ہفتہ، 19 اکتوبر، 2019

ووٹ کی روشنائی سے وضو اور غسل کا حکم

*ووٹ کی روشنائی سے وضو اور غسل کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! ووٹنگ کے وقت جو سیاہی لگائی جاتی ہے، اس کے لگے رہنے سے وضو اور غسل کا کیا حکم ہوگا؟ کئی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں، اس لئے آپ سے گذارش ہے کہ اس مسئلے میں محقق جواب لکھ دیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
(المستفتی : محمد سعید، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ووٹ دینے کے وقت بطورِ علامت جو سیاہی ووٹروں کی انگلیوں پر لگائی جاتی ہے اگرچہ وہ عام روشنائی سے کچھ الگ ہوتی ہے جس میں بڑی تیزی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ روشنائی بڑی پائیدار اور دیرپا ہوتی ہے۔ لیکن اس سے کھال پر پَرَت نہیں بنتی جو وضو اور غسل میں کھال تک پانی پہنچنے کے لئے رکاوٹ ہو۔ لہٰذا اس کے لگے رہنے سے وضو اور غسل درست ہوگا۔ اس موقف کی تائید میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ شاہی مرادآباد کے دو مفتیان کرام کے فتاوی نقل کیے جارہے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ہے :
ووٹ  دیتے وقت علامت کے طور پر انگلی پر جو روشنائی لگائی جاتی ہے، چونکہ اس میں ایسی پرت نہیں ہوتی جو کھال تک پانی پہنچنے سے مانع بنے، اس لیے اس کے لگے رہنے کی حالت میں وضو درست ہے۔ برخلاف اسکے جب آٹا لگ کر سوکھ جائے یا ناخن پالش لگی ہو؛ کیوں کہ اس میں ایسی پرت (تہ) ہوتی ہے جو پانی پہنچنے سے مانع بنتی ہے، اس لیے وضو صحیح نہیں ہوتا۔ (جواب نمبر : 52161)

مفتی شبیر صاحب قاسمی لکھتے ہیں :
اگر حتی الامکان اس کے ازالہ کے لئے مل کرکے دھویا جائے، پھر بھی نہیں جاتا ہے، تو وہ معاف ہے۔ اور بہت سے لوگوں کا یہ تجربہ ہے کہ اسے دھوکر صاف کرنے کی کوشش کی گئی، مگر ہفتوں کے بعد بھی وہ رنگ زائل نہیں ہوا ہے، اس لئے روشنائی اور پکا رنگ کے درجہ میں قرار دیا جائے گا۔ اور الیکشن کو آج ایک مہینہ سے زائد ہوگئے باوجود کوشش کے خود میرے ناخن سے وہ رنگ زائل نہیں ہو پایا، اب تک وہ رنگ میرے ناخن میں موجود ہے، جب کہ اس کے ازالہ کے لئے بڑی کوشش کی گئی، البتہ ناخن سے ہٹ کر گوشت وچمڑا کے حصہ پر جو لگا تھا وہ زائل ہوچکا ہے، اس لئے الیکشن کے موقع پر جو رنگ لگایا جاتا ہے، وہ تیز اثر روشنائی کے حکم میں ہے، اسے ذی جرم کہہ کر ناخن پالش کے درجہ میں قرار نہیں دیا جائے گا، لہٰذا اس کی وجہ سے مسلمانوں کے وضو اور غسل میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (فتاوی قاسمیہ، ۵/٦٦)

مفتی سلمان صاحب منصورپوری رقم طراز ہیں :
ووٹ  دیتے وقت علامت کے طور پر انگلی پر جو روشنائی لگائی جاتی ہے، جس کا اثر کئی دنوں تک رہتا ہے وہ چونکہ تہہ دار نہیں ہوتی، اس لئے اس کے لگے رہنے کی حالت میں غسل اور وضو درست ہے۔
نوٹ : بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اس روشنائی کو چھڑاتے وقت معمولی سی پرت اترتی ہے، اس لئے یہ وضو سے مانع ہوگی، بریں بنا احتیاط اس میں ہے کہ اس روشنائی کو جلد از جلد چھڑانے کی کوشش کی جائے، لیکن کوشش کے باوجود اگر چھوٹ نہ سکے تو اسی حالت میں وضو اور غسل جائز اور درست ہوجائے گا۔ (کتاب المسائل، ١/١٤٦)

درج بالا جوابات کا خلاصہ یہ ہے کہ اختلاف سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ اس روشنائی کو چھڑا لیا جائے، لیکن اگر کوئی نہ چھڑائے تب بھی اس کا وضو اور غسل درست ہوجائے گا۔

ولا یمنع ما علی ظفر صباغ، ولا طعام بین أسنانہ أو فی سنہ المجفوف۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، مطلب فی أبحاث الغسل، زکریا ۱/ ۲۸۹)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح لازم فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حار، أو صابون ونحوہ۔ (شامي، باب الأنجاس، قبیل مطلب في حکم الصبغ، زکریا ۱/ ۵۳۷)

ویعفی أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ إلی نحو الصابون۔ (مجمع الأنہر، باب الأنجاس، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۶۰)

والمراد بالأثر اللون والریح، فإن شق إزالتہما سقطت۔ (البحر الرائق، باب الأنجاس، زکریا ۱/ ۴۱۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 صفر المظفر 1441

1 تبصرہ: