منگل، 22 اکتوبر، 2019

علماء کے لیے تعظیماً کھڑے ہونے کا حکم

*علماء کے لیے تعظیماً کھڑے ہونے کا حکم*

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! کیا کسی کے استقبال کیلئے اکراماً کھڑے ہونا شرعاً ممنوع ہے؟ کیونکہ عام طور پر کسی بڑے عالم دین کی آمد پر ان کے استقبال میں اکثر علماء کو بھی کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے، وہیں دوسری جانب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کبھی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آتا دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے ہمیں بھی کسی کے استقبال میں کھڑے نہیں ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ رہبری فرمائیں گے۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے تعلق سے جو بات آپ نے ذکر کی ہیں بلاشبہ یہ بات حدیث شریف میں مذکور ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول کریم ﷺ سے زیادہ محبوب و عزیز کوئی اور شخص نہیں تھا لیکن اس محبت و تعلق کے باوجود صحابہ کرام ؓ جب آنحضرت ﷺ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اس کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے۔

علماء نے اس طرح کے روایات کی تشریح میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی انکساری کے اظہار اور اہل تکبر کے طور طریقوں کی مخالفت کی بنا پر اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ جب آپ مجلس میں تشریف لائیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جائیں بلکہ آپ کھڑے ہونے، بیٹھنے، کھانے پینے اور چلنے پھرنے اور دیگر افعال واخلاق میں ترک تکلف پر قائم و عامل تھے جو اہل عرب کی عادت تھی اس لئے آپ نے فرمایا " میں اور میری امت کے متقی لوگ، تکلف سے بیزار ہیں" اور علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرنا کمال محبت، صفائی باطن اور اتحاد قلوب کی بنا پر تھا کہ قلبی اتحاد اور تعلق کا کمال اس طرح کے تکلفات کا متقاضی نہیں ہوتا۔

درج بالا تشریح سے معلوم ہوا کہ تعظیماً کھڑے ہونا اور کھڑے نہ ہونا دونوں کا تعلق وقت و حالات اور اشخاص و تعلقات کے تفاوت پر مبنی ہوتا ہے کہ بعض اوقات اور بعض حالات میں آنے والے کے لئے احتراماً کھڑے ہوجانا مناسب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں کھڑے نہ ہونا ہی مناسب ہوتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ یہ معلوم ہو کہ آنے والا کھڑے ہونے کو پسند نہیں کرتا یا آپ کے تعلقات تکلفات کے محتاج نہیں ہیں۔ یعنی جب علم ہو کہ آنے والے صاحب علم وفضل کھڑے ہونے کو پسند نہیں کرتے تو پھر نہیں کھڑے ہونا چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علم و فضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم و توقیر کے طور پر کھڑے ہونا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس صاحب علم وفضل کے لیے بہتر ہے کہ وہ کھڑے ہونے والوں کو اچھے انداز میں کھڑے ہونے سے منع کردے کہ یہ چیز سنت سے زیادہ قریب ہے۔

ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کا مستحق نہ ہو بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہو جانے کی طلب و خواہش رکھتا ہو، ممنوع ہے۔ اور اسی طرح بیجا خوشامد و چاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے، نیز دنیاداروں کے لئے کھڑے ہونا اور ان کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے اور اس بارے میں سخت وعید منقول ہے۔ (مستفاد : مشکوۃ مترجم)

عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: خرج علینا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم متوکئًا علی عصا فقمنا لہ، فقال: لا تقوموا کما تقوم الأعاجم بعضہم لبعض۔ (فتح الباري، کتاب الاستئذان / باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قوموا إلیٰ سیدکم ۱۱؍۴۹ رقم: ۶۲۶۲)

وقال بعض العلماء : في الحدیث إکرام أہل الفضل من علم أو صلاح أو شرف بالقیام لہم إذا أقبلوا، ہٰکذا احتج بالحدیث جماہیر العلماء۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب / باب القیام، ۸؍۴۷۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 صفر المظفر 1441

2 تبصرے:

  1. السلام علیکم رحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب

    اللہ پاک آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے ۔۔۔ آمین ۔۔

    جواب دیںحذف کریں