن عدي: بين الضعف. وقال أبو حاتم: لين الحديث. وقال العقيلي: كان يقول بالرجعة. وقال ابن حبان: فتن بحب على، فأتى بالطامات، فاستحق من أجلها الترك۔ (ميزان الاعتدال : ٢٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الآخر 1446

جمعرات، 17 اکتوبر، 2024

والد کی دوسری بیوی کی بیٹی سے نکاح کرنا


سوال :

کیا اپنی سوتیلی بہن سے نکاح جائز ہے؟ میری والدہ کے انتقال کے بعد میرے والد کا نکاح ایک خاتون سے ہوا جن کو پہلے شوہر سے ایک بیٹی ہے۔ تو کیا میرا نکاح اس سے جائز ہے؟ ہم دونوں کے والد والدہ الگ ہے۔ تو کیا میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالصمد، چاندوڑ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بہن بھائی کا رشتہ نسب سے ثابت ہوتا ہے یا پھر رضاعت سے۔ نسب سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہوں یا کم از کم ماں یا باپ ایک ہوں۔ رضاعت سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت کی مدت یعنی ڈھائی سال سے کم عمر میں دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو۔ 

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اور اگر ماں باپ دونوں الگ ہیں، یعنی لڑکی کا باپ، سوتیلی ماں کا سابقہ شوہر ہے تو اس لڑکی سے نکاح درست ہے اور اس لڑکی کی لڑکی سے بھی نکاح درست ہے۔ (رقم الفتوی : 607423)

معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں آپ کی دوسری والدہ کے پہلے شوہر سے جو بیٹی ہے وہ آپ کی محرم نہیں ہے، لہٰذا آپ دونوں کا آپس میں نکاح درست ہے۔ 


قال اللہ تعالی : وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ۔ (سورۃ النساء، آیت :٢٤) 

لَا بَأْسَ بِأَنْ يَتَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً وَيَتَزَوَّجَ ابْنُهُ ابْنَتَهَا أَوْ أُمَّهَا، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٧٧)

فَلَا تَحْرُمُ بِنْتُ زَوْجَةِ الِابْنِ وَلَا بِنْتُ ابْنِ زَوْجَةِ الِابْنِ وَلَا بِنْتُ زَوْجَةِ الْأَبِ وَلَا بِنْتُ ابْنِ زَوْجَةِ الْأَبِ۔ (البحرالرائق : ٣/١٠٠)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
13 ربیع الآخر 1446

بدھ، 16 اکتوبر، 2024

بالوں کا بُچھڑا باندھنے کا حکم


سوال :

عورتوں کے بال پیچھے کرکے بُچھڑا جسے کہتے ہیں، اس بارے میں کچھ سخت حدیث بیان کی گئی ہے؟ آج کل تو ہر گھر میں یہی ہے، عورتیں کہتی ہیں کہ یہ بہت آسان ہوتا ہے۔ بال پیچھے کرکے لپیٹ کر سر پر جما لو، بعد میں فرصت ملے تو کنگھی کرو پھر چوٹی بناؤ.. وغیرہ وغیرہ
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا (اور نہ میں دیکھوں گا) ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی مانند کوڑے ہونگے جس سے وہ (لوگوں کو ناحق) ماریں گے اور دوسرا گروہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی مگر حقیقت میں ننگی ہوں گی وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خواہ مردوں کی طرف مائل ہوں گی، ان کے سربختی اونٹ کی کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی حالانکہ جنت کی بو اتنی اتنی (یعنی مثلاً سو برس) دوری سے آتی ہے۔ 

ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے، اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی چوٹیوں کو جوڑے کی صورت میں سر پر باندھ لیتی ہیں اور جس طرح بختی اونٹ کے کوہان فربہی کی وجہ سے ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں اسی طرح ان کے سر کے جوڑے بھی ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں۔ اس حدیث میں عورتوں کے جس خاص طبقہ کی نشان دہی کی گئی ہے اس کا وجود آنحضرت ﷺ کے مبارک زمانہ میں نہیں تھا بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ ﷺ نے آنے والے زمانہ میں اس قسم کی عورتوں کی پیدا ہونے کی خبر دی۔

ہمارے یہاں عموماً عورتیں بالوں کا جو بُچھڑا باندھتی ہیں وہ سر کے بالکل اوپر نہیں ہوتا، بلکہ پیچھے کی طرف گُدی پر ہوتا ہے، لہٰذا یہ جائز ہے، بلکہ نماز کی حالت میں افضل ہے، کیونکہ اس سے بالوں کے پردے میں  زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ ممانعت اس طرح کے بالوں کی ہیں جو بالکل سر کے اوپر لاکر اونٹ کے کوہان کی طرح باندھے جائیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا ؛ قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢١٢٨)

(رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ): بِضَمِّ مُوَحَّدَةٍ وَسُكُونِ مُعْجَمَةٍ. فِي النِّهَايَةِ: الْبُخْتِيُّ مِنَ الْجِمَالِ، وَالْأُنْثَى بُخْتِيَّةٌ جَمْعُ بُخْتٍ وَبَخَاتِيٍّ جِمَالٌ طِوَالُ الْأَعْنَاقِ، وَاللَّفْظَةُ مُعْرَبَةٌ أَيْ: يُعَظِّمْنَهَا وَيُكَبِّرْنَهَا بِلَفِّ عِصَابَةٍ وَنَحْوِهَا، وَقِيلَ: يَطْمَحْنَ إِلَى الرِّجَالِ لَا يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ، وَلَا يُنَكِّسْنَ رُءُوسَهُنَّ (الْمَائِلَةُ): صِفَةٌ لِلْأَسْنِمَةِ، وَهِيَ جَمْعُ السَّنَامِ، وَالْمَائِلَةُ مِنَ الْمَيْلِ ; لِأَنَّ أَعْلَى السَّنَامِ يَمِيلُ لِكَثْرَةِ شَحْمِهِ، وَهَذَا مِنْ صِفَاتِ نِسَاءِ مِصْرَ (لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ): صِفَةٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْ لِلرِّجَالِ مِثْلَهَا اخْتِصَارًا وَإِيجَازًا ذَكَرَهُ الطِّيبِيُّ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٦/٢٣٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الآخر 1446

جمعہ، 11 اکتوبر، 2024

کیا لٹکے ہوئے کپڑوں کو شیطان استعمال کرتا ہے؟


سوال :

مفتی صاحب کیا یہ تحریر درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
وہ کپڑے جو طویل عرصے تک بغیر استعمال یا صفائی کے لٹکے رہیں، چاہے وہ الماری میں ہوں یا باہر :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے کپڑوں کو لپیٹ کر رکھو، کیونکہ شیطان ان کپڑوں میں قیام کرتا ہے جو لٹکے رہتے ہیں۔
اکثر لوگ کپڑے تیار حالت میں لٹکا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان سے محفوظ رہنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان پر قرآنی آیات پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کریں یا الماری کھول کر سورۃ الفاتحہ اور آیت الکرسی پڑھیں۔
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس روایت کا ذکر کرکے کپڑوں کو لٹکا کر رکھنے سے منع کیا گیا ہے پہلے اس روایت کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :

مفتی سلمان منصور پوری دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
مذکورہ روایت ’’المعجم الأوسط للطبراني‘‘ مکتبہ ریاض ۶؍ ۳۲۸، حدیث نمبر ۵۶۹۸ پر موجود ہے، اس کی سند میں ایک راوی عمر بن موسی بن وجیہ نہایت ضعیف، وضاع اور غیر معتبر ہے، ابو حاتم نے اس کے بارے میں ’’ متروک الحدیث وذاہب الحدیث‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور کہا یہ حدیثیں گڑھا کرتا تھا، لہٰذا یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔ (کتاب النوازل : ٢/١٨١)

معلوم ہوا کہ جب یہ روایت ہی معتبر نہیں ہے تو پھر کپڑوں کو لٹکاکر رکھنے میں نہ تو شرعاً کوئی قباحت ہے اور نہ ہی ان پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا ضروری ہے۔ یہ تحریر غیرمعتبر روایت پر مبنی اور بلاوجہ تشویش میں مبتلا کرنے والی ہے، لہٰذا اسے شیئر کرنا بھی درست نہیں ہے۔


اطُووا ثيابَكم ترجِعْ إليها أرواحُها فإنَّ الشَّيطانَ إذا وجَد الثَّوبَ مَطويًّا لَمْ يلبَسْه وإذا وجَده منشورًا لبِسه
الراوي : جابر بن عبدالله • الطبراني، المعجم الأوسط (٦/٣١) • لم يرو هذا الحديث عن أبي الزبير إلا عمر بن موسى بن وجيه لا يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد

ہذا الحدیث في إسنادہ عمر بن موسی بن وجیہ وہو وضاع فقد ترجم لہ ابن أبي حاتم، وقال: سألت أبي عن عمر بن موسی، فقال: متروک الحدیث، ذاہب الحدیث کان یضع الحدیث۔ (ہامش المعجم الاوسط : ۶؍۳۲۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ربیع الآخر 1446

جمعرات، 10 اکتوبر، 2024

کیا تین سے زائد بستر شیطان کے لیے ہوتا ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! اس تحریر کی تحقیق فرما دیں کہ یہ صحیح یا غلط؟
وہ بستر جس پر طویل عرصے تک کوئی نہ سوئے :
ایسا بستر شیطان کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔ یہ بات سنت میں ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کے لیے ایک بستر، اس کے اہل کے لیے ایک اور بستر، مہمان کے لیے ایک اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہے۔ لہٰذا بستر کو تہہ کرنا اور ہر دو تین دن بعد اس پر قرآنی آیات پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کرنا چاہیے۔
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ایک بچھونا مرد کے لئے، دوسرا بچھونا اس کی بیوی کے لئے، تیسرا بچھونا مہمان کے لئے اور چوتھا بچھونا شیطان کے لئے ہوتا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ اگر کسی گھر میں میاں بیوی ہوں اور وہ استطاعت رکھتے ہوں تو ان کو اپنے یہاں تین بستر رکھنے چاہئیں، ایک تو میاں کے لئے، دوسرا بیوی کے لئے کہ شاید کسی وقت بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ تنہا سونا چاہے ورنہ میاں بیوی کو ایک بستر پر سونا اولی ہے اور سنت کے مطابق ہے، کیوں کہ آنحضرت ﷺ ازواج مطہرات کے ساتھ سویا کرتے تھے۔ اور تیسرا بستر اس مقصد کے لئے ہو کہ اگر کوئی مہمان آ جائے تو وہ رات میں اس پر سوئے، بس یہ تین بستر کافی ہیں ان سے زیادہ جو بھی بستر ہو گا وہ اسراف کی حد میں آئے گا، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر چوتھا بستر ہو گا تو وہ شیطان کے لئے ہوگا، شیطان کی طرف نسبت اسی لئے گئی ہے کہ وہ (چوتھا بستر) یقینا ضرورت و حاجت سے زائد ہوگا اور ضرورت سے زائد چیز کا ہونا "فخر و مباہات" کے دائرے میں آنے کی وجہ سے مذموم ہے اور ہر مذموم چیز کی نسبت شیطان ہی کی طرف ہوتی ہے، یا اس نسبت کا سبب یہ ہے کہ وہ چوتھا بستر چونکہ ضرورت سے زائد ہوتا ہے اس لئے شیطان اس پر رات گزارتا ہے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ جو شخص سخی اور فراخدل ہو اور کرم نواز طبیعت کا مالک ہو اور اس وجہ سے اس کے یہاں مہمانوں کی آمد کثرت سے ہوتی ہو تو اس کے یہاں بستر اور دوسرے اسباب کی زیادتی بظاہر مذموم نہیں ہوگی، مذموم تو وہ زیادتی و کثرت ہوگی جو محض اپنی بڑائی کے اظہار اور مفاخرت کے تحت ہو۔

خلاصہ یہ کہ مستقبل میں مہمانوں اور رشتہ داروں کی ضرورت کی وجہ سے تین سے زائد بچھونے، بستر اور بیڈ رکھنا بلاشبہ جائز ہے، شیطان کے قیام کی جگہ وہ بستر ہیں جو ریاکاری اور نمائش کے لیے ہوں، لہٰذا جو بستر ضرورت کے لیے ہوں ان کو تہہ کرکے رکھنا شرعاً ضروری نہیں، اور نہ ہی ان پر قرآن کی آیت پڑھے ہوئے پانی کا چھڑکاؤ کرنا ضروری ہے۔


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِامْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٠٨٤)

وَكَانَ الْإِمَامُ النَّوَوِيُّ غَفَلَ عَنْ هَذَا الْمَعْنَى وَاخْتَارَ الْأَوَّلَ هُنَا ; فَقَالَ: أَيْ أَنَّ مَا زَادَ عَلَى الْحَاجَةِ وَاتِّخَاذٍ لِلْمُبَاهَاةِ وَالِاخْتِيَالِ وَالْإِلْهَاءِ بِزِينَةِ الدُّنْيَا، وَمَا كَانَ بِهَذِهِ الصِّفَةِ فَهُوَ مَذْمُومٌ، وَكُلُّ مَذْمُومٍ يُضَافُ إِلَى الشَّيْطَانِ لِأَنَّهُ يَرْتَضِيهِ، وَأَمَّا تَعْدِيدُ الْفِرَاشِ لِلزَّوْجِ فَلَا بَأْسَ،لِأَنَّهُ قَدْ يَحْتَاجُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى فِرَاشٍ عِنْدَ الْمَرَضِ وَنَحْوِهُ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٧/٢٧٦٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الآخر 1446

منگل، 8 اکتوبر، 2024

امام کا نماز مقررہ وقت سے تاخیر کرنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک امام صاحب کا معمول ہے کہ وہ ظہر کی نماز کے لئے مسجد میں تاخیر سے آتے ہیں، آ کر 4 رکعت سنت مؤکدہ کی نیت باندھ لیتے ہیں اور جماعت کے وقت سے 2 سے 4 منٹ تاخیر سے جماعت کھڑی کرتے ہیں، اس سلسلے میں کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عہد اور وعدہ کی ایک قسم وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا پورا کرنا واجب ہے اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطلاع کرکے ختم کردینا واجب ہے۔ جن معاہدات کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ عدالت میں دعویٰ کرکے اس کو پورا  کرنے پر مجبور کرے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کردوں گا تو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے، اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کراسکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلافِ ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہوگا۔ (مستفاد : معارف القرآن)

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسجد میں فرض نمازوں کے اوقات کا بورڈ لگا دینا یک طرفہ وعدہ کی قبیل سے ہے جس کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ کبھی کبھار کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو حرج نہیں، لیکن روزآنہ یا اکثر تاخیر کا معمول بنالینا بلاشبہ وعدہ خلافی ہے، نیز اس کی وجہ سے مصلیان کو کسی نہ کسی درجہ میں تکلیف بھی ہوتی ہے، لہٰذا یہ عمل وعدہ خلافی اور ایذائے مسلم میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ کی بات ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے۔


قال اللہ تعالٰی : وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ۳۴)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۳۳)

قال الملا علی القاری ان من وعد ولیس من نیتہ ان یفی فعلیہ الاثم سواء وفی بہ اولم یف فانہ من اخلاق المنافقین۔ (مرقاۃ : ۴؍۶۴۷، باب الوعد)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائي، رقم : ۴۹۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الآخر 1446

بدھ، 2 اکتوبر، 2024

نماز جنازہ کے بعد اجتماعی دعا؟


سوال :

میت کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اسی جگہ پر کھڑے کھڑے امام صاحب اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔
کیا ایسا کر سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : سلیم احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : نماز جنازہ کے فوراً بعد تدفین میت سے پہلے دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، نماز جنازہ تو خود میت کے لیے ایک جامع دعا ہے، لہٰذا اس کے فوراً بعد پھر دعا کرنا تحصیلِ حاصل اور دین میں زیادتی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز جنازہ خود دعا ہے، اس میں تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے خاص یا عام الفاظ میں مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس لیے نماز جنازہ کے بعد مستقل دعا کی ضرورت نہیں، نیز قرآن وسنت اورصحابہ کرام، تابعین عظام،تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، محدثین ومفسرین وغیرہم میں سے بھی کسی سے ثابت نہیں۔ اور بعض علاقوں میں جو اس کا رواج واہتمام ہے، یہ درست نہیں؛ بلکہ بدعت ہے۔ (رقم الفتوی : 168696)

مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مطبوعہ فتاوی، فتاوی رحیمیہ (٧/١١٠) میں سترہ فقہاء کے حوالہ سے اس عمل کو غیر ثابت شدہ اور دین میں زیادتی لکھا ہے، لہٰذا اس عمل سے بچنا ضروری ہے۔ 


(قَوْلُهُ مِنْ أَنَّ الدُّعَاءَ رُكْنٌ) قَالَ لِقَوْلِهِمْ إنَّ حَقِيقَتَهَا وَالْمَقْصُودَ مِنْهَا الدُّعَاءُ ..... فَقَدْ صَرَّحُوا عَنْ آخِرِهِمْ بِأَنَّ صَلَاةَ الْجِنَازَةِ هِيَ الدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ إذْ هُوَ الْمَقْصُودُ مِنْهَا۔ (شامی : ٢/٢٠٩)

وَلَا يَدْعُو لِلْمَيِّتِ بَعْدَ صَلَاةِ الْجَنَازَةِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ الزِّيَادَةَ فِي صَلَاةِ الْجَنَازَةِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٣/١٢١٣)

لا یقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة۔ (خلاصة الفتاوی : ۱/۲۲۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
28 ربیع الاول 1446