منگل، 8 اکتوبر، 2019

غیرمسلم کو کافر کہنے کا حکم

*غیرمسلم کو کافر کہنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب امید ہیکہ آپ بخیر ہونگے۔
ایک مسئلہ دریافت طلب ہیکہ ہمارا خونی رشتہ کا بھائی ہے جسے آج تک ہم نے کسی بھی ذریعہ سے دعوت نہيں پہنچائی وہ توحید، رسالت، آخرت اور قرآن کریم کو نہيں جانتا تو کیا اس صورت میں اسے کافر کہا جاسکتا ہے؟
(المستفتی : مجاہد الاسلام، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کافر وہ شخص ہے جو دین اسلام کو ظاہراً وباطناً ماننے والا نہ ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر غیرمسلم اصلاً کافر ہی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی پورے عالم میں پھیلادی ہے، اسلام اور اسلامی تعلیمات کسی نہ کسی درجہ میں ہر انسان تک پہنچی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ جنگلوں میں انسانوں سے الگ تھلگ رہنے والے انسان کو بھی بروزِ حشر یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ اُس تک توحید کا پیغام نہیں پہنچا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دینِ فطرت یعنی اسلام پر پیدا فرمایا ہے، اور اس میں اتنی سوجھ بوجھ رکھی ہے کہ اگر اُس تک اسلامی تعلیمات نہیں پہنچی ہیں تب بھی وہ کم از کم عقیدۂ توحید پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے، ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معرفتِ خداوندی کا واقعہ اس سلسلے میں روشن اور واضح دلیل ہے۔ اب یہ قصور اُس شخص کا ہے جس نے حق کی روشنی کا ادراک کرنے کے باوجود اس کو قبول کرنے میں کوتاہی اور غفلت برتی ہو، اور یہ عدم قبولیت ہی اس کا انکار ہے جس کی وجہ سے وہ  کافر ٹھہرا، لہٰذا اس اظہارِ حقیقت کے طور پر اسے کافر  کہا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ہم نے کسی غیرمسلم کو دین کی دعوت نہيں پہنچائی اور وہ توحید، رسالت، آخرت اور قرآن کریم کو نہيں جانتا تب بھی اسے کافر کہنا درست ہے، صرف اُسی شخص کو کافر سمجھنا جس نے باقاعدہ دین کی دعوت ملنے کے باوجود انکار کیا ہو یا کفارِ مکہ کے طرز پر اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مُنکِر ہو، درست نہیں ہے۔ نیز   کافر کو بھی کافر  نہ کہا جائے، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، بلکہ قرآنِ کریم میں بار بار "ان الذین کفروا" ، "الکافرون"، "لقد کفر الذین قالوا" کے الفاظ موجود ہیں۔ جو اس قول کی تردید کے لئے کافی وافی ہیں۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ غیرمسلم کو اس کی مذہبی شناخت کے اعتبار سے ہی کہا جائے، مثلاً عیسائیت کے پیروکاروں کو عیسائی، یہودیت کے ماننے والوں کو یہودی اور سناتن دھرم کے متبعین کو ہندو کہا جائے یا پھر برادرانِ وطن بھی کہا جاسکتا ہے۔

اسی طرح عباراتِ فقہاء سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیرمسلم کو بطور استہزاء اور گالی کے کافر کہہ کر مخاطب کرنا جائز نہیں ہے۔

عن ابی ھریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ  یھودانہ وینصرانہ کما تنا تج الا بل من بھیمۃ جمعاء ھل تحس من جدعاء قلوا یار سول اللہ افرئیت من یموت وھو صغیر قال اللہ اعلم بما کانو ا عالمین۔(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ، باب فی ذراری المشرکین، ۲/۲۹۲)

وفي القنیة : قال یہودي أو مجوسي یا کافر یأثم إن شق علیہ، ومقتضاہ أن یعزر لارتکابہ الإثم، الدرر، وفي الرد․․․إلا أن یفرق بأن الیہودي مثلاً لا یعتقد في نفسہ أنہ کافر۔ (الدر مع الرد : ۱۲۸/۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 صفر المظفر 1441

3 تبصرے: