*جنازہ لے جاتے وقت کے احکام*
سوال :
محترم مفتی صاحب! اللہ پاک کا احسان ہے کہ شہر مالیگاؤں میں میت/جنازے میں بےشمار لوگ شریک ہوتے ہیں، مگر ایک عام طبقہ ان مسائل سے بالکل بھی واقف نہیں جو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کو ان تمام مسائل پر شریعت کی روشنی میں روشنی ڈال کر عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔
سوال نمبر ١ : جنازے کے ساتھ چلنے کے لیے، آگے چلنا بہتر ہے یا پیچھے؟ اور کون سے اذکار یا دعائیں مسنون ہیں؟
سوال نمبر 2 : کاندھا دینے کے لئے جنازے کا کاندھے پر رکھ کر چلنا یا پھر صرف ہاتھ سے ہی کاندھا دے دینا بہتر عمل ہے؟ بعض مرتبہ لوگوں کو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ جنازہ اپنے ہاتھ میں آتے ہی تقریباً ہاتھ سے چھین لیتے ہیں اپنا صرف ہاتھ لگا رہ جاتا ہے۔
سوال نمبر 3 : کاندھے دیتے وقت کیا پڑھنا افضل ہے؟
سوال نمبر 4 : جنازے کو دیکھ کر سواری کو جبرا" روکنا، یا سوار کا نہ رکنے پر اسے لعن طعن کرنا، یہ کیسا عمل ہے؟ بعض مرتبہ بعض افراد کو جلدی ہوتی ہے اور وہ کنارے سے نکلنا چاہتے ہیں مگر جنازے میں شریک افراد انہیں روک لیتے ہیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺنے ہمیں جنازے کی اتباع یعنی پیچھے چلنے کا حکم دیا۔
اس حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ جنازہ متبوع ہے اور لوگ ’’تابع‘‘ ہیں اور متبوع تابع کے آگے ہوتا ہے، لہٰذا جنازہ کو آگے رکھنا اور جنازہ کے پیچھے چلنا افضل اور مستحب ہے جنازہ سامنے اور آگے رہنے میں عبرت اور نصیحت بھی ہے اور میت کی تعظیم بھی ہے۔ جنازے کے آگے پیچھے رہنا بھی جائز ہے مگر بہتر نہیں ہے، جنازہ کو کندھا دینے کے لئے کچھ لوگوں کا جنازہ کے آگے رہنا بھی جائز ہے مگر جنازے سے دور نہ رہیں اور سب کا آگے چلنا اور جنازے کو پیچھے چھوڑ دینا مکروہ ہے۔ (١)
جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے کوئی دعا یا ذکر مخصوص منقول نہیں ہے، جو مناسب لگے پڑھنا چاہئے، البتہ اس وقت ذکر یا تلاوت کرتے ہوئے آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ (٢)
2) جنازے کو کاندھے پر رکھ لینا مستحب ہے، لیکن اگر اس کا موقع نہ مل پائے تب بھی کوئی حرج نہیں، تاہم پیچھے والے کا اتنی عجلت کرنا کہ آگے والا جنازہ کے پائے پر صرف ہاتھ ہی لگاسکے کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے ایسی عجلت سے اجتناب کیا جائے۔ (٣)
3) جنازے کو کاندھا دیتے وقت بھی کوئی دعا یا ذکر مخصوص منقول نہیں ہے، جو مناسب لگے پڑھنا چاہئے، البتہ اس وقت ذکر یا تلاوت کرتے ہوئے آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ (٤)
4) جنازے کو دیکھ کر ٹھہرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر راستے میں کنارے جگہ ہوتو نکل جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز جگہ ہونے کے باوجود کسی راہ گیر کو نکلنے نہ دینا اور اسے لعن طعن کرنا شرعاً درست نہیں ہے، ایسے لوگوں کو اچھے انداز میں مسئلہ بتانے کی ضرورت ہے۔
1) (وَنُدِبَ الْمَشْيُ خَلْفَهَا) لِأَنَّهَا مَتْبُوعَةٌ ۔ الی قولہ ۔ (وَلَوْ مَشَى أَمَامَهَا جَازَ) وَفِيهِ فَضِيلَةٌ أَيْضًا (وَ) لَكِنْ (إنْ تَبَاعَدَ عَنْهَا أَوْ تَقَدَّمَ الْكُلُّ) أَوْ رَكِبَ أَمَامَهَا۔ (شامی : ٢/٢٣٣)
2/4) وَيُكْرَهُ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَغَيْرِهِمَا فِي الْجِنَازَةِ۔ (البحر الرائق : ۲/۲۰۷)
وَيُطِيلُ الصَّمْتَ إذَا اتَّبَعَ الْجِنَازَةَ وَيُكْرَهُ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ لِمَا رُوِيَ عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَكْرَهُونَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ ثَلَاثَةٍ: عِنْدَ الْقِتَالِ، وَعِنْدَ الْجِنَازَةِ، وَالذِّكْرِ؛ وَلِأَنَّهُ تَشَبُّهٌ بِأَهْلِ الْكِتَابِ فَكَانَ مَكْرُوهًا۔ (بدائع الصنائع : ١/٣١٠)
3) سُنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ أَرْبَعَةٌ مِنْ الرِّجَالِ، كَذَا فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ لِلشَّيْخِ أَبِي الْمَكَارِمِ إذَا حَمَلُوهُ عَلَى سَرِيرٍ أَخَذُوهُ بِقَوَائِمِهِ الْأَرْبَعِ، بِهِ وَرَدَتْ السُّنَّةُ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ.
ثُمَّ إنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ شَيْئَيْنِ نَفْسَ السُّنَّةِ وَكَمَالَهَا أَمَّا نَفْسُ السُّنَّةِ أَنْ تَأْخُذَ بِقَوَائِمِهَا الْأَرْبَعِ عَلَى طَرِيقِ التَّعَاقُبِ بِأَنْ تَحْمِلَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ عَشْرَ خُطُوَاتٍ وَهَذَا يَتَحَقَّقُ فِي حَقِّ الْجَمْعِ وَأَمَّا كَمَالُ السُّنَّةِ فَلَا يَتَحَقَّقُ إلَّا فِي وَاحِدٍ وَهُوَ أَنْ يَبْدَأَ الْحَامِلُ بِحَمْلِ يَمِينِ مُقَدَّمِ الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة.
فَيَحْمِلُهُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْمَنُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُقَدَّمُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ.
وَذَكَرَ الْإِسْبِيجَابِيُّ أَنَّ الصَّبِيَّ الرَّضِيعَ أَوْ الْفَطِيمَ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ قَلِيلًا إذَا مَاتَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ رَجُلٌ وَاحِدٌ عَلَى يَدَيْهِ وَيَتَدَاوَلَهُ النَّاسُ بِالْحَمْلِ عَلَى أَيْدِيهِمْ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ عَلَى يَدَيْهِ وَهُوَ رَاكِبٌ وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا يُحْمَلُ عَلَى الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
وَيُسْرَعُ بِالْمَيِّتِ وَقْتَ الْمَشْيِ بِلَا خَبَبٍ وَفِي حَالَةِ الْمَشْيِ بِالْجِنَازَةِ يُقَدَّمُ الرَّأْسُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٦٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 صفر المظفر 1441