بدھ، 23 اکتوبر، 2019

مسجد کا قالین کیسا ہو؟

*مسجد کا قالین کیسا ہو؟*

سوال :

مفتی صاحب ! مسجدوں میں آج کل دبیز نقش و نگاری سے مزین قالین استعمال کرنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ نماز کے دوران بے اختیار اس پر نظر پڑجاتی ہے جس سے نماز میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ مسجدوں میں کتنا دبیز اور نرم قالین کا استعمال کیا جانا چاہیے؟ ایک مسجد میں قالین کے نیچے رکھا جانے والا اسفنج چھوٹا ہونے کی وجہ سے عین سجدہ کی جگہ بغیر اسفنج کے ایک انچ نیچے ہوجاتی ہے، اور سجدہ کرنے کے وقت ہتھیلی سمیت نیچے جانا ہوتا ہے، کیا نماز میں ایسا کرنا مناسب ہوگا؟
نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آپ کے کسی رشتہ دار نے نقش نگاری والی چادر دی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں خلل آنے پر اسے واپس کردی تھی۔ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد میں ایسا قالین بچھانا قطعاً جائز نہیں ہے جس میں سجدہ کی جگہ ایسی موٹی اور لچکدار ہو کہ سجدہ کے وقت پیشانی کو زمین کی سختی محسوس نہ ہو، اس لئے کہ نماز میں زمین  پر  سجدہ کرنا ضروری ہے، یعنی زمین کی صلابت اورسختی کا احساس ہونا ضروری ہے، اگر زمین کی سختی  کا ادراک نہ ہوتو سجدہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں قالین کے ایک حصے کے نیچے اسفنج نہ ہونے کی وجہ سے اگر سجدہ کی جگہ تھوڑی نیچے ہوگئی ہے لیکن زمین پر پیشانی ٹک جاتی ہے اور زمین کی سختی محسوس ہوتی ہے تو سجدہ صحیح ہوکر نماز درست ہوجائے گی۔ تاہم یہ چیز نماز میں خلل کا سبب ہوسکتی ہے، لہٰذا انتظامیہ کو اسے درست کرلینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر مصلیان کی نماز خراب ہونے کے ذمہ دار ہوں گے۔

بلاشبہ نماز کی روح خشوع و خضوع ہے اس کے بغیر نماز بے جان ہے، نمازی کے سامنے نقش  و نگار  کا ہونا نمازی کی توجہ اور خیال کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے دروازے پر خوبصورت پردہ دیکھ کر فرمایا اس کو ہٹا لو اس کے بیل بوٹے میری نماز میں عارض ہو کر خلل انداز ہوتے ہیں (صحیح بخاری، ١/ ۵۴)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھول دار چادر بھی اپنے لئے پسند نہیں فرمائی اور فرمایا کہ یہ چادر مجھے نماز میں خلل ڈالتی ہے۔ (صحیح مسلم،١/ ۲۰۸)

لہٰذا مسجد میں ایسے نقش و نگار والا قالین بچھانا جس سے مصلیان کے خشوع وخضوع پر اثر ہو خلافِ اولی ہے، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ مسجد میں قالین نہ بچھائی جائے، سادی لکڑی والی چٹائی بچھائی جائے جو ہر طرح سے آرام دہ اور مفید ہوتی ہے۔ قالین ایک تو پہلے ہی مہنگی ہوتی ہے اس پر اس کی دیکھ بھال کا بھی مستقل خرچ ہوتا ہے، اس لئے کہ اس کی صفائی مشین کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں بجلی کا استعمال ہوتا ہے اور مؤذن کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس کی صفائی میں ذرا سا غفلت کی صورت میں یہ قالین مصلیان کی ایذا کا سبب بن جاتی ہے، قعدہ کی حالت میں پیروں پر باریک کنکروں کا دھنسنا اور سجدہ میں سانس لینے کی صورت دھول کا حلق اور ناک چلے جانا بڑا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر دو چار سالوں میں اس مہنگی قالین کی خوبصورتی، نرمی اور ملائمت ماند پڑجاتی ہے۔ تاہم ایسی مساجد جہاں معقول آمدنی کے ذرائع ہوں اور اس کی دیکھ بھال اچھے انداز میں ہوسکتی ہوتو وہاں قالین بچھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ولو سجد علی الحشیش أو علی التبن أو علی القطن أو الطنفسۃ أو الثلج إن استقرت جبھتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۱/۷۰)

وکرہ بعض مشائخنا النقوش علی المحراب و حائط القبلۃ، لأن ذلک یشغل قلب المصلی الخ، (الفتاوی الہندیۃ : الباب الخامس فی آداب المسجد، ۵/۳۱۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 صفر المظفر 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں