پیر، 3 مئی، 2021

سجدۂ تلاوت کے بعد سورہ فاتحہ پڑھ دے؟

سوال :

مفتی صاحب امام صاحب نے سجدۂ تلاوت کیا، پھر کھڑے ہو کر سورہ فاتحہ پڑھ دی (یعنی ایک رکعت میں دو دفعہ سورہ فاتحہ) اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا۔ تو کیا نماز کا اعادہ کیا جائے اور اس میں پڑھا ہوا قرآن کیا اسکو بھی دوہرایا جائے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک رکعت میں سورہ فاتحہ کی تکرار سے سجدۂ سہو اس وقت واجب ہوتا ہے جب ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھنے کے فوراً بعد دوبارہ سورہ فاتحہ پڑھ دی جائے۔ کیونکہ یہاں سورہ فاتحہ کے فوراً بعد کسی دوسری جگہ سے قرأت شروع کردینا واجب ہے۔ لہٰذا اس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد کہیں اور سے قرآن پڑھنا شروع کردیا جائے پھر اس کے بعد غلطی سے سورہ فاتحہ پڑھ دی جائے تو اس کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے :
سورت شروع کرنے سے پہلے اگر سورۂ فاتحہ کو مکرر پڑھ دے تب تو سجدۂ سہو ہوگا۔ کیونکہ فاتحہ کے بعد بلاتاخیر سورۃ شروع کرنا واجب تھا اس میں تاخیر ہوگئی اور واجب کی تاخیر سے سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے۔ لیکن صورتِ مسئولہ میں جب سورۂ فاتحہ کے بعد قرأت شروع کر چکا تھا تو سورت یعنی قرأت شروع کرنے میں تو تاخیر نہیں ہوئی فاتحہ کے فوراً بعد شروع کر دی اب اگلا فرض رکوع کا ہے اس کی ادائیگی قرأت کے بعد ہونی چاہئے مگر قرأت کی کوئی حد معین نہیں، جتنی چاہے قرأت کرے اور جس جس سورت کی چاہے قرأت کرے رکوع سے پہلے اس کو مختصر اور طویل قرأت کرنے کا اختیار ہے اس میں تطویل وتاخیر سے سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا۔ (٦/٢٣٥)

صورتِ مسئولہ میں چونکہ پہلی مرتبہ سورہ فاتحہ کے بعد قرأت شروع کردی گئی تھی پھر سجدۂ تلاوت ادا کرنے کے دوبارہ سورہ فاتحہ پڑھ دی گئی تو اس کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔ نماز بلاکراہت درست ہوجائے گی۔

قرأ فی صلاۃ الجمعۃ سورۃ السجدۃ وسجد لہا ثم قال وقرأ الفاتحۃ وقرأ: (تَتَجَافیٰ جُنُوْبُہُمْ) لا سہو علیہ لأنہ لم یقرأ الفاتحۃ مرتین علی الولاء۔ (شامی : ۲؍۳۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1442

3 تبصرے: