ہفتہ، 30 نومبر، 2019

سجدہ میں پاؤں اٹھا دینے کا حکم

*سجدہ میں پاؤں اٹھا دینے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ دورانِ سجدہ اگر پیر زمین سے اُٹھ جائے تو اس صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟ رہبری فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : اشتیاق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں زمین پر رکھنا فرض ہے۔ اگر پورے وقت پاؤں زمین پر بالکل نہ رکھے تو ترکِ فرض کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی، اور اگر ایک مرتبہ سبحان اللہ پڑھنے کے بقدر بھی زمین پر رکھ دے تو نماز ہو جائے گی، البتہ بغیر کسی عذر کے پیروں کو تھوڑی دیر کے لیے بھی اٹھادینا خلافِ سنت اور مکروہ عمل ہے۔

(ومنها السجود) بجبهته وقدميه، ووضع إصبع واحدة منهما شرط۔ (الدر المختار) قال ابن عابدین :(قوله وقدميه) يجب إسقاطه لأن وضع إصبع واحدة منهما يكفي كما ذكره بعد ح. وأفاد أنه لو لم يضع شيئا من القدمين لم يصح السجود۔ (رد المحتار علی الدر المختار :۱؍۴۴۷، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ)

ويكفيه وضع أصبع واحدة، فلو لم يضع الأصابع أصلا، ووضع ظهر القدم فإنه لا يجوز۔ (البحر الرائق :۱؍۵۵۶، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الآخر 1441

موبائل میں قرآن پڑھنے اور موبائل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم

*موبائل میں قرآن پڑھنے اور موبائل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! موبائل اسکرین پر قرآن مجید کی تلاوت کا کیا حکم ہے؟ آج ایک مسجد میں موبائل پر تلاوت کر رہا تھا، کچھ حضرات کو اعتراض ہوگیا۔ ایک صاحب نے تو یہ کہا کہ ان کے حضرت جی نے کہا ہے کہ جن کی جیب میں اسکرین ٹچ والا موبائل رہتا ہے ان کی تو نماز بھی تقوے والی نہیں ہوتی، ان لوگوں کو مسئلے سے آگاہ کرنے کی غرض سے سوال کیا ہوں۔
(المستفتی : فہیم ابراہیم، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موبائیل کی مثال بندوق اور چُھری جیسی ہی ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں، جیسے کوئی بندوق کا جائز استعمال کرتے ہوئے اس سے کسی حلال جانور کا شکار کرے اور اسے کھا کر اپنی بھوک مٹائے، یا پھر اس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے جہاد میں کسی دشمنِ دین کو واصل جہنم کردے اور اجر و ثواب کا مستحق ہو یا پھر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی کا ناحق قتل کردے۔ اسی طرح موبائل کا استعمال اگر کوئی اپنی جائز تجارت میں کرے تو یہ اس کے لئے شرعاً درست ہے، اگر کوئی اس کا استعمال باطل کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کرے اور اسلام کی صحیح شکل و صورت لوگوں کے سامنے پیش کرے تو ایسا شخص عنداللہ اجرِ عظیم کا مستحق ہوگا، اور اگر کوئی اس کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے، فحاشی اور عریانیت کے مناظر دیکھنے کے لیے کرے تو بلاشبہ وہ گناہ گار ہوگا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ موبائل میں اپنی ذات کے اعتبار سے شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اس کا پورا دارومدار استعمال کرنے والے پر ہے۔ لہٰذا موبائل کا مثبت استعمال ہو بلکہ اس کا اسلامائزیشن کرلیا جائے اور اس میں اسلامی مواد قرآن، احادیث، دینی کتب، نعت، حمد، بیانات وغیرہ ڈاؤنلوڈ کرلیے جائیں اور اس سے استفادہ کرکے باطل کی سازشوں کو ملیامیٹ کردیا جائے۔

موبائل میں دیکھ کر قرآن مجید پڑھنا درست ہے، بلکہ اس میں دیکھ کر تلاوت سے بھی ان شاءاللہ وہی ثواب ملے گا جو مطبوعہ قرآن مجید میں دیکھ کر پڑھنے سے ملتا ہے، اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں جو قرآن ہوا کرتے تھے وہ پتھروں، پتوں، درختوں کی چھالوں اور کپڑوں پر لکھے جاتے تھے، جبکہ ہمارے زمانے میں جو قرآن مجید کے نسخے ہیں وہ کاغذ پر لکھے ہوئے ہیں، چنانچہ اس نظریے سے دیکھا جائے تو موجودہ قرآن مجید میں دیکھ کر پڑھنے سے بھی ثواب کم ہوجائے گا، لیکن اِس قرآن میں تلاوت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ ضرورت کے پیشِ نظر قرآن کریم کے نسخوں کی شکل میں تبدیلی ہوسکتی ہے، اور ہوئی ہے۔

موبائل میں قرآن شریف پڑھنے پر اعتراض علمائے عرب وعجم اور جمہور علماء امت کے موقف کے خلاف ہے، خصوصاً دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، ندوة العلماء لکھنؤ، جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد، وغیرہ کے فتاوی اور ان کی تحقیقات و تصریحات کے قطعاً خلاف ہے۔ زیر بحث مسئلے پر ہم ذیل میں چند اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں۔

ازہرِ ہند، دارالعلوم دیوبند
موبائل  کی میموری  میں قرآن کریم رکھنا ناجائز نہیں ہے، لیکن اس کا خیال ضروری ہے کہ قرآن  کی بے حرمتی نہ ہو، مثلاً جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کی آیات نظر آرہی ہوں اس وقت اسکرین کو بلاوضو ہاتھ نہ لگائیں، ہاتھ لگائے بغیر بلاوضو  پڑھ  سکتے ہیں، ایسے  موبائل کو بند کرکے باتھ روم  میں بھی لے جاسکتے ہیں، اور میموری  میں  ناجائز چیزیں مثلاً تصاویر اور فلمیں  وغیرہ رکھنے سے بھی احتراز لازم ہے۔ (جواب نمبر : 36400)

جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن
موبائل میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے، البتہ موبائل کی اسکرین پر اگر قرآن کریم  کھلا ہوا ہو تو اسکرین کو  وضو کے بغیر نہ چھوا جائے، اس کے علاوہ  موبائل کے دیگر حصوں کو  مختلف  اطراف  سے وضو کے بغیر چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (فتوی نمبر : 143908200419)

جامعہ قاسمیہ شاہی، مرادآباد
موبائل میں عریاں تصاویر دیکھنا اور گانا سننا بہرحال ناجائز اور حرام ہے، لیکن  موبائل  میں قرآن ٹیپ کرنا یا قرآن  کے الفاظ اُس  میں محفوظ کرنا، تاکہ بوقتِ ضرورت اُسے  پڑھا یا سُنا جاسکے، اُس  میں  شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔ (کتاب النوازل، 15/66، مکتبہ جبریل)

سوال نامہ میں جن حضرت جی کا ذکر کیا گیا ہے غالباً انہوں نے بھی اس قول سے رجوع کرلیا ہے، لیکن لاعلم معتقدین اب تک یہی باتیں دوہرا رہتے ہیں۔ نیز خود نظام الدین بنگلہ والی مسجد میں باقاعدہ جدید آلات سے آڈیو بیانات ریکارڈ ہوتے ہیں، اور انہیں یوٹیوب پر "دہلی مرکز" نامی چینل پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، جبکہ ایک عام انٹرنیٹ صارف بھی یہ جانتا ہے کہ یوٹیوب کیا بلا ہے؟ اس میں اچھے بُرے ہر طرح کے مواد موجود ہیں۔ لہٰذا جب یوٹیوب پر بیانات جس میں بلاشبہ قرآنی آیات بھی پڑھی جاتی ہیں اپلوڈ کیے جاسکتے ہیں اور اسے سُنا بھی جاسکتا ہے تو پھر موبائل میں دیکھ کر قرآن مجید پڑھنے میں کیسی قباحت ہے؟ یہ عجیب وغریب منطق تو ہماری سمجھ سے پَرے ہے۔

فی نفسہ اسکرین ٹچ اور ملٹی میڈیا موبائل  میں  شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ کیمرہ کا ناجائز استعمال یعنی ممنوعہ چیزوں کی تصویر کشی کرنا ناجائز ہے۔ لہٰذا سوال  نامہ میں آپ  نے جو بات ذکر کی ہے کہ جن کے جیب میں اسکرین ٹچ  موبائل ہوتا ہے ان کی نماز تقوے والی نہیں ہوتی اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ فقہاء نے صراحتاً لکھا ہے کہ ایسی تصویر جو نمازی کے پیچھے کی طرف یا اس کے پاؤں کے نیچے ہو، یا جیب اور غلاف کے اندر ہوتو ایسی صورت میں بھی نماز بلاکراہت درست ہوجاتی ہے۔ جبکہ موبائل کی اسکرین بند ہونے کی صورت میں تصویر کا کہیں نام ونشان ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسکرین ٹچ اور ملٹی میڈیا موبائل جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے والوں پر اعتراض فقہاء کرام کی تصریحات کے خلاف اور غلو فی الدین ہے جو شرعاً مذموم عمل ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ. فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنِ اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبُ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلم يزل عمر يراجعني فِيهِ حَتَّى شرح الله صَدْرِي لذَلِك وَرَأَيْت الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جمع الْقُرْآن قَالَ: قلت كَيفَ تَفْعَلُونَ شَيْئا لم يَفْعَله النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خير فَلم أزل أراجعه حَتَّى شرح الله صَدْرِي للَّذي شرح الله لَهُ صدر أبي بكر وَعمر. فَقُمْت فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَال حَتَّى وجدت من سُورَة التَّوْبَة آيَتَيْنِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ) حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ. فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاته ثمَّ عِنْد حَفْصَة۔ بخاری شریف، حدیث نمبر 2220)

کانت الصورۃ خلفہ أو تحت رجلیہ ففي شرح عتاب لا تکرہ الصلاۃ۔(فتح القدیر : ۱/۴۱۵)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (قولہ لا لمستتر بکیس او صرۃ) بان صلی ومعہ صرۃ او کیس فیہ دنانیر او دراہم فیہا صور صغار فلا تکرہ لاستتارہا بحر ومقتضآہ انہا لو کانت مکشوفۃ تکرہ الصلاۃ مع ان الصغیرہ لا تکرہ الصلاۃ معہا کما یأتی لکن یکرہ کراہۃ تنزیہ جعل الصورۃ فی البیت نہر۔ (ردالمحتار ہامش الدرالمختار :۴۷۹/۱، قبیل مطلب الکلام علی اتخاذ المسبحۃ، باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1441

جمعرات، 28 نومبر، 2019

نماز میں موبائل کی گھنٹی بند کرنے کا حکم

*نماز میں موبائل کی گھنٹی بند کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! نماز پڑھتے پڑھتے کچھ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ موبائل فون جیب سے نکال کر کال بند کرتے ہیں اور پھر جیب میں رکھ کر نماز پڑھنے لگتے ہیں؟ ایسا کرنے سے نماز پر کچھ اثر ہوتا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مصدق سر، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جیب سے باقاعدہ موبائل نکال کر سوئچ بند کرنا فقہ کی اصطلاح میں عملِ کثیر کہلائے گا۔ عملِ کثیر وہ ہے جسے دیکھ کر یہ سمجھا جائے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، عملِ کثیر سے نماز  فاسد ہو جاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ان لوگوں کی نماز فاسد ہوجائے گی، انہیں اپنی نماز کا اعادہ کرنا چاہیے۔

نماز کے دوران اگر موبائل بجنا شروع ہوجائے تو اسے عملِ قلیل یعنی جیب کے اوپر ہی سے بٹن دباکر بند کردیا جائے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو اور گھنٹی مسلسل بج رہی ہے یا میوزک اور گانے والی رنگ ٹون ہو تو نماز  توڑ کر کال کٹ کی جائے، تاکہ دیگر مصلیان کے خشوع وخضوع میں خلل واقع نہ ہو، اور مسجد کا تقدس بھی پامال نہ ہو، اس کے بعد دوبارہ نیت باندھ کر امام کی اقتدا کرے، جتنی نماز  مل جائے اسے پڑھ لے، اور جو چھوٹ جائے اس کو پورا کرلے۔ البتہ اگر گھنٹی سادی اور کم آواز میں ہو جس کی وجہ سے نمازیوں کو توحش اور ناقابل برداشت تشویش میں ابتلا نہ ہوتا ہو تو گھنٹی بجتی چھوڑکر نماز پوری کرلینے کی گنجائش ہے۔

ویفسدہا  کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا ما لا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا، وفي الشامیۃ: الثالث: الحرکات الثلات المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ (درمختار مع الشامي : ۲؍۲۸۵)

ویفسدہا العمل الکثیر لا القلیل والفاصل بینہما أن الکثیر ہو الذي لا یشک الناظر لفاعلہ أنہ لیس في الصلاۃ۔ (طحطاوي علی مراقی الفلاح ۳۲۲)

وصلاتہ مع مدافعۃ الأخبثین أو أحدہما أو لریح للنہی۔ (درمختار) قال فی الخزائن: سواء کان بعد شروعہٖ أو قبلہ فإن شغلہ قطعہا إن لم یخف فوت الوقت وإن أتمہا أثم الخ۔ وما ذکرہ من الإثم صرح بہ فی شرح المنیۃ وقال لأدائہا مع الکراہۃ التحریمیۃ بقی ما خشی فوت الجماعۃ ولایجد جماعۃ غیرہا فہل یقطعہا، کما یقطعہا إذا رایٰ علی ثوبہ نجاسۃ قدر الدرہم لیغسلہا أو لا کما إذا کانت النجاسۃ أقل من الدرہم، والصواب الأول لأن ترک سنۃ الجماعۃ أولی بالا تیان بالکراہۃ۔ (شامی : ۲؍۳۵۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 ربیع الاول 1441

بدھ، 27 نومبر، 2019

فجر کی اذان وجماعت کے وقت سے متعلق سوالات

*فجر کی اذان وجماعت کے وقت سے متعلق سوالات*

سوال :

امید کہ مفتی صاحب بخیر ہونگے۔
شہر کی ایک مسجد ہے جس میں سوائے مغرب اور ظہر کے ہر نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دے دی جاتی ہے، اندازاً اذان کے بعد سات سے دس منٹ تک کے وقفے کے بعد جماعت کھڑی کردی جاتی ہے۔ چونکہ فجر کی اذان صبح صادق ہوتے ہی دے دی جاتی ہے۔ اس کے بالکل قریب ہی دوسری مسجد سے بالالتزام صبح صادق کے پانچ منٹ بعد اذان  دی جاتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ دوسری مسجد میں یہ سلسلہ پہلی والی مسجد بننے کے پہلے سے جاری ہے، اب جس مسجد سے صبح صادق کے بعد اذان ہوتی ہے وہاں سے دوسری مسجد والوں کو یہ کہا گیا کہ آپ لوگ اپنی اذان کا وقت بڑھاکر اور دیر سے کردو، اس لیے کہ مصلی لوگ کہتے ہیں کہ ہم کون کون سی مسجد کی اذان کا جواب دیں؟
آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا محض کسی مسجد سے یہ سوچ کر کہ ہمارے یہاں سب سے پہلے نماز ہوگی تو مصلی زیادہ آئیں گے، اور اس کے لیے بالکل وقت ہوتے ہی اذان دینا درست ہے؟ پہلی  مسجد والوں کا دوسری مسجد والوں سے یہ کہنا کہ دیر سے اذان سے دو، یہ درست ہے؟ یا یہ کہ انکو خود صبح صادق کے پانچ منٹ کے بعد اذان دینا چاہیے؟ آپ سے قدرے تفصیل کے ساتھ سوال کا جواب دینے کی درخواست ہے۔
(المستفتی : امتیاز احمد، مالیگاؤں)
----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ اذان دینے کے بعد مؤذن و امام سمیت دیگر موجود مصلیان اطمینان وسکون سے چار رکعت سنت ادا کرلیں اور یہ وقفہ دس منٹ سے کم نہ رکھا جائے اسی طرح فجر کی اذان اور جماعت کے درمیان کم از کم سات منٹ کا وقفہ ہو تاکہ اذان و جماعت باوقار انداز میں ادا ہو، اس سے کم وقفہ رکھنے کی صورت میں ایک بھاگم بھاگ اور جلد بازی کا ماحول بنے گا، جو نماز کی روح کے منافی ہے۔ اور کسی مصلحت کے تحت یہ وقفہ شہر کی چند مساجد میں ہوتو ٹھیک ہے، تمام مساجد میں یہی معمول بنالینا قطعاً غیرمناسب ہوگا۔ عام طور پر شہر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں پندرہ منٹ اور فجر میں تیس منٹ کا وقفہ رکھا جاتا ہے یہی شریعت کے مزاج کے مطابق ہے۔ اور عوام کے لئے تو جتنی سہولت دی جائے کم ہے، لہٰذا سہولت پیدا کرنے میں اس کا خیال رکھا جائے کہ کسی خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ ہو۔

صبح  صادق  ہوتے ہی فجر کا وقت ہوجاتا ہے مگر صبح  صادق  کی  پہچان مشکل ہے اور تقویم میں بھی غلطی کا امکان ہے، گھڑیوں  کے  وقت میں بھی فرق ہوتا ہے، لہٰذا صبح  صادق  کے  لکھے ہوئے وقت کے احتیاطاً پانچ منٹ بعد اذان دی جائے، ارباب افتاء نے اپنے فتاویٰ میں یہی لکھا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ جان لیا جائے کہ اذان کا قولی یعنی زبان سے جواب دینا مستحب ہے، اور فعلی جواب دینا یعنی جماعت میں شریک ہونا واجب ہے، متعدد جگہوں سے اذان کی آواز سنائی دے تو پہلی اذان کا جواب دے دینا کافی ہے، ہر اذان کا جواب دینے کو ضروری سمجھنا درست نہیں۔ بلکہ پہلی اذان کا جواب دینا بھی مستحب ہے، واجب نہیں۔ لہٰذا مصلیان کا یہ کہنا کہ ہم کون کون سی مسجد کی اذان کا جواب دیں لاعلمی پر مبنی ہے، اور اسے بنیاد کر دوسری مسجد والوں کا پہلی مسجد والوں سے یہ کہنا کہ آپ تاخیر سے اذان دلوائیں، فضول اور احمقانہ مطالبہ ہے، جس کا پورا کرنا پہلی مسجد والوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ دوسری مسجد والوں کو اس سلسلے میں علماء کرام سے رہنمائی لینے کے بعد کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔

صبح صادق کے فوراً بعد اذان دینا خلافِ احتیاط ہے، اس سے بچنا چاہیے، مصلحت کے تحت کسی مسجد میں اول وقت میں جماعت کرنا درست ہے، لیکن اوپر جو ترتیب بتائی گئی ہے کہ صبح صادق کے پانچ منٹ کے بعد اذان ہو اور اس کے کم از کم سات منٹ کے بعد جماعت ہو یہ طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ کوئی قباحت باقی نہ رہے۔

أول وقت الفجر إذا طلع الفجر الثاني، وہو المعترض في الأفق، وآخر وقتہا ما لم تطلع الشمس۔ (ہدایۃ، کتاب الصلوۃ، باب المواقیت، ۱/ ۸۰) 

والأحوط في الصوم والعشاء اعتبار الأول وفي الفجر اعتبار الثاني۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/٥١)

وإذا تعدد الأذان یجیب الأول۔ (مراقي الفلاح : ۳۹ باب الأذان)

مطلقاً سواء کان أذان مسجده أم لا؛ لأنه حیث سمع الأذان ندبت له الإجابة، ثم لایتکرر علیه في الأصح ذکره الشهاب في شرح الشفاء۔ (الطحطاوي علی مراقي الفلاح : ۱۱۷، باب الأذان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الاول 1441

منگل، 26 نومبر، 2019

بیماری سے چھٹکارے کے لیے جانور ذبح کرنا

*بیماری سے چھٹکارے کے لیے جانور ذبح کرنا*

سوال :

اکثر دیکھا گیا ہے کہ کوئی شخص بیمار ہوتا ہے یا  اسکا آپریشن ہوتا ہے تو صدقہ کی نیت سے بکرا ذبح کیا جاتا ہے۔ تواسکا شریعت میں کیا حکم ہے؟ بحوالہ جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : محمد فوزان، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیماری  سے شفا یابی کے لیے جان کا بدلہ جان یا دفع مصائب سمجھ کر بکرا  ذبح  کرنا ناجائز اور حرام ہے، امیر و غریب کسی کے لیے بھی اس گوشت کا کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ میتہ اور مردار کے حکم  میں  ہے۔  دفع بلاء اور بیماری سے چھٹکارے کے لیے مطلق صدقہ کرنا چاہیے خواہ مال صدقہ کرے یا زندہ جانور ہی صدقہ کردے۔

ذبح  لقدوم الأمیر و نحوہ کواحد من العظماء یحرم لأنہ أہل بہ لغیر اللہ ولو ذکر اسم اللہ۔ (شامی، کتاب الذبائح، زکریا ۹/۴۴۹، کراچی ۶/۳۰۹)

والذبح  قدیکون للأکل فیکون مباحا أو مندوبا أو للأضحیۃ فیکون عبادۃ أو لقدوم أمیر فیکون حراما وتحتہ فی الحموی فتکون الذبیحۃ میتۃ۔ (الأشباہ مع الحموی، القاعدۃ الثانیۃ: الأمور بمقاصدہا ۱/۱۱۰،مکتبہ زکریا)
(مستفاد: ایضاح المسائل ۱۳۹، امداد الفتاویٰ ۳/۵۷۰، احسن الفتاویٰ ۱/۳۶۷/بحوالہ فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1441

حائضہ عورت کے احرام اور عمرہ کا مسئلہ

*حائضہ عورت کے احرام اور عمرہ کا مسئلہ*

سوال :

جناب مفتی صاحب! دریافت طلب امر یہ ہے کہ عورت عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہونے سے پہلے یا روانگی کے وقت یا روانہ ہونے کے بعد عذر شرعی میں مبتلا ہو جائے تو مکہ پہنچنے کے بعد عذر ختم ہونے پر دوبارہ احرام کہاں سے باندھے گی قیام گاہ سے یا پھر مسجد عائشہ سے؟ نیز یہ دوسرا احرام ہی اصل احرام مانا جائے گا یا پھر پہلے حالت عذر کی وجہ سے ٹوٹ جانے والے احرام کی قضاء؟ بہر صورت تفصیل وحوالے کے ساتھ جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : ابوعبدالله، جلگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عمرہ کے لئے روانگی سے پہلے اگر کسی عورت کو حیض آجائے تو وہ حیض کی حالت میں  احرام  باندھ سکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ غسل کرکے عمرہ  کی  نیت کرلے، اور تلبیہ پڑھ لے۔ ملحوظ رہے کہ یہ غسل غسلِ نظافت ہے جو احرام  باندھتے وقت  حالتِ  حیض  و نفاس  میں  بھی مستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو غسل کرنے کے لئے فرمایا تھا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کی  حدیث شریف  میں  ہے۔ لیکن اگر غسل کرنے کا موقع نہ ہو تو صرف وضو کرلے۔ غسل نہ کرنے  کی  وجہ سے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو احرام باندھنے کے بعد حیض آجائے تو ایسی عورت بھی مکہ مکرمہ پہنچ کر اپنی قیام گاہ پر رہے اور ممنوعات احرام سے بچتی رہے، جب ایام پورے ہوجائیں تب غسل کرکے قیام گاہ سے ہی ارکانِ عمرہ ادا کرنے کے لیے چلی جائے اس کے لیے مسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کا احرام باقی ہے اور یہی اس کا اصل احرام ہے۔ لہٰذا قضا اور دم کی بھی ضرورت نہیں۔

حتی اتینا ذا الحلیفة ولدت اسماء بنت عمیس محمد ابن أبی بکر فارسلت الی رسول الله صلی الله علیه وسلم کیف اصنع قال اغتسلی واستثفری بثوب و احرمی. (مسلم، رقم۲۱۳۴/ کتاب الحج فی باب حجة النبي صلی الله علیه وسلم)

فلو حاضت قبل الإحرام  اغتسلت و أحرمت، و شهدت جمیع المناسک إلا الطواف و السعي۔ ( غنیۃ الناسک ص ۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1441

پیر، 25 نومبر، 2019

منگنی کی شرعی حیثیت

*منگنی کی شرعی حیثیت*

سوال :

منگنی کسے کہتے ہیں، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منگنی کا رواج تھا؟ اگر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیا طریقہ بتایا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عربی زبان میں خِطبہ کے حقیقی معنی پیغامِ نکاح اور نکاح کی بات چیت کے ہیں، البتہ عُرف عام میں خِطبہ  کا  اطلاق  منگنی  پر انتہاء اور مآل کے اعتبار سے ہوتا ہے جس  کا  مطلب یہ ہے کہ اولاً پیغام دیا جاتا ہے پھر طرفین ایک دوسرے سے متعلق اطمینان کرلیتے ہیں اگر بات بن جائے تو وعدہ کرلیا جاتا ہے، یہی پیغام نکاح  نتیجۃً اور انتہاء وعدۂ نکاح یعنی  منگنی  ہے۔

معلوم ہوا کہ شریعتِ مطہرہ میں منگنی کسی تقریب کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت صرف وعدہٴ نکاح کی ہے۔ مطلب یہ کہ ایک طرف سے نکاح کا پیغام دیا جائے اور دوسری طرف اسے قبول کرلیا جائے تو منگنی ہوگئی۔

الفقہ الاسلامی اور المفصل کے مصنفین نے بھی خطبہ کے معنی پیغام نکاح  کے کئے ہیں اور ان  کا  خطبہ کو”مجرد وعد بالزواج لازواجا“ کہنے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ایک یہ کہ اگر کوئی عذر شرعی ہو تو خطبہ کو فسخ بھی کرسکتے ہیں کہ خِطبہ نتیجۃً محض وعدہ ہے نکاح  نہیں، دوسرا یہ کہ خِطبہ کی بنیاد پر لڑکی لڑکا ایک دوسرے کے حق میں محرم نہیں  بنتے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں۔

لہٰذا دونوں طرف کے چند ذمہ دار آدمیوں کی موجودگی میں بات پکی ہوجائے اور مہر اور دیگر ضروری اور اہم معاملات سب کے سامنے سب کے مشورہ سے طے ہوجائیں تو اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں کسی ناجائز امر کا ارتکاب نہ ہو مثلاً لڑکی لڑکے کا آپس میں بات چیت کرنا، ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا، مرد و زن کا اختلاط وغیرہ نہ ہوں۔

رہی بات دورِ نبوی میں منگنی کے رواج کی تو تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس کی کوئی صراحت نہیں ملی جس میں بیٹھ کر باقاعدہ تاریخ وغیرہ طے ہوئی ہو، ہاں  پیغامِ نکاح کے بعد آپس میں مشورہ کرنا، مہر وغیرہ متعین کرنا ملتا ہے۔

لمافی القاموس المحیط (۶۵/۱) الخطبۃ بکسر الخاء مصدر خطب، یقال خطب المرأۃ خطبۃ وخطبا، واختطبھا، اذا طلب ان یتزوجھا، واختطب القوم فلانا اذا دعوہ الی تزویج صاحبتھم۔

وفی المعجم الوسیط (۲۴۳): خطب الناس خطبا وخطبۃ: طلبھا للزواج ویقال خطبھا الی اھلھا: طلبھا منھم للزواج۔الخطبۃ طلب المرأۃ للزواج والمرأۃ المخطوبۃ۔

وفی لغات القرآن (۳۱۳/۱): خِطبۃ پیغام نکاح، منگنی، نکاح کی بات چیت کو خطبۃ کہتے ہیں۔

وفی المرقاۃ (۲۷۸/۶) کتاب النکاح: الخطبۃ منھیۃ اذاکانا راضیین وتعین الصداق۔

وفی المفصل فی احکام المرأۃ (۵۸/۶) الخطبۃ: حکمۃ تشریعھا: اما حکمۃ تشریعھا فھی اعطاء فرصۃ کافیۃ للمرأۃ واھلھا واولیائھا للسؤال عن الخاطب والتعرف علی ما یھم المرأۃ واھلھا واولیائھم معرفتہ من خصال الخاطب مثل تدینہ واخلاقہ وسیرتہ ونحو ذلک ۔۔۔ وفی الخطبۃ أیضا فرصۃ للخاطب لیعرف عن المرأۃ مالم یعرفہ عنھا قبل الخطبۃ۔

وفی الفقہ الاسلامی وادلتہ (۶۴۹۲/۹): معنی الخطبۃ ھی اظھار الرغبۃ فی الزواج بامرأۃ معینۃ ۔۔۔ فان وافقت المخطوبۃ او اھلھا فقد تمت الخطبۃبینھما وترتبت علیھا احکامھا وآثارھا الشرعیۃ ۔۔۔ الخطبۃ والوعد بالزواج، وقراءۃ الفاتحہ، وقبض المھر، وقبول الھدیۃ لا تکون زواجا۔

وفی الشامیۃ (۸/۳) کتاب النکاح: وتقدیم خطبۃ ۔۔۔ واما بکسرھا فی طلب التزوج۔
مستفاد : نجم الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1441