منگل، 11 مئی، 2021

نماز میں دونوں پیروں کے درمیان فاصلہ کتنا ہو؟

سوال :

زید نے جماعت میں وقت لگایا، اس درمیان اسے نماز کا طریقہ سیکھنے کا موقع ملا۔ اب وہ اس طریقہ سے نماز پڑھتا ہے بتایا گیا کہ جب نماز کے لیے بندہ کھڑا ہوگا تو اس حالت میں کہ پیر کے دونوں پنجوں کا رخ قبلے کی جانب ہوگا اور درمیانی فاصلہ کم سے کم چار انگشت اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت ہونا چاہیے۔ اب زید جب ایک بالشت سے کم فاصلہ کرتا ہے تو اسے ایک عجب سی الجھن ہوتی ہے اور جب زید پنجوں کا درمیانی فاصلہ دیڑھ سے دو بالشت کرتا ہے تو نماز میں اطمینان پاتا ہے۔ اب زید کیا کرے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں باقاعدہ اس بات کا کوئی حکم نہیں ہے کہ نماز کے اندر قیام کی حالت میں دونو‌ں پیروں کے درمیان کم از کم چار انگلیوں کا اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ رکھا جائے۔ بلکہ نماز کے  اندر خشوع و خضوع اور طمانینت کا حکم ہے اور یہ خشوع وخضوع اور یکسوئی اس وقت حاصل ہوگی جبکہ آدمی اپنی ہیئت پر کھڑا ہو  اور درمیانی بدن کا آدمی جب اپنی ہیئت پر کھڑا ہوتا ہے تو دونوں پیروں کے درمیان تقریباً چار انگلیوں کا فاصلہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء اور محدثین نے چار انگل کے بقدر فاصلہ کو افضل لکھا ہے۔ البتہ اگر کوئی زیادہ صحت مند اور موٹا آدمی اطمینان اور خشوع وخضوع کے لیے  چار انگل سے زیادہ فاصلہ پر کھڑا ہو تو اس لئے کہ وہی افضل ہے، لیکن اس طرح ٹانگیں چیر کر کھڑا ہو کہ صف میں بازو میں کھڑے ہوئے مصلی کے کندھے سے کندھا نہ مل سکے تو ایسا کرنا خلافِ سنت ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید درج بالا تفصیلات کے مطابق اپنا حال سمجھ کر اس پر عمل کرلے۔

ویسن تفریج القدمین في القیام قدر أربع أصابع؛ لأنہ أقرب إلي الخشوع (وتحتہ في الطحطاوي) نص علیہ في کتاب الأثر عن الإمام ولم یحک فیہ خلافًا۔ (طحطاوي علی المراقي، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا، ۲۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 رمضان المبارک 1442

2 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ مفتی صاحب ۔سائل کے سوال کے اندر ہر چھپے ہوئے سوال کو بھانپ کر آپ نے بہت اچھا جواب دیا جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں