اتوار، 30 مئی، 2021

کیا گائے کا گوشت بیماری کا سبب ہے؟

سوال :

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گائے کا دودھ اور مکھن شفا بخش ہے، اور اس کا گوشت بیماری کا سبب بنتا ہے۔ رہنمائی فرمائیں مفتی صاحب کیا یہ روایت درست ہے؟
(المستفتی : حافظ عبدالملک، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گائے کے دودھ اور گوشت سے متعلق ایک روایت ملتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ :

عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ وَسُمْنَانِهَا، وَإِيَّاكُمْ وَلُحُومَهَا، فَإِنَّ أَلْبَانَهَا وسُمْنَانَهَا دَوَاءٌ وَشِفَاءُ، وَلُحُومَهَا دَاء۔
گائے کا دودھ اور مکھن کھایا کرو کیونکہ اس میں دوا اور شفاء ہے جبکہ گوشت کھانے سے اجتناب کیا کرو کیونکہ اس میں بیماری ہے۔

اس روایت کو امام حاکم اور البانی صاحب نے اگرچہ صحیح کہا ہے، لیکن یہ روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ سند کے لحاظ سے تو اس لیے کہ کسی سند پر صحت کا حکم لگانے میں امام حاکم کا تساہل اہل علم کے یہاں معروف ہے جبکہ اس سند میں ایک راوی سیف بن مسکین انتہائی کمزور ہے جیسا کہ ابن حبان اور دارقطنی نے بیان کیا ہے۔

عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ وَسُمْنَانِهَا، وَإِيَّاكُمْ وَلُحُومَهَا، فَإِنَّ أَلْبَانَهَا وسُمْنَانَهَا دَوَاءٌ وَشِفَاءُ، وَلُحُومَهَا دَاءٌ”.قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه۔

سَيْفُ بْنُ مِسْكِينٍ السُّلَمِيُّ الْبَصْرِيُّط :
قال ابن حبان فی “المجروحين” (1/3477): يأتي بالمقلوبات والأشياء الموضوعات، لا يحل الاحتجاج به لمخالفته الأثبات فى الروايات على قلتها.
وقال الدارقطني: ليس بالقوي۔

ابن جوزی رحمہ اللہ نے ایسی روایات سے متعلق ایک جامع بات ارشاد فرمائی ہے، :
اذا رأیت الحدیث یباین المعقول او یخالف المنقول او یناقض الاصول فاعلم انہ موضوع ۔
’’جب تو کسی حدیث کو دیکھے کہ وہ معقول کے خلاف ہے، یا منقول سے ٹکراتی ہے، یا اصول سے مناقض ہے تو جان لے کہ وہ موضوع (غیرمعتبر) روایت ہے‘‘۔ (جیسا کہ اس روایت سے متعلق آگے واضح ہوگا۔) ( تدریب الراوی : ۳۲۷)

البانی صاحب کے ہم مسلک ایک بڑے عالم شیخ ابن عثیمین سے جب اس روایت سے متعلق شیخ البانی کی تصحیح کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ غلطی سے پاک اور معصوم صرف اللہ کے نبی ہیں باقی ہر انسان سے غلطی ہوتی ہے اور یہ شیخ کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے۔

اس سلسلے میں جب ہم قرآنی آیات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال جانوروں میں گائے کا بھی ذکر فرمایا ہے : وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ۔ (انعام، آیت :06) نیز جہاں اللہ تعالٰی نے حلال جانوروں کے دودھ کو بطور نعمت ذکر فرمایا وہیں پر گوشت کے کھانے کو انعام کے طور پر ذکر فرمایا ہے : وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ۔ (نحل، آیت : 66) جس میں بلاشبہ گائے بھی شامل ہے۔ ذخیرہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی ہے۔

ضَحّٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِہِ بِالْبَقَرِ۔ (بخاری : ۲۹۴/مسلم : ۱۲۱۱/نسائی : ۲۹۰/ابن ماجہ : ۲۹۶۳)

درج بالا تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ روایت "گائے کا گوشت مضر صحت ہے" سند کے لحاظ سے درست نہیں، اور قرآنی آیات اور صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے۔ کیونکہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے بطور انعام ذکر فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کی قربانی فرمائی ہے اس کا مطلق نقصان دہ ہونا ممکن نہیں۔ لہٰذا اس روایت کا بیان کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی کا مزاج اور طبیعت اعتدال پر نہ ہو جس کی وجہ سے اطباء اسے گائے کے گوشت سے منع کریں تو ظاہر سی بات ہے اس سے اجتناب کیا جائے گا۔

نیز یہ روایت جس میں صرف دودھ کا ذکر ہے :
عَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ، فَإِنَّهَا ترُمُّ مِنْ كُلِّ الشَّجَرِ، وَهُو شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ۔ گائے کا دودھ پیا کرو کیونکہ یہ ہر درخت سے چرتی ہے، لہٰذا اس میں شفا ہے۔

یہ روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے صحیح ہے، نیز قرآنی حکم کے مطابق بھی ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔ (١)

١) إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ لمْ يُنزلْ داءً إلا وقدْ وضعَ لهُ شفاءً إلا الهَرَمَ فعليكمْ بألبانِ البقرِ فإنَّها تَرُمُّ مِنْ كلِّ الشجرِ۔
    الراوي: عبدالله بن مسعود
    المحدث: ابن عبدالبر
    المصدر:  التمهيد
    الصفحة أو الرقم:  5/285
    خلاصة حكم المحدث:  صحيح۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 شوال المکرم 1442

ہفتہ، 29 مئی، 2021

نفل روزے میں ماہواری آجائے؟


سوال :

مفتی صاحب ! نفل روزہ اگر حیض سے ٹوٹ جائے تو کیا اسکی قضا کرنا ہوگی؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : فیضان عابد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نفل نماز یا روزہ شروع کردینے کے بعد اگر توڑ دیا گیا تو بعد میں اس کی قضا واجب ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی عورت نے نفلی روزہ رکھ لیا، پھر صبح صادق کے بعد اسے حیض آجائے تو اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا۔ لہٰذا حیض ختم ہونے کے بعد میں کبھی بھی اس روزہ کی قضا کرنا واجب ہوگا۔

اذا حاضت الصائمۃ المتطوعۃ یجب القضاء فی اصح الروایتین کذا فی النہایۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۲۱۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1441

امام کی آن لائن اقتداء کرنے کا حکم

سوال :

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ خدمت اقدس میں ازحد ضروری مسئلہ جو شہر پونے میں فتنے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے یہ ہے کہ ایک ماہر تعلیم جو بہت بڑے کیمپس کے روح رواں ہے لاک ڈاؤن کے حالات میں "آن لائن نماز جمعہ اور عیدین" کیمپس کی مسجد سے بذریعہ فیس بک"امام کی اقتداء میں پڑھ بھی رہے ہیں اور پڑھوا بھی رہے ہیں۔
1) کیا مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگی؟ تفصیلی بتائیے!
2) وہ امام جو آن لائن نماز پڑھا رہا ہے اس کیلئے کیا حکم ہے؟
3) مذکورہ صورت میں کیا امام ومقتدی دونوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟
4) جو لوگ جان بوجھ کر دین میں نئی چیز پیدا کر رہے ہیں ان کیلئے کیا حکم ہے؟
اس مسئلہ کا سد باب کس طرح کیا جائے ؟ رہبری فرمائیں؟
آپ کی مخصوص توجہ ودعاؤں کا طلبگار
(المستفتی : حافظ محمد شعیب قاری محمد ادریس انصاری، بھاگیہ دے نگر، کونڈوہ خرد، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ نے ہر عبادت کے لیے کچھ شرائط مقرر کی ہیں، جس کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ وہ عبادت درست نہیں ہوتی، چنانچہ عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز ہے جسے اگر باجماعت ادا کیا جائے تو اس میں بھی چند بنیادی شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے، ورنہ نماز ادا ہی نہیں ہوگی۔

١) مقتدی کا مکان (نماز کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ) امام کے مکان سے مختلف نہ ہو، بلکہ دونوں کا مکان متحد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صلاۃ خوف جس میں باقاعدہ ایک دوسرے کو دیکھنا ممکن ہوتا ہے، اس میں بھی دور سے دیکھ کر ایک ساتھ جماعت کرانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مقتدیوں کو امام کے پاس باقاعدہ چل کر جانا پڑھتا ہے۔

٢) مقتدی اور امام ایک ہی وقت کی نماز پڑھ رہے ہوں۔

٣) امام کے کھڑے ہونے کی جگہ مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ سے آگے ہو۔

آن لائن امام کی اقتداء کی صورت میں چونکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت نہیں ہوتی، لہٰذا موجودہ حالات میں بھی اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ آن لائن امام کی اقتداء کرنے والوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، انہیں دوبارہ اپنی نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔

٢) امام صاحب کو چاہیے کہ حتی الامکان اس عمل سے روکنے کی کوشش کریں۔ شہر کے اکابر علماء کرام کی مدد سے اس فتنہ کے سدباب کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ اور خود مسجد سے اعلان بھی کردیں کہ جو لوگ اپنے گھروں میں یا آفس وغیرہ میں رہ کر آن لائن امام کی اقتداء کررہے ہیں ان کی نماز نہیں ہوگی، ان کی نماز ان کے ذمہ باقی رہ جائے گی۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب کریں۔

٣) امام صاحب اگر آن لائن اقتداء کا قائل نہ ہوں بلکہ ان کی مرضی کے بغیر ان کی اقتداء کی جارہی ہوتو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، ان کی اپنی نماز درست ہوتی ہے اور مسجد میں ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کی نماز بھی درست ہوگی۔

٤) جہاں تک ہمارے علم میں ہے قادیانی مذہب (جو کہ خارج اسلام ہے) کے علاوہ مسلمانوں میں کسی بھی مسلک کے ماننے والے آن لائن نماز کے قائل نہیں ہیں، لہٰذا یہ عمل بدعت سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ ایسا کرنے والوں کی نماز ہی نہیں ہوتی، نماز ان کے ذمہ باقی رہ جاتی ہے، پھر یہ عمل امت کے چودہ سو سالہ اجماع کے خلاف بھی ہے، کیونکہ آج تک اہل سنت والجماعت میں سے کوئی بھی مسلک اس کا قائل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ایک بڑا فتنہ کہلائے گا جس کے برپا کرنے والے سخت گناہ گار ہوں گے۔

شہر کے اکابر علماء اور دینی تنظیموں کو چاہیے کہ ایسے شخص سے بیٹھ کر بات کریں اور ان کے سامنے اس مسئلہ کو اچھے انداز سے بیان کریں اور انہیں اس فتنہ کی سنگینی سے آگاہ کریں، اللہ تعالیٰ سےامید ہے کہ یہ مسئلہ بغیر کسی سخت کارروائی کے حل ہوجائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کی اس فتنہ سمیت تمام چھوٹے بڑے فتنوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین

(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدى من سطح داره المتصلة بالمسجد لم يجز لاختلاف المكان درر وبحر وغيرهما وأقره المصنف لكن تعقبه في الشرنبلالية ونقل عن البرهان وغيره أن الصحيح اعتبار الاشتباه فقط. قلت: وفي الأشباه وزواهر الجواهر ومفتاح السعادة أنه الأصح. وفي النهر عن الزاد أنه اختيار جماعة من المتأخرين۔

(قوله: ولم يختلف المكان) أي مكان المقتدي والإمام. وحاصله أنه اشترط عدم الاشتباه وعدم اختلاف المكان، ومفهومه أنه لو وجد كل من الاشتباه والاختلاف أو أحدهما فقط منع الاقتداء، لكن المنع باختلاف المكان فقط فيه كلام يأتي (قوله: كمسجد وبيت) فإن المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء إلا إذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني. وفي التتارخانية عن المحيط: ذكر السرخسي إذا لم يكن على الحائط العريض باب ولا ثقب؛ ففي رواية يمنع لاشتباه حال الإمام، وفي رواية لا يمنع وعليه عمل الناس بمكة، فإن الإمام يقف في مقام إبراهيم، وبعض الناس وراء الكعبة من الجانب الآخر وبينهم وبين الإمام الكعبة ولم يمنعهم أحد من ذلك۔ (شامی : ١/٥٨٦)

والصغریٰ ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ: نیۃ المؤتم الاقتداء، واتحاد مکانہما، وصلا تہما، وصحۃ صلاۃ إمامہ، وعدم محاذاۃ إمرأۃ، عدم تقدمہ علیہ بعقبہ، وعلمہ بانتقالاتہ، وبحالہ من إقامۃ وسفر، ومشارکتہ فی الأرکان، وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا وفی الشرائط۔ (در مختار مع الشامی بیروت ۲؍۲۴۲- ۲۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1442

جمعہ، 28 مئی، 2021

مرد وعورت کا ہیرے کے زیورات اور انگوٹھی پہننا

سوال :

محترم مفتی صاحب! مرد اور عورت دونوں کے لیے ہیرے کے زیورات یا انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے؟ مفصل مدلل رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد راشد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کے لیے سونے چاندی اور دیگر دھاتوں کے ساتھ ساتھ ہیرے جواہرت کے زیورات بھی پہننا بلاکراہت درست ہے۔ البتہ مردوں کے لیے عورتوں سے مشابہت کی وجہ سے ہر قسم کے زیورات پہننا جائز نہیں ہے، خواہ وہ سونے چاندی یا دیگر دھاتوں یا پھر ہیرے جواہرات کے ہوں۔

انگوٹھی کا مسئلہ زیورات سے مختلف ہے۔ انگوٹھی کے سلسلے میں عورتوں کے لیے حکم یہ ہے کہ ان کے لیے صرف سونے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی انگوٹھی پہننا عورتوں کے لیے مکروہ وممنوع ہے۔ اسی طرح اگر انگوٹھی کا حلقہ ہیرے جواہرات کا ہوتو ایسی انگوٹھی پہننا بھی جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر انگوٹھی کا حلقہ سونے یا چاندی کا ہو اور اس کا نگینہ ہیرے جواہرات کا ہوتو اس کا پہننا بھی بلاکراہت درست ہے۔

مردوں کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی پہننا درست ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اس کا وزن ۴/ گرام ۳۷۴ ملی گرام سے زیادہ نہ ہو، اس کے علاوہ کسی اور دھات یا پتھر مثلاً ہیرے کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ یعنی انگوٹھی کا حلقہ ہیرے جواہرات کا ہو، لیکن اگر حلقہ ہیرے جواہرات کا نہیں بلکہ چاندی کا ہو اور اس کا نگینہ ہیرے جواہرات کا ہوتو مردوں کے لیے بھی ایسی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ البتہ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھنا بہتر ہے۔

عن عبد اﷲ بن بریدۃؓ، عن أبیہ، قال: إن رجلاً جاء إلی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم وعلیہ خاتم من حدید، فقال: مالي أری علیک حلیۃ أہل النار، فطرحہ، ثم جاء ہ وعلیہ خاتم من شبہ، فقال: مالي أجد منک ریح الأصنام، فطرحہ، قال:یا رسول اﷲ! من أي شئ أتخذہ؟ قال: من ورق ولاتتمہ مثقالا۔ ( سنن أبي داؤد، باب ماجاء في خاتم حدید، ۲/۵۸۰، رقم:۴۲۲۳)

ولایتختم إلا بالفضۃ لحصول الاستغناء بہا فیحرم بغیرہا کحجر، وتحتہ في الشامیۃ: فعلم أن التختم بالذہب والحدید، والصفر حرام (إلی قولہ) والتختم بالحدید، والصفر، والنحاس، والرصاص مکروہ للرجال، والنساء۔ (شامي، کتاب الکراہیۃ، فصل في اللبس، ۹/۵۱۷)

وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَتَّخِذَ خَاتَمَ حَدِيدٍ قَدْ لُوِيَ عَلَيْهِ فِضَّةٌ أَوْ أُلْبِسَ بِفِضَّةٍ حَتَّى لَا يُرَى كَذَا فِي الْمُحِيطِ ۔ (الفتاوى الہندیۃ، (٥/٣٣٥)

2) ویباح للنساء من حلي الذہب، والفضۃ، والجواہر کل ماجرت عادتہن یلبسہ مثل السوار والخلخال، والقرط، والخاتم وما یلبسہ علی وجوہہن۔ وفي اعناقہن، وأیدیہن، وأرجلہن، وآذانہن وغیرہ۔ (اعلاء السنن، ۱۷/ ۲۹۴)

وَلَا يَزِيدُ وَزْنُهُ عَلَى مِثْقَالٍ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ «اتَّخِذْهُ مِنْ وَرِقٍ وَلَا تَزِدْهُ عَلَى مِثْقَالٍ»۔ (البحر الرائق : ٨/٢١٧)

(وَالْعِبْرَةُ بِالْحَلْقَةِ) مِنْ الْفِضَّةِ (لَا بِالْفَصِّ) فَيَجُوزُ مِنْ حَجَرٍ وَعَقِيقٍ وَيَاقُوتٍ وَغَيْرِهَا۔ (شامی : ٦/٣٦٠)

نْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْطَنَعَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ وَجَعَلَ فَصَّهُ فِي بَطْنِ کَفِّهِ إِذَا لَبِسَهُ۔ (صحیح البخاری : ۵۸۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 شوال المکرم 1442

جمعرات، 27 مئی، 2021

دیگر انبیاء کرام کے ساتھ صلی اللہ علیہ و سلم لگانا

سوال :

ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کے لیے ﷺ استعمال کرسکتے ہیں؟
(المستفتی : راشد فیض، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ علیہ السلام یا علیہ الصلوۃ والسلام استعمال ہوتا ہے۔ معنی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی ہے دونوں کے معنی "ان پر درود وسلام ہو"کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ صلی اللہ علیہ و سلم بھی کہہ دیا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن ہر خاص وعام صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پیارے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہی استعمال کرتا ہے، ان کے علاوہ کسی اور نبی کے لیے استعمال کیا جائے تو سننے والا التباس اور شک وشبہ میں پڑ سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہہ دے کہ موسیٰ صلی اللہ علیہ و سلم تو سننے والا کنفیوز ہوجائے گا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ چل رہا ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا؟ لہٰذا جو دعائیہ کلمات جس طرح رائج ہیں انہیں اسی طرح استعمال کیا جائے۔

ولا یصلی علی غیر الأنبیاء ولا علی غیر الملائکۃ إلا بطریق التبع۔(تنویر الأبصار علی الدر المختار، کتاب الخنثیٰ / مسائل شتی ۶؍۷۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1442

بدھ، 26 مئی، 2021

عورت کا چھوٹی آستین کے کپڑوں میں نماز پڑھنا

سوال :

عورتوں کو ایسا کپڑا پہننا جس میں آستین کلائی تک نہ آئے یعنی چھوٹی ہو یا جالی والی ہو جس سے ہاتھ نظر آئے۔ شریعت کا کیا حکم ہے؟ نماز ہوگی یا نہیں؟
(المستفتی : شعیب فریدی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں عورت کا سوائے چہرہ، ہتھیلی اور قدم کے، پورے بدن کا کپڑے سے ڈھکا ہونا شرط ہے، لہٰذا ہاتھوں کو گٹے تک چھپانا ضروری ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کے لیے کہنیوں سے لے کر گٹوں کا تک کا حصہ ایک ستر کہلاتا ہے۔ جس کا ایک چوتھائی حصہ بھی نماز کے کسی رکن میں تین مرتبہ (رکوع یا سجدہ والی) تسبیح پڑھنے کے بقدر خود بخود کھل جائے یا آستین ایسی باریک ہو جس سے بدن صاف جھلکتا ہوتو نماز نہیں ہوگی۔ اور اگر شروع نماز میں یہ کیفیت ہو تو نماز شروع ہی نہ ہوگی۔ لہٰذا ایسی نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ اگر کوئی معذور اور مفلس عورت جس کے پاس کپڑے ہی نہ ہوں جس سے بدن چھپاسکے اس کا حکم دوسرا ہے۔

قال اللہ تعالیٰ :  یٰبني اٰدم قد أنزلنا علیکم لباساً یواري سواٰتکم وریشاً ولباس التقویٰ ذٰلک خیر۔ (الأعراف : ۲۶)

إذا کان الثوب رقیقاً بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرۃ لا یحصل بہ ستر العورۃ إذ لا ستر مع رؤیۃ لون البشرۃ۔ (حلبي کبیر : ۲۱۴)

أما لو کان غلیظاً لا یریٰ منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیاً فینبغي أن لا یمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر۔ (کبیري : ۲۱۴)

ویمنع کشف ربع عضو قدر أداء رکن بلا صنعہ۔ (درمختار) قال شارحہا: وذلک قدر ثلث تسبیحات الخ۔ قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل في الإنکشاف الحادث في أثناء الصلوٰۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقاً اتفاقاً بعد أن یکون المکشوف ربع العضو۔ (درمختار مع الشامي / باب شروط الصلاۃ، مطلب: في النظر إلی وجہ الأمرد ۲؍۷۴-۷۵ بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1442

منگل، 25 مئی، 2021

ماہواری کے ایام میں پیڈ کا استعمال اور اسے ضائع کرنے کا حکم

سوال :

خواتین کا حیض کے دوران پیڈ (sanitary pad/napkin) جو عموماً میڈیکل یا دوکان پر دستیاب ہوتا ہے، استعمال کرنا شرعاً کیسا ہے؟ بعض خواتین پیڈ استعمال کرنے کے بعد اسے دھو کر پھینکنے کی تلقین کرتی ہیں، بعض خواتین اس کا استعمال غلط قرار دیتی ہیں کیونکہ اس میں خون جم جاتا ہے۔ اس کے مقابلے کپڑے کا استعمال بتایا جاتا ہے جبکہ کپڑے کا استعمال آسان نہیں ہوتا بلکہ دماغ مستقل شک و شبہ میں مبتلا رہتا ہے، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ استعمال شدہ پیڈ کو کس طرح اور کہاں پھیکنا چاہیے؟ کیوں کہ بعض خواتین کا ماننا ہے کہ چونکہ پیڈ پر خون ہوتا ہے تو جن و شیاطین سے شر انگیزی کا امکان ہوتا ہے۔
(المستفتی : مصدق احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کے لئے حیض اور نفاس کے ایام میں اپنے خاص مقام پر کوئی ایسی چیز رکھنا سنت ہے جو کپڑوں کو ملوث ہونے سے بچائے رکھے، اب یہ کپڑا ہو، روئی ہو یا موجودہ دور میں خاص اسی مقصد سے بنائے گئے پیڈ ہوں، سب کا استعمال شرعاً جائز اور درست ہے۔

اب رہا ان کو ضائع کرنے کا مسئلہ تو اس سلسلے میں پیڈ کی بہ نسبت کپڑوں کا استعمال زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، بشرطیکہ کپڑوں کا استعمال کسی کے حق میں طبی نقطہ نظر سے نقصان دہ نہ ہو، کیونکہ کپڑوں کو دھوکر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے، ہر مرتبہ اسے پھینکنے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ پیڈ کو ہر مرتبہ پھینکنے کا مرحلہ ہے، جو بظاہر آسان نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی شک شبہ اور الجھن سے بچنے کی وجہ سے پیڈ استعمال کرے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اسے ضائع کرنے کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھے۔

حیض ونفاس میں استعمال کیے گئے پیڈ میں چونکہ خون لگا ہوتا ہے، اور خون انسانی جزو ہے جس کی کرامت اور ادب کا تقاضا ہے کہ اسے دفن کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے بال، ناخن اور ان کپڑوں کے دفن کرنے کو مستحب لکھا ہے۔ لیکن ہمارے زمانہ میں چونکہ پکے مکانات اور سڑکوں کی وجہ سے اسے انہیں دفن کرنا آسان نہیں ہے۔ لہٰذا تہذیب اور حیا کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کیری بیگ وغیرہ میں چھپاکر ایسی جگہوں پر پھینکا جائے جہاں عام لوگوں کی نگاہ نہ پڑے۔ انہیں کھلے عام کہیں بھی ڈال دینا بدتہذیبی اور بے حیائی کی بات ہے جو شرعاً بھی سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ پیڈ کو دھونے کی ضرورت نہیں۔ اس میں شریر جنات وشیاطین کی شر انگیزی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی احتیاطاً انہیں دھو کر پھینکے تو یہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

وضع الكرسف مستحب للبكر في الحيض وللثيب في كل حال وموضعه موضع البكارة ويكره في الفرج الداخل. اهـ. وفي غيره أنه سنة للثيب حالة الحيض مستحبة حالة الطهر ولو صلتا بغير كرسف جاز۔ (البحر الرائق : ١/٢٠٣)

عن أم سعد امرأة زید بن ثابت قالت سمعت رسول الله یأمربدفن الدم إذا احتجم۔ رواه الطبرانی فی الأوسط۔ (مجمع الزوائد)

یدفن أربع الظفروالشعروخرقة الحیض والدم کذا فی فتاوی عتابیة۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٩٦)

قال العلامۃ الحصکفیؒ : کل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ کشعر عانتہ وشعر رأسھا وعظم ذراع جرّۃ میتۃ وساقھا وقلامۃ زفر رجلھا دون یدھا وان النظر الٰی ملاء ۃ الاجنبیۃ بشھوۃ حرام۔ (شامی : ۶؍۳۷۱، کتاب الکراہیۃ، فصل فی النظر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1442