بدھ، 16 اکتوبر، 2019

قبرستان میں ایصالِ ثواب کے لیے قرآن پڑھنا

*قبرستان میں ایصالِ ثواب کے لیے قرآن پڑھنا*

سوال :

مفتی صاحب! قبر کے پاس بیٹھ کر مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے قرآن شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جنت البقیع کے گیٹ پر وہاں کے علمائے کرام رہتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ قبرستان کونسا عمل کرنا چاہئے اور جس سے بچنا چاہئے وہاں ایک موقع پر انہوں نے حدیث بیان کی تھی پوری حدیث تو یاد نہیں ہے اس کا مفہوم خلاصہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ گھر قبرستان کے مشابہ ہیں جس میں قرآن شریف نہ پڑھا جاتا ہوں۔اس حدیث کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ قبرستان میں قرآن کا پڑھنا بدعت ہے۔ اس بارے میں آپ رہنمائی فرمائیں۔ اور کوئی حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں قرآن شریف پڑھنے کی اجازت دی ہو یا کسی صحابہ کا واقعہ بتائیں۔
(المستفتی : ریحان سردار، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ ایصالِ ثواب کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں ہے، ایصالِ ثواب کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ قبر کے پاس ایصالِ ثواب کے لئے قرآن کریم کی تلاوت زبانی کرنا بہتر ہے، اگر کسی کو زبانی یاد نہ ہو تو  قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم میں دیکھ کر بھی تلاوت کرسکتے ہیں، البتہ اس کو ایک رسم بنالینا اور اس کو ضروری سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ نیز ایصالِ ثواب کرنے والے افراد قبر کے پاس ہاتھ اٹھا کر دعا کرسکتے ہیں، لیکن رُخ مکمل طور پر قبلہ کی طرف ہونا چاہیے۔

سوال نامہ میں مذکور عالم دین کی بیان کردہ روایت "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ" متعدد کُتب احادیث میں موجود ہے۔

لیکن اس کا مطلب عام طور سے شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح قبروں میں مُردے ذِکر و عبادت نہیں کرتے، اور قبریں ذکر و عبادت سے خالی رہتی ہیں، تم اپنے گھروں کو ایسانہ بنا لو کہ وہ ذِکر و عبادت سے خالی رہیں، بلکہ ان کو ذکر و عبادت سے معمور رکھو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت نہ ہو وہ زندوں کے گھر نہیں، بلکہ مُردوں کے قبرستان ہیں۔

درج بالا حدیث شریف کی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ قبرستان کے اصل رہنے والے تو مردے ہیں جو ذکر، تلاوت وغیرہ نہیں کرتے، لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوسکتا کہ قبرستان آنے والے زندہ افراد بھی قبرستان میں تلاوت اور ذکر نہ کریں۔ کیونکہ احادیث اور آثار سے اس ثبوت ملتا ہے کہ قبرستان میں تلاوت کی جاسکتی ہے۔

علاء بن اللجلاج کہتے ہیں کہ میر ے والد نے مجھے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو میرے لیے لحد بنانا اور جس وقت مجھے لحد میں رکھ دو تو بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہنا پھر مجھ پر مٹی ڈالنا اور پھر اس کے بعد سر کی جانب سورۃ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ تلاوت کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ کو ایسے ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (رواہ الطبرانی بسند صحیح، المعجم الکبیر، 8/219)

مشہور شارحِ مشکوٰة ملا علی قاری جلیل القدر تابعی امام شعبی کا قول نقل کرتے ہیں کانت الأنصار اذا مات لہم المیت اختلفوا الی قبرہ یقروٴن القرآن۔ (مرقات صفحہ ۱۹۸:۴) اور علامہ ابن القیم نے بھی اپنی کتاب ”الروح/۹۳“ میں امام شعبی کا قول ذکر کیا ہے، یعنی انصار میں جب کسی کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر جاتے اور قرآن پڑھتے تھے۔

لہٰذا ایصالِ ثواب کے لیے قبرستان میں قرآنِ کریم کی تلاوت کو بدعت کہنا سراسر زیادتی ہے۔

ولایکرہ الدفن لیلاً ولہ إجلاس القارئین عند القبر وہو المختار، وفی الشامیۃ : ولایکرہ الجلوس للقراءۃ علی القبر فی المختار۔ (الدر مع الرد، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب في وضع الجرید ونحو الآس علی القبور زکریا، ۳/۱۵۵، ۱۵۶)

وفي حديث بن مسعود رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في قبر عبد اللہ ذي النجادين الحديث، وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه، أخرجه أبو عوانة في صحيحہ۔(فتح الباري شرح صحيح بخاری، ۱۱؍۱۴۴، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلۃ، بيروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 صفر المظفر 1441

1 تبصرہ: