ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کرنے کا حکم

*جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب ! ایک گروپ میں اس مسئلے پر بات چلی کہ چونکہ شہر کافی بڑا ہو چکا ہے اور ایک جامع مسجد کافی نہیں پڑتی، اس لئے جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر جو ثواب ہے اس سے بہت سارے افراد محروم رہ جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا انکی نیتوں پر ہی انہیں وہ ثواب ملے گا جو جامع جانے سے محروم رہ گئے؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ لفظ جامع یعنی بڑا یا بڑی، اسکی بھی تحقیق مطلوب ہے کہ جو مسجد بڑی ہے کیا وہ بھی جامع مسجد کہلائے گی؟
مفتی محترم ان مسائل پر آپ روشنی ڈال کر ممنون و مشکور فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شہر اور بڑے گاؤں کی ہر وہ مسجد جس میں نمازِ جمعہ ادا کی جاتی ہو اور اس مسجد میں نماز کے لیے عام لوگوں کو آنے کی اجازت ہو وہ جامع مسجد ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شہر مالیگاؤں کی ہر وہ مسجد جس میں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے  "جامع مسجد" ہے۔

مسئلہ ھذا کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے کہ شریعتِ مطہرہ کا اصل حکم یہ ہے کہ بستی میں ایک جگہ  جمعہ  پڑھنا افضل ہے، اور پہلے بستیاں چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسی پر عمل کیا جاتا کہ بستی کی ایک بڑی مسجد، جس میں بستی کے تمام نمازی نماز پڑھ لیں، نماز جمعہ ادا کی جاتی تھی اور وہ "مسجد جامع" کہلاتی تھی۔ لیکن چونکہ اب بستیاں کافی بڑی ہوتی ہیں اور آبادی کی کثرت کی وجہ سے ایک مسجد میں سب لوگوں کا جمع ہونا ناممکن سا ہوگیا ہے، چنانچہ شہر کی تمام مساجد میں جمعہ ادا کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر مسجد جامع مسجد ہوگی۔ لہٰذا کسی بھی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے سے جامع مسجد کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ صرف جس مسجد کا نام جامع مسجد ہو اسی میں نماز ادا کرنے پر یہ فضیلت موقوف نہیں۔ البتہ کوئی وہاں اس نیت سے جائے کہ دور جانے سے ثواب زیادہ ہوگا کہ نماز کے لیے زیادہ قدم چلنا نیکیوں میں اضافہ اور گناہوں کے معاف ہونے کا سبب ہے، جیسا کہ احادیثِ مبارکہ میں ملتا ہے۔ تو ایسا شخص بلاشبہ مذکورہ فضیلت کا مستحق ہوگا بشرطیکہ اس کے جانے  کی  وجہ سے اس کے محلہ  کی مسجد  کی جماعت کو نقصان نہ پہنچے، اگر اس کے محلہ  کی  مسجد  کی  جماعت ویران ہوتی ہوتو نہ جانا بہتر ہے۔

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات میں سوال نامہ میں مذکور تمام مشمولات کے جوابات آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

المسجد الجامع ، ھو المسجد الکبیر العام۔ (قواعد الفقہ : ۴۸۴، المصدف پبلشرز، کراچی)

(قَوْلُهُ إلَّا الْجَامِعَ) أَيْ الَّذِي تُقَامُ فِيهِ الْجُمُعَةُ۔ (شامی : ٢/١٥٧)

عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيِّ الْمُجْمِرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَی الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَ يَعْمِدُ إِلَی الصَّلَاةِ وَإِنَّهُ يُکْتَبُ لَهُ بِإِحْدَی خُطْوَتَيْهِ حَسَنَةٌ وَيُمْحَی عَنْهُ بِالْأُخْرَی سَيِّئَةٌ فَإِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمْ الْإِقَامَةَ فَلَا يَسْعَ فَإِنَّ أَعْظَمَکُمْ أَجْرًا أَبْعَدُکُمْ دَارًا قَالُوا لِمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ مِنْ أَجْلِ کَثْرَةِ الْخُطَا۔ (مؤطا امام مالک، رقم : ٦٩)

وَمَسْجِدُ حَيِّهِ أَفْضَلُ مِنْ الْجَامِعِ، وَالصَّحِيحُ أَنَّ مَا أُلْحِقَ بِمَسْجِدِ الْمَدِينَةِ مُلْحَقٌ بِهِ فِي الْفَضِيلَةِ۔ (شامی : ١/٦٥٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1441

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم ورحمۃُ اللّٰه!
    جزاک اللّٰه،ماشاءاللّٰه، تبارک اللّٰه
    آمین یارب العالمین

    جواب دیںحذف کریں