جمعرات، 13 مئی، 2021

عید کی نماز شروع ہونے کے بعد آنے والا اپنی نماز کیسے ادا کرے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کوئی شخص عیدین کی نماز میں تاخیر سے آئے تو وہ اپنی نماز کس طرح پوری کرے؟ مثلاً زائد تکبیرات ہوجانے کے بعد آئے یا ایک رکعت چھوٹ جائے تو کس طرح اپنی نماز مکمل کرے گا؟ مدلل جواب ارسال فرمائیں۔
(المستفتی : محمد آمین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عید کی نماز شروع ہوجانے کے بعد نماز میں شریک ہونے والوں کی مختلف صورتیں بن سکتی ہیں، جو درج ذیل ہیں۔

١) جو شخص امام کے ساتھ اس حال میں آکر شریک ہوا کہ امام پہلی رکعت کی زائد تکبیرات کہہ کر قرأت شروع کرچکا تھا تو یہ آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر تین زائد تکبیرات کہے گا جس میں ہاتھوں کو بھی اٹھائے گا۔

٢) اور اگر امام کو رکوع میں پایا تو اگر امام کے ساتھ رکوع چھوٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو تو ایسی صورت میں تکبیر تحریمہ کہہ کر کھڑے کھڑے زائد تکبیرات بھی کہے، پھر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائے۔

٣) اور اگر رکوع چھوٹ جانے کا خوف ہو تو تکبیر تحریمہ کہے اور رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے، اور رکوع کی حالت میں ہی زائد تکبیرات کہے اور رکوع میں اگر زائدتکبیرات اور رکوع کی تسبیحات دونوں ادا کرسکتا ہو تو دونوں کو جمع کرے، ورنہ تسبیحات کو چھوڑ کر صرف تکبیرات کہے گا، اور اس وقت ہاتھوں کو نہ اٹھائے۔

٤) اور اگر رکوع میں تکبیرات پوری ہونے سے پہلے امام نے سر اٹھالیا تو جتنی تکبیرات باقی رہ گئی ہوں وہ ساقط ہوجائیں گی۔

٥) جس شخص کی نماز عید میں پہلی رکعت چھوٹ گئی ہو وہ امام کے سلام پھیر دینے کے بعد جب کھڑا ہو تو اولاً ثناء،تعوذ، تسمیہ، فاتحہ اور سورت پڑھے، پھر تین زائد تکبیرات ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے کہے، اس کے بعد رکوع سجدہ کرکے بقیہ نماز پوری کرے گا۔

١) وإن أدرکہ بعد ما کبر الإمام الزوائد وشرع في القراء ۃ فإنہ یکبر تکبیرۃ الافتتاح ویأتي بالزائد برأي نفسہ لا برأي الإمام؛ لأنہ مسبوق۔ (بدائع الصنائع زکریا ۱؍۶۲۲)

٢) وإن أدرک الإمام في الرکوع فإن لم یخف فوت الرکوع مع الإمام یکبر للافتتاح قائماً ویأتي بالزوائد ثم یتابع الإمام في الرکوع۔ (بدائع الصنائع زکریا ۱؍۶۲۲)

٣) وإن خاف إن کبر یرفع الإمام رأسہ من الرکوع کبر للافتتاح وکبر للرکوع ورکع؛ لأنہ لو لم یرکع یفوتہ الرکوع فتفوتہ الرکعۃ بفوتہ وتبین أن التکبیرات أیضاً فاتتہ فیصیر بتحصیل التکبیرات مفوتاً لہا ولغیرہا من أرکان الرکعۃ۔ وہٰذا لا یجوز۔ ثم إذا رکع یکبر تکبیرات العید في الرکوع عند أبي حنیفۃؒ ومحمدؒ … ثم إن أمکنہ الجمع بین التکبیرات والتسبیحات جمع بینہما وإن لم یمکنہ الجمع بینہما، یأتي بالتکبیرات دون التسبیحات؛ لأن التکبیرات واجبۃ والتسبیحات سنۃ والاشتغال بالواجب أولیٰ۔ (بدائع الصنائع زکریا ۱؍۶۲۲)

٤) فإن رفع الإمام رأسہ من الرکوع قبل أن یتمہا رفع رأسہ؛ لأن متابعۃ الإمام واجبۃ وسقط عنہ ما بقي من التکبیرات۔ (بدائع الصنائع زکریا ۱؍۶۲۲، حلبي کبیر أشرفي ۵۷۲، شامي زکریا ۳؍۵۶)

٥) ولو سبق برکعۃ یقرأ ثم یکبر لئلا یتوالی التکبیر۔ (درمختار) أي لأنہ إذا کبر قبل القراء ۃ وقد کبر مع الإمام بعد القراءۃ لزم توالی التکبیرات في الرکعتین۔ قال في البحر: ولم یقل بہ أحدٌ من الصحابۃ ولو بدأ بالقراء ۃ یصیر فعلہ موافقاً لقول عليؓ فکان أولیٰ، کذا في المحیط، وہو مخصص لقولہم: إن المسبوق یقضي أول صلاتہ في حق الأذکار۔ (شامی زکریا ۳؍۵۶، البحر الرائق کوئٹہ ۲؍۱۶۱، بدائع الصنائع زکریا ۱؍۶۲۳، حلبی کبیر اشرفی ۵۷۲، طحطاوي علی المراقي ۵۳۴/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 رمضان المبارک 1442

4 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ... جزاکم اللہ خیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  3. 5)یعنی اب مسبوق دوسری رکعت کے جیسا فاتحہ اور سورت کے بعد پھر 3 زائد تکبر

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں