پیر، 24 مئی، 2021

کیا عورتوں کے لیے مہندی لگانا جائز نہیں؟

سوال :

مفتی صاحب گزشتہ روز میرے اہل خانہ ایک عالمہ سے ملاقات کے لئے گئے اُس وقت میرے گھر کی خواتین کے ہاتھوں میں مہندی لگی دیکھ کر وہ عالمہ کہنے لگیں کہ آپ لوگ مہندی کیوں لگائے ہیں؟ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مہندی کی خوشبو ناپسند ہے اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کبھی مہندی نہیں لگائی میرے گھر پر بھی کوئی مہندی نہیں لگاتا۔ لہٰذا آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : علاؤ الدین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کا ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگانا شرعاً جائز اور درست ہے۔ بلکہ شوہر کی خوشنودی کے لیے اگر لگائے تو یہ مستحب اور کار ثواب ہے۔ نیز چند احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں خواتین کا ہاتھوں پر مہندی لگانے کا رواج تھا۔

سب سے پہلے سوال نامہ میں جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے اس روایت کو مکمل طور پر ملاحظہ فرمالیں :

ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مہندی کے خضاب کے بارے میں دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن میں اسے اس لیے ناپسند کرتی ہوں کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بو کو ناپسند فرماتے تھے۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد  سر کی مہندی ہے۔ (١)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جس مہندی سے متعلق سوال کیا گیا تھا وہ سر میں لگانے والی مہندی ہے نہ کہ ہاتھوں میں لگانے والی مہندی ہے۔ لہٰذا اسے ہاتھوں میں لگانے والی مہندی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، (پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت بالوں میں لگانے والی جو مہندی ہوا کرتی تھیں اس کی بُو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو طبعی طور پسند نہ ہو۔ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بالوں میں مہندی نہیں لگایا کرتی تھیں۔ ورنہ اصلاً عورتوں کے لیے بھی ہاتھوں ہاتھوں، پیروں کے علاوہ بالوں میں بھی مہندی لگانا جائز ہے، البتہ کالے رنگ سے بچنا ضروری ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں کالے رنگ کے خضاب کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔) کیونکہ اس کے بعد دو روایات میں خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کا حکم دیا ہے۔ اگر عالمہ محترمہ مشکوٰۃ شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بعد کی دو احادیث مبارکہ ملاحظہ فرماتیں تو مسئلہ ان پر واضح ہوجاتا۔ وہ دونوں روایات درج ذیل ہیں :

حضرت  ہند بنت عتبہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بیعت کرلیجیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تجھے بیعت نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو بدل دے، گویا کہ وہ کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں۔  (مقصد یہ ہے کہ بالکل عورتوں کے ہاتھ لگتے ہی نہیں، کچھ مہندی یا زیور سے آراستہ کرو، تاکہ مردوں کے ہاتھ سے مشابہت ختم ہوجائے۔ (یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت میں عورتوں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے تھے، بلکہ الفاظ کہلوا دیتے تھے۔)(٢)

حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دن ایک عورت نے پردہ کے پیچھے سے اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کیا جس میں ایک پر چہ تھا جو کسی شخص نے رسول کریم ﷺ کو بھیجا تھا (یعنی اس عورت نے پردہ کے پیچھے سے اپنا ہاتھ نکال کر وہ پرچہ آنحضرت ﷺ کو دینا چاہا ) لیکن نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ کھینچ لیا یعنی وہ پر چہ نہیں لیا ) اور فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ہاتھ مرد کا ہے یا عورت کا ؟ اس عورت نے عرض کیا کہ "یہ ہاتھ عورت کا ہے" آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم عورت ہوتیں (یعنی تمہیں عورتوں کا طور طریقہ ملحوظ رکھنا آتا) تو اپنے ناخن کی رنگت کو مہندی کے ذریعہ ضرور تبدیل کرتیں۔ (٣)

ایک خاتون جنہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے، کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ میرے یہاں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا مہندی لگایا کرو، تم لوگ مہندی لگانا چھوڑ دیتی ہو اور تمہارے ہاتھ مردوں کے ہاتھ کی طرح ہوجاتے ہیں، میں نے اس کے بعد سے مہندی لگانا کبھی نہیں چھوڑی اور میں ایسا ہی کروں گی تاآنکہ اللہ سے جا ملوں ، راوی کہتے ہیں کہ وہ اسی سال کی عمر میں بھی مہندی لگایا کرتی تھیں۔ (٤)

مسئلہ ھذا میں مزید تشفی کے لیے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
عورتوں کے لیے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگانا جائز ہے اور اس میں ہر طرح کی ڈیزائننگ بھی درست ہے، البتہ ڈیزائننگ میں کسی جاندار یا مورتی وغیرہ کی تصویر نہ بنائی جائے۔ نیز عورتیں صرف شوہروں کے لیے مختلف ڈیزائننگ کی مہندی لگائیں، غیر مردوں کے لیے نہیں۔

احادیث سے عورتوں کے لیے ہاتھوں اور پیروں میں مطلق مہندی لگانے کا ثبوت ملتا ہے، خاص کسی ڈیزائن کا ثبوت نہیں ملتا، اس لیے حسب عرف، حدود شرع کی رعایت کے ساتھ ہر طرح کی ڈیزائننگ کی اجازت ہوگی۔ (رقم الفتوی : 69748)

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور عالمہ محترمہ کی بات ان کی ناقص معلومات پر مبنی ہے، لہٰذا انہیں کسی بھی مسئلہ پر مکمل مطالعہ کے بعد ہی کچھ کہنا چاہیے، ورنہ بغیر علم کے غلط مسئلہ بتانے کا وبال اور گناہ ان پر ہوگا۔ انہیں آئندہ اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔

١) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَکِ قَالَ حَدَّثَتْنِي کَرِيمَةُ بِنْتُ هَمَّامٍ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَسَأَلَتْهَا عَنْ خِضَابِ الْحِنَّائِ فَقَالَتْ لَا بَأْسَ بِهِ وَلَکِنْ أَکْرَهُهُ کَانَ حَبِيبِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَکْرَهُ رِيحَهُ قَالَ أَبُو دَاوُد تَعْنِي خِضَابَ شَعْرِ الرَّأْسِ۔ (ابوداؤد)

٢) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَتْنِي غِبْطَةُ بِنْتُ عَمْرٍو الْمُجَاشِعِيَّةُ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ الْحَسَنِ عَنْ جَدَّتِهَا عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ بَايِعْنِي قَالَ لَا أُبَايِعُکِ حَتَّی تُغَيِّرِي کَفَّيْکِ کَأَنَّهُمَا کَفَّا سَبُعٍ۔ (ابوداؤد)

٣) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصُّورِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا مُطِيعُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عِصْمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَوْمَتْ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَائِ سِتْرٍ بِيَدِهَا کِتَابٌ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَقَالَ مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ قَالَتْ بَلْ امْرَأَةٌ قَالَ لَوْ کُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَکِ يَعْنِي بِالْحِنَّائِ۔ (ابوداؤد)

٤) قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ جَدَّتِهِ عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِمْ قَالَ وَقَدْ كَانَتْ صَلَّتْ الْقِبْلَتَيْنِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي اخْتَضِبِي تَتْرُكُ إِحْدَاكُنَّ الْخِضَابَ حَتَّى تَكُونَ يَدُهَا كَيَدِ الرَّجُلِ قَالَتْ فَمَا تَرَكَتْ الْخِضَابَ حَتَّى لَقِيَتْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ كَانَتْ لَتَخْتَضِبُ وَإِنَّهَا لَابْنَةُ ثَمَانِينَ۔ (مسند احمد)

قاله القارىء (عن خضاب الحناء) بكسر وتشديد النون (لا بأس به) أي لا بأس بفعله فإنه مباح (كان حبيبي) وفي بعض النسخ حبي بكسر المهملة وتشديد الباء المكسورة وهما بمعنى (يكره ريحه) استدل الشافعي به على أن الحناء ليس بطيب لأنه كان يحب الطيب. وفيه أنه لا دلالة لاحتمال أن هذا النوع من الطيب لم يكن يلائم طبعه كما لا يلائم الزباد مثلا طبع البعض. كذا قال القارىء (قال أبو داود تعني خضاب شعر الرأس) لأن خضاب اليد لم يكن يكرهه صلى الله عليه وسلم كما في الحديثين الآتيين۔ (عون المعبود وحاشية ابن القيم : ١١/١٤٨)

قولہ:”ویباح لھا خضب یدیھا ورجلیھا“:أقول: ظاھرہ الإطلاق سواء کان الخضاب فیہ تماثیل أو لا، ولیس کذلک، قال فی الوجیز: ولا بأس بخضاب الید والرجل للنساء مالم یکن خضاب فیہ تماثیل۔ (غمز عیون البصائر شرح کتاب الأشباہ والنظائر، احکام الأنثی، ۳/۳۸۸)

وَلَا بَأْسَ لِلنِّسَاءِ بِخِضَابِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ مَا لَمْ يَكُنْ خِضَابٌ فِيهِ تَمَاثِيلُ وَيُكْرَهُ لِلرِّجَالِ وَالصِّبْيَانِ لِأَنَّ ذَلِكَ تَزَيُّنٌ وَهُوَ مُبَاحٌ لِلنِّسَاءِ دُونَ الرِّجَالِ وَلَا بَأْسَ بِخِضَابِ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ بِالْحِنَّاءِ وَالْوَشْمَةِ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ لِأَنَّ ذَلِكَ سَبَبٌ لِزِيَادَةِ الرَّغْبَةِ وَالْمَحَبَّةِ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ۔ (البحر الرائق : ٨/٢٠٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 شوال المکرم 1442

1 تبصرہ: