ہفتہ، 29 مئی، 2021

امام کی آن لائن اقتداء کرنے کا حکم

سوال :

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ خدمت اقدس میں ازحد ضروری مسئلہ جو شہر پونے میں فتنے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے یہ ہے کہ ایک ماہر تعلیم جو بہت بڑے کیمپس کے روح رواں ہے لاک ڈاؤن کے حالات میں "آن لائن نماز جمعہ اور عیدین" کیمپس کی مسجد سے بذریعہ فیس بک"امام کی اقتداء میں پڑھ بھی رہے ہیں اور پڑھوا بھی رہے ہیں۔
1) کیا مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگی؟ تفصیلی بتائیے!
2) وہ امام جو آن لائن نماز پڑھا رہا ہے اس کیلئے کیا حکم ہے؟
3) مذکورہ صورت میں کیا امام ومقتدی دونوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟
4) جو لوگ جان بوجھ کر دین میں نئی چیز پیدا کر رہے ہیں ان کیلئے کیا حکم ہے؟
اس مسئلہ کا سد باب کس طرح کیا جائے ؟ رہبری فرمائیں؟
آپ کی مخصوص توجہ ودعاؤں کا طلبگار
(المستفتی : حافظ محمد شعیب قاری محمد ادریس انصاری، بھاگیہ دے نگر، کونڈوہ خرد، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ نے ہر عبادت کے لیے کچھ شرائط مقرر کی ہیں، جس کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ وہ عبادت درست نہیں ہوتی، چنانچہ عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز ہے جسے اگر باجماعت ادا کیا جائے تو اس میں بھی چند بنیادی شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے، ورنہ نماز ادا ہی نہیں ہوگی۔

١) مقتدی کا مکان (نماز کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ) امام کے مکان سے مختلف نہ ہو، بلکہ دونوں کا مکان متحد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صلاۃ خوف جس میں باقاعدہ ایک دوسرے کو دیکھنا ممکن ہوتا ہے، اس میں بھی دور سے دیکھ کر ایک ساتھ جماعت کرانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مقتدیوں کو امام کے پاس باقاعدہ چل کر جانا پڑھتا ہے۔

٢) مقتدی اور امام ایک ہی وقت کی نماز پڑھ رہے ہوں۔

٣) امام کے کھڑے ہونے کی جگہ مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ سے آگے ہو۔

آن لائن امام کی اقتداء کی صورت میں چونکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت نہیں ہوتی، لہٰذا موجودہ حالات میں بھی اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ آن لائن امام کی اقتداء کرنے والوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، انہیں دوبارہ اپنی نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔

٢) امام صاحب کو چاہیے کہ حتی الامکان اس عمل سے روکنے کی کوشش کریں۔ شہر کے اکابر علماء کرام کی مدد سے اس فتنہ کے سدباب کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں۔ اور خود مسجد سے اعلان بھی کردیں کہ جو لوگ اپنے گھروں میں یا آفس وغیرہ میں رہ کر آن لائن امام کی اقتداء کررہے ہیں ان کی نماز نہیں ہوگی، ان کی نماز ان کے ذمہ باقی رہ جائے گی۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب کریں۔

٣) امام صاحب اگر آن لائن اقتداء کا قائل نہ ہوں بلکہ ان کی مرضی کے بغیر ان کی اقتداء کی جارہی ہوتو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، ان کی اپنی نماز درست ہوتی ہے اور مسجد میں ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کی نماز بھی درست ہوگی۔

٤) جہاں تک ہمارے علم میں ہے قادیانی مذہب (جو کہ خارج اسلام ہے) کے علاوہ مسلمانوں میں کسی بھی مسلک کے ماننے والے آن لائن نماز کے قائل نہیں ہیں، لہٰذا یہ عمل بدعت سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ ایسا کرنے والوں کی نماز ہی نہیں ہوتی، نماز ان کے ذمہ باقی رہ جاتی ہے، پھر یہ عمل امت کے چودہ سو سالہ اجماع کے خلاف بھی ہے، کیونکہ آج تک اہل سنت والجماعت میں سے کوئی بھی مسلک اس کا قائل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ایک بڑا فتنہ کہلائے گا جس کے برپا کرنے والے سخت گناہ گار ہوں گے۔

شہر کے اکابر علماء اور دینی تنظیموں کو چاہیے کہ ایسے شخص سے بیٹھ کر بات کریں اور ان کے سامنے اس مسئلہ کو اچھے انداز سے بیان کریں اور انہیں اس فتنہ کی سنگینی سے آگاہ کریں، اللہ تعالیٰ سےامید ہے کہ یہ مسئلہ بغیر کسی سخت کارروائی کے حل ہوجائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کی اس فتنہ سمیت تمام چھوٹے بڑے فتنوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین

(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدى من سطح داره المتصلة بالمسجد لم يجز لاختلاف المكان درر وبحر وغيرهما وأقره المصنف لكن تعقبه في الشرنبلالية ونقل عن البرهان وغيره أن الصحيح اعتبار الاشتباه فقط. قلت: وفي الأشباه وزواهر الجواهر ومفتاح السعادة أنه الأصح. وفي النهر عن الزاد أنه اختيار جماعة من المتأخرين۔

(قوله: ولم يختلف المكان) أي مكان المقتدي والإمام. وحاصله أنه اشترط عدم الاشتباه وعدم اختلاف المكان، ومفهومه أنه لو وجد كل من الاشتباه والاختلاف أو أحدهما فقط منع الاقتداء، لكن المنع باختلاف المكان فقط فيه كلام يأتي (قوله: كمسجد وبيت) فإن المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء إلا إذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني. وفي التتارخانية عن المحيط: ذكر السرخسي إذا لم يكن على الحائط العريض باب ولا ثقب؛ ففي رواية يمنع لاشتباه حال الإمام، وفي رواية لا يمنع وعليه عمل الناس بمكة، فإن الإمام يقف في مقام إبراهيم، وبعض الناس وراء الكعبة من الجانب الآخر وبينهم وبين الإمام الكعبة ولم يمنعهم أحد من ذلك۔ (شامی : ١/٥٨٦)

والصغریٰ ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ: نیۃ المؤتم الاقتداء، واتحاد مکانہما، وصلا تہما، وصحۃ صلاۃ إمامہ، وعدم محاذاۃ إمرأۃ، عدم تقدمہ علیہ بعقبہ، وعلمہ بانتقالاتہ، وبحالہ من إقامۃ وسفر، ومشارکتہ فی الأرکان، وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا وفی الشرائط۔ (در مختار مع الشامی بیروت ۲؍۲۴۲- ۲۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1442

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ بہت خوب جواب ارسال فرمایا اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہر وقت قائم ودائم رہے محمد شاھد ادریسی غفرانی بیواں تحصیل فروزپور جھرکہ ضلع میوات ہریانہ انڈیا 9802427786

    جواب دیںحذف کریں