جمعرات، 31 اکتوبر، 2019

سر ڈھانپ کر بیت الخلاء جانا

*سر ڈھانپ کر بیت الخلاء جانا*

سوال :

بیت-الخلا استنجا جاتے وقت سر ڈھکنا شرعاً کیسا ہے؟ ہمارے کچھ ساتھی اسے ضروری نہیں کہتے، کیا کھلے سر بیت-الخلا جانے سے نسیان یعنی بھولنے کی بیماری ہوتی ہے، جو کہ سننے میں آتا ہے؟ کچھ مدلل جواب مل جائے تو انہیں بھی بتایا جا سکتا ہے۔
(المستفتی : مجاہد بھائی، اورنگ آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قضائے حاجت کے وقت سر کا ڈھکا ہونا مسنون و مستحب ہے۔ سنن بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سر ڈھانپ کر اور جوتے پہن کر بیت الخلاء جاتے تھے۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کے ساتھیوں کا ضروری نہ کہنا فرض یا واجب کی نفی کے لیے ہوتو ان کی بات درست ہے، لیکن اگر اس کے مسنون اور مستحب ہونے کا بھی انکار کررہے ہوں تو انہیں اپنی اصلاح کرنا چاہیے۔ نیز مستحب اعمال ترک ہوجائیں تو کوئی گناہ کی بات نہیں، لیکن ترک کا معمول بنالینا محرومی کی بات ہے۔

ننگے سر پیشاب پاخانہ کرنے سے نسیان یعنی بھولنے کی بیماری ہوتی ہے ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، لہٰذا حدیث کہہ کر یہ بات بیان کرنا درست نہیں ہے۔ اگر سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہوتو اس کو سائنس کا نام دے کر بیان کرنا چاہیے۔

عن حبیب بن صالح قال : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء لبس حذاء ہ وغطّٰی رأسہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، باب تغطیۃ الرأس عند دخول الخلاء الخ، رقم : ۴۵۶)

إذَا أَرَادَ دُخُولَ الْخَلَاءِ يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ بِثَوْبٍ (الی قولہ) وَيَدْخُلُ مَسْتُورَ الرَّأْسِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الطہارۃ،  ١/٥٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الاول 1441

انصاری برادری کی حقیقت

*انصاری برادری کی حقیقت*

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! عام طور پر ہمارے شہر میں جو یوپی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں وہ اپنے نام کے ساتھ "انصاری" نسبت لگاتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے واضح فرمادیں۔(کیونکہ بعض مرتبہ کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ انصارِ مدینہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انصاری لگاتے ہیں)
نیز نسبت کے بارے میں اگر کوئی شخص جھوٹ بولے تو اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مؤرخین نے ہندوستان کے مسلمانوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ یا پھر تجارت اور تبلیغ دین کی غرض سے آیا اور ہندوستان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا جن میں مغل، پٹھان، سیّد اور شیخ ہیں۔ دوسرے طبقے کے مسلمان وہ ہیں جو ہندوؤں کی بڑی ذاتوں سے مسلمان ہوئے تھے مثلاً راجپوت، کسان، اور دوکاندار وغیرہ، یہ کشتری کہلاتے تھے۔ اور تیسرے طبقے میں مسلمان وہ ہیں جو ہندوؤں کی چھوٹی برادری سے مسلمان ہوئے۔ برصغیر میں اس طبقے کے مسلمان زیادہ ہیں، یعنی ہنرمند اور پیشہ ور افراد، مثلاً حجام، قصائی، تیلی، جولاہے، کمہار، لوہار اور دھوبی وغیرہ۔

مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ لکھتے ہیں :
ہندوستان جیسے ممالک میں جو غیرمسلم قومیں دولتِ اِسلام سے مشرف ہوئیں، اُنہوں نے اپنی شناخت کے لئے اپنے پیشوں کو تعارف کی بنیاد بنایا، اور ایک پیشہ کرنے والی قوم آپس میں تعاون وتناصر کی وجہ سے ایک قرار دی گئی، اِس طرح کی تقسیم زمانۂ نبوت میں نہیں تھی، نیز عرب کے اندر آج بھی پیشوں کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے، اور کسی بھی پیشہ والوں کو ایسے نام سے یاد کرنا جس سے اُنہیں ذہنی تکلیف ہوتی ہو جائز نہیں ہے۔ لہٰذا آج کل کپڑا بُننے والوں کو جولاہا کہہ کر طعنہ دینا درست نہ ہوگا، اَب اِن لوگوں نے اپنا عرف  انصاری  بنالیا ہے، اِس لئے اِسی عُرفی نسبت کے ساتھ اُنہیں پکارا جائے گا، یہی حال دیگر  برادریوں کا ہے۔ (کفایت المفتی ۱؍۲۶۰)

مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ ہمارے شہر میں بسنے والی انصاری برادری اصلاً غیرمسلموں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ یہ انصارِ مدینہ کی اولاد اور نسل سے ہیں، بظاہر درست نہیں، اور اس کا ثبوت تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن چونکہ اس برادری کا یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ وہ سب کے سب انصار مدینہ کی نسل سے ہیں۔ بلکہ یہ لفظ  انصاری محض لقب اور پہچان کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ نہ کہ اظہار نسب و نسل کے لئے تو پھر اس کے اختیار کرنے کا بھی کوئی شرعی الزام ان پر عائد نہ ہوگا۔ البتہ اس برادری میں سے اگر کوئی خاندان ایسے ہوں جو اپنے سلسلۂ نسب کو محفوظ رکھتے ہوں اور ان کے جداعلیٰ کوئی  انصاری  ہو، وہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ بُنکروں کے بعض خاندان بلحاظ نسب انصار مدینہ کی نسل سے ہوں۔

نسبت کے بارے میں اگر کوئی شخص جھوٹ بولے یعنی غیر  برادری  اور خاندان کی طرف اپنے کو منسوب کرے تو اس کا یہ عمل شرعاً ناجائز اور سخت معصیت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جان بوجھ کر اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے والے پر جنت حرام ہے۔

عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من ادعیٰ إلی غیر أبیہ وہو یعلم أنہ غیر أبیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ (صحیح البخاري، کتاب الفرائض / باب من ادعی إلی غیر أبیہ ۲؍۱۰۰۱ رقم: ۶۷۶۶)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تولی إلی غیر موالیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (رواہ ابن حبان في صحیحہ رقم: ۴۳۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الاول 1441

بدھ، 30 اکتوبر، 2019

شرابی سے تعلقات کا حکم

*شرابی سے تعلقات کا حکم*

سوال :

محترم مفتی صاحب ! اگر ہم جانتے ہیں کہ فلاں شخص شرابی ہے تو کیا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور تعلقات رکھنا صحیح ہے؟ مذکورہ شخص کا شراب پینا جگ ظاہر ہے۔ منع کرنے کے باوجود بھی وہ نہیں مانتا، ایسی صورت میں اس سے دوستی/تعلقات کے بارے میں کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسلمان آدمی خواہ کتنا ہی فاسق و فاجر کیوں نہ ہو اس سے تعلقات کو شریعت میں مطلقاً ناجائز نہیں کہا گیا ہے، بلکہ اس میں تفصیل ہے۔

شرابی سے تعلقات نہ رکھنے  سے  اگر اس بات کی امید ہو کہ یہ اپنے ناجائز افعال  سے  باز رہے گا تو ترکِ  تعلق بہتر ہے۔

البتہ اگر یہ اندیشہ ہو کہ تمام لوگوں کے ترکِ تعلقات کی وجہ  سے وہ اپنے گناہ میں اور سخت ہوجائے گا اور اصلاح کا راستہ بند ہوجائے گا، جبکہ سلام  اور معمولی تعلقات  رکھنے کی وجہ سے  موانست بڑھے گی یا شراب چھوڑنے کی دعوت دینے کا موقعہ باقی رہے گا، تو بہتر ہے کہ معمولی تعلق باقی رکھے کیونکہ اصل مقصد اصلاح ہے نہ کہ اہانت، اور برائیوں سے روکنا ہے نہ کہ ضد و عناد۔ بشرطیکہ اس بات کی قوی امید ہو کہ وہ خود ان افعال میں ملوث نہیں ہوگا کیونکہ صحبت کا اثر بھی ہوتا ہے، اور ایسے شخص کے ساتھ تعلق کی وجہ سے خود اس کی شخصیت بھی متہم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا خوب سوچ سمجھ کر ایسے شخص سے تعلق رکھے۔ نیز تعلقات بھی زیادہ گہرے نہ ہوں یعنی عام دوستوں کی طرح اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا معمول نہ ہو بلکہ صرف رسمی تعلق ہو۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ جبکہ منع کرنے کے باوجود وہ شخص مان نہیں رہا ہے تو پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔

وقالَ الطَّبَرِيُّ : قِصَّةُ كَعْبِ بْنِ مالِكٍ أصْلٌ فِي هِجْرانِ أهْلِ المَعاصِي ۔۔۔ وإنَّما لَمْ يُشْرَعْ هِجْرانُهُ (ای الکافر) بِالكَلامِ لِعَدَمِ ارْتِداعِهِ بِذَلِكَ عَنْ كُفْرِهِ بِخِلافِ العاصِي المُسْلِمِ فَإنَّهُ يَنْزَجِرُ بِذَلِكَ غالِبًا۔ (فتح الباری لابن حجر : ۱۰/۴٩٧)

قال الخطابی رخص للمسلم ان یغضب علیٰ اخیہ ثلاث لیال لقلتہ ولا یجوز فوقہا الا اذا کان الھجران فی حق من حقوق اللہ تعالیٰ فجوز فوق ذالک۔ (مرقاۃ، شرح مشکوۃ : ۹/۲۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ربیع الاول 1441

منگل، 29 اکتوبر، 2019

جنازہ لے جاتے وقت کے احکام

*جنازہ لے جاتے وقت کے احکام*

سوال :

محترم مفتی صاحب! اللہ پاک کا احسان ہے کہ شہر مالیگاؤں میں میت/جنازے میں بےشمار لوگ شریک ہوتے ہیں، مگر ایک عام طبقہ ان مسائل سے بالکل بھی واقف نہیں جو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کو ان تمام مسائل پر شریعت کی روشنی میں روشنی ڈال کر عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔
سوال نمبر ١ : جنازے کے ساتھ چلنے کے لیے، آگے چلنا بہتر ہے یا پیچھے؟ اور کون سے اذکار یا دعائیں مسنون ہیں؟
سوال نمبر 2 : کاندھا دینے کے لئے جنازے کا کاندھے پر رکھ کر چلنا یا پھر صرف ہاتھ سے ہی کاندھا دے دینا بہتر عمل ہے؟ بعض مرتبہ لوگوں کو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ جنازہ اپنے ہاتھ میں آتے ہی تقریباً ہاتھ سے چھین لیتے ہیں اپنا صرف ہاتھ لگا رہ جاتا ہے۔
سوال نمبر 3 : کاندھے دیتے وقت کیا پڑھنا افضل ہے؟
سوال نمبر 4 : جنازے کو دیکھ کر سواری کو جبرا" روکنا، یا سوار کا نہ رکنے پر اسے لعن طعن کرنا، یہ کیسا عمل ہے؟ بعض مرتبہ بعض افراد کو جلدی ہوتی ہے اور وہ کنارے سے نکلنا چاہتے ہیں مگر جنازے میں شریک افراد انہیں روک لیتے ہیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺنے ہمیں  جنازے  کی اتباع یعنی پیچھے  چلنے کا حکم دیا۔

اس حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ جنازہ متبوع ہے اور لوگ ’’تابع‘‘ ہیں اور متبوع تابع  کے آگے  ہوتا ہے، لہٰذا جنازہ کو  آگے  رکھنا اور جنازہ  کے  پیچھے  چلنا افضل اور مستحب ہے جنازہ سامنے اور آگے  رہنے میں عبرت اور نصیحت بھی ہے اور میت کی تعظیم بھی ہے۔ جنازے  کے  آگے  پیچھے رہنا بھی جائز ہے مگر بہتر نہیں ہے، جنازہ کو کندھا دینے  کے  لئے کچھ لوگوں کا جنازہ  کے  آگے  رہنا بھی جائز ہے مگر  جنازے  سے دور نہ رہیں اور سب کا  آگے  چلنا اور  جنازے  کو پیچھے چھوڑ دینا مکروہ ہے۔ (١)

جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے کوئی دعا یا ذکر مخصوص منقول نہیں ہے، جو مناسب لگے پڑھنا چاہئے، البتہ اس وقت ذکر یا تلاوت کرتے ہوئے آواز بلند کرنا  مکروہ ہے۔ (٢)

2) جنازے کو کاندھے پر رکھ لینا مستحب ہے، لیکن اگر اس کا موقع نہ مل پائے تب بھی کوئی حرج نہیں، تاہم پیچھے والے کا اتنی عجلت کرنا کہ آگے والا جنازہ کے پائے پر صرف ہاتھ ہی لگاسکے کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے ایسی عجلت سے اجتناب کیا جائے۔ (٣)

3) جنازے کو  کاندھا دیتے وقت بھی کوئی دعا یا ذکر مخصوص منقول نہیں ہے، جو مناسب لگے پڑھنا چاہئے، البتہ اس وقت ذکر یا تلاوت کرتے ہوئے آواز بلند کرنا  مکروہ ہے۔ (٤)

4) جنازے کو دیکھ کر ٹھہرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر راستے میں کنارے جگہ ہوتو نکل جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز جگہ ہونے کے باوجود کسی راہ گیر کو نکلنے نہ دینا اور اسے لعن طعن کرنا شرعاً درست نہیں ہے، ایسے لوگوں کو اچھے انداز میں مسئلہ بتانے کی ضرورت ہے۔

1) (وَنُدِبَ الْمَشْيُ خَلْفَهَا) لِأَنَّهَا مَتْبُوعَةٌ ۔ الی قولہ ۔ (وَلَوْ مَشَى أَمَامَهَا جَازَ) وَفِيهِ فَضِيلَةٌ أَيْضًا (وَ) لَكِنْ (إنْ تَبَاعَدَ عَنْهَا أَوْ تَقَدَّمَ الْكُلُّ) أَوْ رَكِبَ أَمَامَهَا۔ (شامی : ٢/٢٣٣)

2/4) وَيُكْرَهُ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَغَيْرِهِمَا فِي الْجِنَازَةِ۔ (البحر الرائق : ۲/۲۰۷)

وَيُطِيلُ الصَّمْتَ إذَا اتَّبَعَ الْجِنَازَةَ وَيُكْرَهُ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ لِمَا رُوِيَ عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَكْرَهُونَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ ثَلَاثَةٍ: عِنْدَ الْقِتَالِ، وَعِنْدَ الْجِنَازَةِ، وَالذِّكْرِ؛ وَلِأَنَّهُ تَشَبُّهٌ بِأَهْلِ الْكِتَابِ فَكَانَ مَكْرُوهًا۔ (بدائع الصنائع : ١/٣١٠)

3) سُنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ أَرْبَعَةٌ مِنْ الرِّجَالِ، كَذَا فِي شَرْحِ النُّقَايَةِ لِلشَّيْخِ أَبِي الْمَكَارِمِ إذَا حَمَلُوهُ عَلَى سَرِيرٍ أَخَذُوهُ بِقَوَائِمِهِ الْأَرْبَعِ، بِهِ وَرَدَتْ السُّنَّةُ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ.
ثُمَّ إنَّ فِي حَمْلِ الْجِنَازَةِ شَيْئَيْنِ نَفْسَ السُّنَّةِ وَكَمَالَهَا أَمَّا نَفْسُ السُّنَّةِ أَنْ تَأْخُذَ بِقَوَائِمِهَا الْأَرْبَعِ عَلَى طَرِيقِ التَّعَاقُبِ بِأَنْ تَحْمِلَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ عَشْرَ خُطُوَاتٍ وَهَذَا يَتَحَقَّقُ فِي حَقِّ الْجَمْعِ وَأَمَّا كَمَالُ السُّنَّةِ فَلَا يَتَحَقَّقُ إلَّا فِي وَاحِدٍ وَهُوَ أَنْ يَبْدَأَ الْحَامِلُ بِحَمْلِ يَمِينِ مُقَدَّمِ الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة.
فَيَحْمِلُهُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْمَنُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُقَدَّمُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ.
وَذَكَرَ الْإِسْبِيجَابِيُّ أَنَّ الصَّبِيَّ الرَّضِيعَ أَوْ الْفَطِيمَ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ قَلِيلًا إذَا مَاتَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ رَجُلٌ وَاحِدٌ عَلَى يَدَيْهِ وَيَتَدَاوَلَهُ النَّاسُ بِالْحَمْلِ عَلَى أَيْدِيهِمْ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَحْمِلَهُ عَلَى يَدَيْهِ وَهُوَ رَاكِبٌ وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا يُحْمَلُ عَلَى الْجِنَازَةِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
وَيُسْرَعُ بِالْمَيِّتِ وَقْتَ الْمَشْيِ بِلَا خَبَبٍ وَفِي حَالَةِ الْمَشْيِ بِالْجِنَازَةِ يُقَدَّمُ الرَّأْسُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٦٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 صفر المظفر 1441

پیر، 28 اکتوبر، 2019

مورتی اور پھول وغیرہ کی تجارت کا حکم

*مورتی اور پھول وغیرہ کی تجارت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید شیرڈی میں پھول اور شیرینی اور سائیں کی مورتی فروخت کرتا ہے تو اس کی کمائی حلال ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
( المستفتی : حافظ شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسا  سامان جو پوجا پاٹ کے علاوہ دوسرے کام میں بھی استعمال ہوتا ہو مثلاً  ناریل، کافور، مٹھائیاں تو اُس  کی تجارت جائز ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کا پھول اور شیرینی فروخت کرنا درست ہے، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔ کیونکہ پھول اور شیرینی کی تجارت میں انہیں بیچ کر اپنا کاروباری نفع حاصل کرنا ہے، اب خریدار کہاں استعمال کریں گے، اس سے زید کو کوئی مطلب نہیں۔ خریدار معصیت کی جگہ استعمال کرے گا، تو اس کا گناہ اسی کے سر ہوگا۔ زید پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا۔

مورتیاں دو طرح کی ہوتی ہیں، دونوں کی تجارت اور آمدنی کا حکم ذیل میں مفصل بیان کیا جاتا ہے، اس کا بغور مطالعہ فرمالیں آپ کا مطلوبہ سوال سمجھ میں آجائے گا۔

۱) اگر وہ مورتیاں مٹی یا پتھر سے بنی ہوئی ہوں، تو ان کو بنانا اور ان کی تجارت کرنا حرام ہے اور ان کی آمدنی بھی حرام ہے۔ اس لئے کہ مٹی یا پتھر کے ٹوٹ جانے کے بعد پھر وہ کسی کام میں نہیں آتی، اس کی مالیت تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔

۲) دوسری شکل یہ ہے کہ اگر وہ مورتیاں لوہا، پیتل، تانبا، وغیرہ کسی دھات سے بنائی جاتی ہیں، تو ان کا بنانا حرام اور عظیم ترین گناہ ہے جس پر حدیث شریف میں قیامت کے دن کی سخت ترین عذاب کی وعید وارد ہوئی ہے، لیکن ان مورتیوں کو توڑ دینے یا ان کو گلا دینے کے بعد بھی تانبا، پیتل وغیرہ کی پوری مالیت باقی رہتی ہے، اسی لئے ان کی تجارت میں مالیت کی تجارت ہوگی اور ان کی آمدنی پر حرام کا حکم نہ ہوگا۔ البتہ ایسی  مورتیوں کی تجارت کرنا جن کی دوسری قومیں پرستش کرتی ہوں جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ شرک میں براہ راست کھلا ہوا تعاون ہے، جو مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔

رجل آجر بیتًا لیتخذ فیہ نارًا، أو بیعۃ، أوکنیسۃ، أو یباع فیہ الخمر، فلا بأس بہ، وکذا کل موضع تعلقت المعصیۃ بفعل فاعل مختار۔ (خلاصۃ الفتاوی، کتاب الکراہیۃ، الفصل التاسع في المتفرقات، المکتبۃ الأشرفیۃ،۴/۳۷)

عن عبداﷲ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن أشد الناس عذابا یوم القیامۃ المصورون۔ (مسلم شریف، باب لا تدخل الملائکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۲۰۱، بیت الأفکار، رقم: ۲۱۰۹)

اشتری ثوبا أو فرسا من خزف لأجل استیناس الصبي لا یصح ولا قیمۃ لہ۔ (تحتہ في الشامیۃ:) لو کانت من خشب أو صفر جاز إتفاقا فیما یظہر لإمکان الانتفاع بہا۔ (شامي، کتاب البیوع، باب المتفرقات، زکریا ۷/ ۴۷۸، کراچی ۵/ ۲۲۶)

وکذا بطل بیع مال غیر متقوم کالخمر والخنزیر، ویدخل فیہ فرس أو ثور من خزف لاستیناس الصبي۔ (الدرالمنتقی، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۷۸/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 صفر المظفر 1441

اتوار، 27 اکتوبر، 2019

ایصالِ ثواب کا بہتر طریقہ

سوال :

مفتی صاحب ایصال ثواب کے لئے ایک نفل نماز بتائی ہے ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پھر آیت الکرسی اس کے بعد سورہ التکاثر پھر گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص دو رکعت ادا کرنا ہے بعد نماز درودشریف ستر مرتبہ پڑھ کر بخشنا ہے۔تحقیق مطلوب ہے یہ درست ہے کیا؟ اور سب سے بہتر ایصال ثواب کا طریقہ بتائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے۔ لہٰذا اس نماز کے ذریعہ ایصالِ ثواب سے احتراز کیا جائے۔ اسی طرح ایصالِ ثواب کے لئے اور کوئی مخصوص نماز آپ علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔ بلکہ عام نفل نمازوں کی طرح ایصالِ ثواب کے لئے بھی نماز پڑھی جائے گی۔

مرحومین کے ایصالِ ثواب کے متعدد ذرائع ہیں، مالی عبادت کے ذریعے : مثلاً صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا، یا کپڑے پہنانا یا ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا۔
بدنی عبادت کے ذریعے : جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن، ذکر، اعتکاف، طواف یا نفل حج یا عمرہ وغیرہ۔ یا ایسے عمل کے ذریعہ جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں یا بورنگ کردینا، پل یا مسافرخانہ بنوانا، پھلدار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا، یا مصحف شریف یعنی قرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کردینا وغیرہ

ذکر کردہ اعمال کے کرنے سے پہلے یا بعد میں یہ نیت کرلینا کہ اللہ تعالٰی اس عمل سے ملنے والا اجر فلاں اور فلاں کو عطا فرما، ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے، اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل سنت و الجماعت  کا مذہب ہے۔

صدقہ کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان  کا  نفع دیرپا ہوتا ہے، اسے صدقۂ جاریہ کہا جاتا ہے، یہ  ایصالِ  ثواب  کا  سب سے  بہتر  طریقہ ہے، جیسے : مسجد یا مدرسہ تعمیر کرا دینا ، کنواں کھدوا دینا، وغیرہ۔۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ ان کی والدہ  کا  انتقال ہوگیا ہے اور وہ ان کی طرف سے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کنواں کھودوانے کا مشورہ دیا۔

لہٰذا ایسے صدقات کے  ذریعہ ایصالِ  ثواب جس کے نفع  کا  دائرہ وسیع ہو، اور زیادہ دنوں تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں، سب سے افضل طریقہ ہوگا۔

فہذہ الآثار وما قبلہا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وہو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللّٰہ بہ مبلغ التواتر۔ (فتح القدیر، ۱۴۲:۳)

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَةَ يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ سَقْيُ الْمَاءِ قَالَ فَتِلْكَ سِقَايَةُ آلِ  سَعْدٍ  بِالْمَدِينَةِ قَالَ شُعْبَةُ فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ مَنْ يَقُولُ تِلْكَ سِقَايَةُ آلِ سَعْدٍ قَالَ الْحَسَنُ۔ (مسند احمد)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 صفر المظفر 1441

ہفتہ، 26 اکتوبر، 2019

وضو کی حالت میں نجاست لگ جائے تو وضو باقی رہے گا؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے ہندہ باوضو تھی، اس نے اپنے چھوٹے بچے کو پاخانہ کرانے کے بعد اس کی صفائی کی جس کی وجہ سے اسے نجاست لگ گئی، تو کیا ہندہ کا وضو باقی رہا یا نہیں؟
(المستفتی : محمد زبیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بدن پر نجاست کے لگ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ وضو کے ٹوٹنے کیلئے نواقضِ وضو  میں  سے کسی ناقض کا پایا جانا ضروری ہے۔ نواقض وضو درج ذیل ہیں :

١) آگے پیچھے کی شرم گاہ سے کسی چیز کا عادت کے طور پر نکلنا۔ مثلاً پاخانہ، پیشاب، ریاح، منی، مذی وغیرہ۔

۲) اگلی پچھلی شرم گاہ سے خلافِ عادت کسی چیز کا نکلنا، مثلاً استحاضہ کا خون، کیڑا، کنکری وغیرہ۔

۳) بدن کے کسی حصہ سے نجاست کا بہنے کی مقدار میں نکلنا، مثلاً خون، پیپ، مواد، یا بیماری کی وجہ سے نجس پانی نکلنا۔

۴) منہ بھرکر قے۔

۵) نیند، جس سے اعضاء مضمحل ہوجائیں۔

۶) بے ہوشی، پاگل پن اور نشہ۔

۷) رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ۔

۸) مباشرتِ فاحشہ یعنی بلا کسی رکاوٹ کے شرم گاہ کا شرم گاہ سے ملانا، خواہ مرد کا عورت سے ہو یا مرد کا مرد سے، یا عورت کا عورت سے۔ (ملخص از: مسائل بہشتی زیور، مرتبہ: ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب از۱۲ تا ۲۰/بحوالہ کتاب المسائل)

صورتِ مسئولہ میں چونکہ کوئی ناقضِ وضو نہیں پایا گیا ہے اس لئے ہندہ کا وضو باقی ہے۔


سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ما الحَدَثُ؟ فَقالَ : ما يَخْرُجُ مِن السَّبِيلَيْنِ۔ (٣٨/١، فصل نواقض الوضوء، نصب الرایۃ)

كل ما خرج من السبيلين والدم والقيح والصديد إذا خرج من البدن فتجاوز إلى موضع يلحقه حكم التطهير والقيء إذا كان ملء الفم والنوم مضطجعا أو متكئا أو مستندا إلى شيء لو أزيل عنه لسقط والغلبة على العقل بالإغماء والجنون والقهقهة في كل صلاة ذات ركوع وسجود۔ (مختصر القدوري : ١١)فقط

واللہ تعالٰی اعلم

محمد عامر عثمانی ملی
26 صفر المظفر 1441

بدھ، 23 اکتوبر، 2019

مسجد کا قالین کیسا ہو؟

*مسجد کا قالین کیسا ہو؟*

سوال :

مفتی صاحب ! مسجدوں میں آج کل دبیز نقش و نگاری سے مزین قالین استعمال کرنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ نماز کے دوران بے اختیار اس پر نظر پڑجاتی ہے جس سے نماز میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ مسجدوں میں کتنا دبیز اور نرم قالین کا استعمال کیا جانا چاہیے؟ ایک مسجد میں قالین کے نیچے رکھا جانے والا اسفنج چھوٹا ہونے کی وجہ سے عین سجدہ کی جگہ بغیر اسفنج کے ایک انچ نیچے ہوجاتی ہے، اور سجدہ کرنے کے وقت ہتھیلی سمیت نیچے جانا ہوتا ہے، کیا نماز میں ایسا کرنا مناسب ہوگا؟
نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آپ کے کسی رشتہ دار نے نقش نگاری والی چادر دی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں خلل آنے پر اسے واپس کردی تھی۔ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد میں ایسا قالین بچھانا قطعاً جائز نہیں ہے جس میں سجدہ کی جگہ ایسی موٹی اور لچکدار ہو کہ سجدہ کے وقت پیشانی کو زمین کی سختی محسوس نہ ہو، اس لئے کہ نماز میں زمین  پر  سجدہ کرنا ضروری ہے، یعنی زمین کی صلابت اورسختی کا احساس ہونا ضروری ہے، اگر زمین کی سختی  کا ادراک نہ ہوتو سجدہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں قالین کے ایک حصے کے نیچے اسفنج نہ ہونے کی وجہ سے اگر سجدہ کی جگہ تھوڑی نیچے ہوگئی ہے لیکن زمین پر پیشانی ٹک جاتی ہے اور زمین کی سختی محسوس ہوتی ہے تو سجدہ صحیح ہوکر نماز درست ہوجائے گی۔ تاہم یہ چیز نماز میں خلل کا سبب ہوسکتی ہے، لہٰذا انتظامیہ کو اسے درست کرلینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر مصلیان کی نماز خراب ہونے کے ذمہ دار ہوں گے۔

بلاشبہ نماز کی روح خشوع و خضوع ہے اس کے بغیر نماز بے جان ہے، نمازی کے سامنے نقش  و نگار  کا ہونا نمازی کی توجہ اور خیال کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے دروازے پر خوبصورت پردہ دیکھ کر فرمایا اس کو ہٹا لو اس کے بیل بوٹے میری نماز میں عارض ہو کر خلل انداز ہوتے ہیں (صحیح بخاری، ١/ ۵۴)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھول دار چادر بھی اپنے لئے پسند نہیں فرمائی اور فرمایا کہ یہ چادر مجھے نماز میں خلل ڈالتی ہے۔ (صحیح مسلم،١/ ۲۰۸)

لہٰذا مسجد میں ایسے نقش و نگار والا قالین بچھانا جس سے مصلیان کے خشوع وخضوع پر اثر ہو خلافِ اولی ہے، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ مسجد میں قالین نہ بچھائی جائے، سادی لکڑی والی چٹائی بچھائی جائے جو ہر طرح سے آرام دہ اور مفید ہوتی ہے۔ قالین ایک تو پہلے ہی مہنگی ہوتی ہے اس پر اس کی دیکھ بھال کا بھی مستقل خرچ ہوتا ہے، اس لئے کہ اس کی صفائی مشین کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں بجلی کا استعمال ہوتا ہے اور مؤذن کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس کی صفائی میں ذرا سا غفلت کی صورت میں یہ قالین مصلیان کی ایذا کا سبب بن جاتی ہے، قعدہ کی حالت میں پیروں پر باریک کنکروں کا دھنسنا اور سجدہ میں سانس لینے کی صورت دھول کا حلق اور ناک چلے جانا بڑا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر دو چار سالوں میں اس مہنگی قالین کی خوبصورتی، نرمی اور ملائمت ماند پڑجاتی ہے۔ تاہم ایسی مساجد جہاں معقول آمدنی کے ذرائع ہوں اور اس کی دیکھ بھال اچھے انداز میں ہوسکتی ہوتو وہاں قالین بچھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ولو سجد علی الحشیش أو علی التبن أو علی القطن أو الطنفسۃ أو الثلج إن استقرت جبھتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۱/۷۰)

وکرہ بعض مشائخنا النقوش علی المحراب و حائط القبلۃ، لأن ذلک یشغل قلب المصلی الخ، (الفتاوی الہندیۃ : الباب الخامس فی آداب المسجد، ۵/۳۱۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 صفر المظفر 1441