منگل، 25 مئی، 2021

حرام آمدنی والے سے قرض لینے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! زید کو کاروبار کے لئے پیسے کی ضروت ہے۔ حامد نے اسے کاروبار کے لئے پیسہ دیا مگر مسئلہ یہ ہے کہ حامد فلمیں بنا کر پیسہ کماتا ہے تو کیا وہ پیسہ کاروبار میں استعمال کر سکتے ہیں؟
(المستفتی : محمد وقاص، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فلم جیسے ناجائز ذریعہ سے حاصل ہونے والی کمائی ناجائز اور حرام ہے جسے فقہاء کی اصطلاح میں "مِلکِ خبیث" کہا گیا ہے، جس کا استعمال حامد کے لیے جائز نہیں ہے، بلکہ اسے بلانیتِ ثواب غریبوں میں صدقہ کردینا واجب ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ زید کو علم ہے کہ قرض دینے والا (حامد) ناجائز آمدنی سے قرض دے رہا ہے تو اس سے قرض لینا کراہت سے خالی نہیں ہے، لہٰذا زید کو حامد کے حرام مال سے قرض نہیں لینا چاہیے تاکہ اس کے ناجائز عمل کی حوصلہ شکنی ہو۔

نوٹ : اگر کسی نے حرام آمدنی والے سے قرض لے لیا اور اسے کاروبار میں استعمال کرلیا تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کو حرام نہیں کہا جائے گا۔

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٦/٣٨٥)

وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا كَانَ عَيْنَ الْحَرَامِ لِيُوَافِقَ مَا نَقَلْنَاهُ، إذْ لَوْ اخْتَلَطَ بِحَيْثُ لَا يَتَمَيَّزُ يَمْلِكُهُ مِلْكًا خَبِيثًا، لَكِنْ لَا يَحِلُّ لَهُ التَّصَرُّفُ فِيهِ مَا لَمْ يُؤَدِّ بَدَلَهُ كَمَا حَقَقْنَاهُ قُبَيْلَ بَابِ زَكَاةِ الْمَالِ فَتَأَمَّلْ۔ (شامی : ٥/٩٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شوال المکرم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں