جمعہ، 7 مئی، 2021

قنوت نازلہ پڑھتے وقت ہاتھوں کو کہاں رکھے؟

سوال :

امام کے قنوتِ نازلہ پڑھتے وقت بعض مصلی ہاتھ اٹھا کر دعا میں آمین کہتے ہیں۔ ان کی نماز کا کیا حکم شرعی ہوگا احناف کے نزدیک۔ امام مسجد کی کیا ذمہ داری ہوگی؟ رہنمائی فرماکر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : محمد شرجیل، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فجر کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھتے وقت دعا کی طرح ہاتھ اٹھائے رکھنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے، طبرانی کی ایک روایت سے قنوت کے وقت ہاتھ اٹھائے رکھنے کی کراہت معلوم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں راجح اور مشہور قول ہاتھوں کو چھوڑے رکھنے کا ہے۔ لہٰذا اسی پر عمل ہونا چاہیے، تاہم اگر کسی مقتدی نے قنوتِ نازلہ کے وقت ہاتھوں کو دعا کی طرح اٹھاکر رکھا تب بھی اس کی نماز ادا ہوجائے گی، لیکن مکروہ ہوگی۔ امامِ مسجد کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو اچھے انداز میں صحیح مسئلہ سے آگاہ کردے، اگر مان جائیں تو ٹھیک ورنہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

عن ابن عمر رضي اللہ عنہ أرأیتم رفع أیدیکم في الصلاة واللہ إنہ لبدعة ما زاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ہذا قط، فرفع یدیہ حِیالَ منکبیہ الحدیث، اس حدیث کے تحت اعلاء السنن میں لکھا ہے: وأما قولہ: أرأیتم رفعکم أیدیکم في الصلاة أنہ لبدعة ففیہ دلیل علی کراہة إطالة رفع الیدین في القنوت کما ترفعان في الدعاء خارج الصلاة إلخ ۶/ ۹۱)

(ویاتی الماموم بقنوت الوتر لاالفجر بل یقف ساکتا علی الاظھر) مرسلا یدیہ قال الشامی تحت(قولہ مرسلایدیہ) لان الوضع سنۃ قیام طویل فیہ مسنون وھذا الذکر لیس بمسنون عندنا۔ (تنویر الابصار مع الدر : ۲/۸،۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رمضان المبارک 1442

2 تبصرے:

  1. آمین زورسےکہیاآھستاسے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ۔۔۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ چھوڑے رکھیں اور مقتدی آمین بہ اخفا (یعنی آہستہ) کہیں۔ (فتاویٰ دارالعلوم: ۴/۱۵۳)

      حذف کریں