بدھ، 26 مئی، 2021

عورت کا چھوٹی آستین کے کپڑوں میں نماز پڑھنا

سوال :

عورتوں کو ایسا کپڑا پہننا جس میں آستین کلائی تک نہ آئے یعنی چھوٹی ہو یا جالی والی ہو جس سے ہاتھ نظر آئے۔ شریعت کا کیا حکم ہے؟ نماز ہوگی یا نہیں؟
(المستفتی : شعیب فریدی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں عورت کا سوائے چہرہ، ہتھیلی اور قدم کے، پورے بدن کا کپڑے سے ڈھکا ہونا شرط ہے، لہٰذا ہاتھوں کو گٹے تک چھپانا ضروری ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کے لیے کہنیوں سے لے کر گٹوں کا تک کا حصہ ایک ستر کہلاتا ہے۔ جس کا ایک چوتھائی حصہ بھی نماز کے کسی رکن میں تین مرتبہ (رکوع یا سجدہ والی) تسبیح پڑھنے کے بقدر خود بخود کھل جائے یا آستین ایسی باریک ہو جس سے بدن صاف جھلکتا ہوتو نماز نہیں ہوگی۔ اور اگر شروع نماز میں یہ کیفیت ہو تو نماز شروع ہی نہ ہوگی۔ لہٰذا ایسی نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ اگر کوئی معذور اور مفلس عورت جس کے پاس کپڑے ہی نہ ہوں جس سے بدن چھپاسکے اس کا حکم دوسرا ہے۔

قال اللہ تعالیٰ :  یٰبني اٰدم قد أنزلنا علیکم لباساً یواري سواٰتکم وریشاً ولباس التقویٰ ذٰلک خیر۔ (الأعراف : ۲۶)

إذا کان الثوب رقیقاً بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرۃ لا یحصل بہ ستر العورۃ إذ لا ستر مع رؤیۃ لون البشرۃ۔ (حلبي کبیر : ۲۱۴)

أما لو کان غلیظاً لا یریٰ منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیاً فینبغي أن لا یمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر۔ (کبیري : ۲۱۴)

ویمنع کشف ربع عضو قدر أداء رکن بلا صنعہ۔ (درمختار) قال شارحہا: وذلک قدر ثلث تسبیحات الخ۔ قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل في الإنکشاف الحادث في أثناء الصلوٰۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقاً اتفاقاً بعد أن یکون المکشوف ربع العضو۔ (درمختار مع الشامي / باب شروط الصلاۃ، مطلب: في النظر إلی وجہ الأمرد ۲؍۷۴-۷۵ بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 شوال المکرم 1442

2 تبصرے: