بدھ، 19 مئی، 2021

عدت کی مدت میں نکاح اور اس سے ہونے والی اولاد کا حکم

سوال :

عدت گزارنے والی عورت کا نکاح ہو گیا جبکہ وہ عورت ابھی حالت عدت میں ہے اس عورت کا نکاح ہوگا یا نہیں؟ اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اولادیں ہوں گی تو ان کی اولاد کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر کو علم ہو کہ اس عورت کی عدت مکمل نہیں ہوئی ہے اس کے باوجود جان بوجھ کر عدت کی مدت میں ہی اس سے نکاح کرلے تو یہ نکاح باطل ہوگا۔ اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات ناجائز اور حرام ہوں گے۔ اور اس سے ہونے والی اولاد کا نسب نہ پہلے شوہر سے ثابت ہوگا اور نہ ہی دوسرے سے ثابت ہوگا، بلکہ انہیں ان کی ماں کی طرف منسوب کردیا جائے گا، البتہ اگر شوہر اس کے عدت میں ہونے کا علم نہ ہوتو پھر یہ نکاح فاسد اور وطی بالشبہ کے حکم میں ہے، اس صورت میں اولاد ثابت النسب اور اس دوسرے شوہر سے انہیں منسوب کیا جائے گا۔ اگر دونوں میاں بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کا از سرِ نو نکاح ہو۔

أما منکوحۃ الغیر ومعتدتہ فالدخول فیہ لا یوجب العدۃإن علم أنہا للغیر؛ لأنہ لم یقل أحد بجوازہ، فلم ینعقد أصلاً قال فعلی ہذا یفرق بین فسادہ و باطلہ في العدۃ؛ ولہذا یجب الحد مع العلم بالحرمۃ لأنہ زنیٰ۔ (شامي : ۳/۱۳۲)

والظاہر أن المراد بالباطل ماوجودہ کعدمہ ولذا لا یثبت النسب ولا العدۃ في نکاح المحارم أیضاً۔ (شامي : ۳/۱۳۲)

أما إذا لم تکن ہناک شبہۃ تسقط الحد بأن کان عالما بالحرمۃ فلا یلحق بہ الولد عند الجمہور،وکذلک عند بعض مشائخ الحنفیۃ؛ لأنہ حیث وجب الحد فلا یثبت النسب۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۸/۱۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 شوال المکرم 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں