جمعرات، 30 مئی، 2019

معتکف کا مسجد کی شرعی حدود سے سر باہر نکالنا

*معتکف کا مسجد کی شرعی حدود سے سر باہر نکالنا*

سوال :

زید جس مسجد میں معتکف ہے اس کی ایک کھڑکی وضو خانہ کی طرف کھلتی ہے لہذا معتکف اس کھڑکی سے اپنا سر باہر نکال کر دھو سکتا ہے یا نہیں؟
رہنمائی فرمائیں ۔۔۔ جزاک اللہ
(المستفتی : محمد شجاع، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں زید معتکف کا کھڑکی سے باہر سر نکال کر دھونا درست ہے، اس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی کریم ﷺ معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے کنگھی کردیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔

عن عائشة قالت : كان النبي يصغي إلي رأسه وهو مجاور في المسجد، فأرجله وأنا حائض۔ (صحيح البخاري رقم 2028)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رمضان المبارک 1440

بدھ، 29 مئی، 2019

رمضان کے آخری جمعہ کی قضائے عمری؟

*رمضان کے آخری جمعہ کی قضائے عمری؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہے جس میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے آخری جمعہ کو چار رکعت نماز مخصوص طریقہ سے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور اس کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے اس نماز کے پڑھ لینے سے سات سو سال تک کی قضا نمازیں معاف ہوجائیں گی۔  آپ سے درخواست ہے کہ اس پوسٹ کی حقیقت کو واضح فرمادیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، اس جیسی کسی بھی روایت کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی طرف ثابت نہیں ہے۔ بلکہ جان بوجھ کر اس نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے۔

ملاعلی قاری رحمہ اللہ اپنی موضوعات کبیر میں لکھتے ہیں :
"جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یہ روایت یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ یہ اس اجماع کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔

شریعتِ مطہرہ کا بالکل واضح حکم ہے کہ جس شخص کی کوئی نماز فوت ہوجائے تو اس پر ضروری ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اس کی قضاء کی فکر کرے۔ جس کا ثبوت درج ذیل احادیثِ صحیحہ سے ملتا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں۔
من نسي صلاة فلیصل إذا ذکرہا لا کفارة لہا إلا ذلک۔ (کتاب المواقیت، باب/ ۳۷، رقم الحدیث/ ۵۹۷)

صحیح مسلم میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے :
جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر ) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20۔طہ : 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔
إذا رقد أحدکم عن الصلاة أو غفل عنہا، فلیصلّہا إذا ذکرہا فإن اللہ عز وجلّ یقول: أقم الصلاة لذکري: (آخر کتاب المساجد رقم الحدیث: ۱۵۶۹)

اور سنن نسائی میں ہے :
رسول کریم ﷺ سے دریافت فرمایا گیا ایسےشخص کے بارے میں جو کہ نماز سے سو جاتا ہے یا اس کی جانب سے وہ شخص غفلت میں پڑ جاتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کا کفارہ یہی ہے کہ جس وقت بھی اس کو یاد آئے تو وہ نماز پڑھ لے۔
سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الرجل یرقد عن الصلاة أو یغفل عنہا، قال کفارتہا أن یصلیہا إذا ذکرہا (۱/۱۷)

اِن احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے کہ جب کبھی انسان کوئی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے تو اس کے ذمے لازم ہے کہ یاد آنے پر، یا تنبہ ہونے پر اس کی قضاء کرے خواہ یہ نماز کسی طرح بھی چھوٹی ہو۔ اور یہ نمازیں کم ہوں یا زیادہ، بہرحال ان کی قضا لازم ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور نماز اور اس کی فضیلت بالکل غلط اور بدترین بدعت ہے، اس میں مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے فرض نمازوں کے ترک پر جو وعیدیں اور سخت ارشادات صحیح احادیث میں وارد ہوئے ہیں وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں گے اور لوگ نماز کے چھوڑنے پر جری اور بے خوف ہوجائیں گے۔ لہٰذا ایسی بے بنیاد اور گمراہ کن باتوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کی بھی فکر کریں۔

حدیث '' من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکلّ صلوٰۃ فاتتهُ فی عمرہ إلی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لأنہ مناقض للإجماع علی أن شیئا من العبادات لاتقومُ مقامَ فائتۃ سنوات۔ (الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعہ حدیث 953 ص 242)

فالأصلُ فیہ أن کل صلوٰۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوتِ وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا أو سھوا أو بسبب نومٍ ، وسواء کانت الفوائتُ قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (بحرالرائق، ٢/١٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رمضان المبارک 1440

منگل، 28 مئی، 2019

نمازِ وتر تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے

*نمازِ وتر تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین نماز وتر کے بارے میں کہ تین رکتیں ہیں یا ایک رکعت؟ ہمارے یہاں غیر مقلد کہتے ہیں کے ایک رکعت وتر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ اور ہم کہتے ہیں تین رکعتیں ہیں۔
تو اس مسئلہ میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ائمہ اربعہ کا جو اختلاف ہے اس کو بھی ذکر کریں آپ کی بہت بہت نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد عاکف، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ وتر میں ایک رکعت پر اکتفا کرنا صرف غیرمقلدین کے یہاں ہے۔ جمہور امت کے نزدیک وتر کی تین رکعتین ہی ہیں، اختلاف صرف اتنا ہے کہ یہ تین رکعت ایک سلام سے پڑھی جائیں یا دو سلام سے؟ احناف کا مسلک یہ ہے کہ ایک سلام سے تین رکعت پڑھنا واجب ہے۔

متعدد صحیح روایات سے اس کا ثبوت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر تین رکعت ایک سلام سے ادا فرمائی۔ چنانچہ نسائی شریف کی یہ صحیح روایت ہے جس میں حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سورہ اعلی دوسری رکعت میں سورہ کافرون اور تیسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا کرتے اور آخر میں ایک ہی مرتبہ سلام پھیرتے نیز سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ یہ کلمات ادا فرماتے سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ۔

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وتر کی نماز گھر ہی میں ادا کرتے تھے، لہٰذا اس عمل کو زیادہ دیکھنے والی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں وہ روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک سلام کے ساتھ تین رکعت وتر کی نماز پڑھتے تھے۔

أخبرنا یحیی بن موسیٰ قال: أخبرنا عبدالعزیز بن خالد، قال: حدثنا سعید بن أبي عروبۃ عن قتادۃ، عن عزرۃ، عن سعید بن عبدالرحمن بن أبزي، عن أبیہ، عن أبي بن کعب -رضي اﷲ عنہ- قال: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وفي الرکعۃ الثانیۃ بقل یا أیہا الکافرون، وفي الثالثۃ بقل ہو اﷲ أحد، ولا یسلم إلا فی آخرہن، ویقول: یعنی بعد التسلیم: سبحان الملک القدوس ثلاثا۔ (سنن نسائي، الصلاۃ، باب کیف الوتر بثلاث؟)

عن عائشة رضي اللہ عنھا أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر رواہ النسائي وسکت․ وفي آثار السنن إسنادہ صحیح أخرجہ الحاکم في المستدرک بلفظ: قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم في الرکعتین الأولین من الوتر وقال ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین۔ وأقرہ علیہ الذھبي فی تلخیصہ وقال علی شرطھما اھ وعنھا قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلث لا یسلم إلا في آخرھن أخرجہ الحاکم واستشھد بہ وقال: وھذا وتر أمیر الموٴمنین عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ نقلہ أہل المدینة ۔۔۔ وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ فھو حسن الخ۔ (إعلاء السنن : ۶ /۲۳-۲۴)

وہو ثلاث رکعاتٍ بتسلیمۃٍ کالمغرب الخ ولٰکنہ یقرأ فی کل رکعۃ منہ فاتحۃ الکتاب وسورۃً احتیاطاً الخ، ویکبر قبل رکوع ثالثتہٖرافعاً یدیہ الخ وقنت فیہ۔ (درمختار مع الشامی : ۲؍۴۴۱-۴۴۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رمضان المبارک 1440

پیر، 27 مئی، 2019

روزے کی حالت میں منہ سے خون نکلنے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! روزے کی حالت میں اگر کسی کے منہ سے یعنی دانتوں سے یا زبان، گال کٹ جانے سے خون نکلے تو روزہ پر کیا اثر ہوگا؟ مفصل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ارقم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : روزے کی حالت میں  دانتوں سے، یا زبان اور رخسار کا اندرونی حصہ کٹ جانے سے  خون نکلے تو خون اگر  تھوک پر غالب ہو اور روزہ دار اس کو نگل بھی لے تو اس  سے  روزہ  ٹوٹ جائے گا، اس صورت میں صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔ اور اگر تھوک  خون  پر غالب ہے تو روزہ  نہیں ٹوٹے گا۔ اور اگر دونوں برابر ہوں تو احتیاطاً روزہ  ٹوٹ جائے گا اور اسکی قضا لازم ہوگی۔ البتہ اگر خون  نکلنے کا تو علم ہو لیکن حلق میں  جانے یا نہ جانے کا پتہ نہ چلے تو اعتبار منہ  کے ذائقہ کا ہوگا ایسی صورت میں  خون کا ذائقہ پورے  منہ میں محسوس ہوتو روزہ  ٹوٹ جائے گا اور اگر پورے  منہ میں ذائقہ  محسوس نہ ہو جیسے ایک دو قطرے تو اس  سے  روزہ  نہیں ٹوٹے گا۔

(أوخرج الدم من بین أسنانہ ودخل حلقہ)یعنی ولم یصل إلی جوفہ أمااذاوصل فان غلب الدم أوتساویا فسد والا لا، إلا إذا وجدطعمہ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار، ۳۹۶/۲)

وفیہ ایضاً (۴۰۳/۲)… بخلاف نحو الغبار والقطرتین من دموعہ أوعرقہ وامافی الاکثر؛قولہ فان وجد الملوحۃ فی جمیع فمہ … فالأولی الاعتبار بوجدان الملوحۃ لصحیح الحس اذلاضرورۃ فی اکثر من ذلک ولذااعتبرفی الخانیۃ الوصول الی الحلق ووجہ الدفع ما قالہ فی النھرمن ان کلام الخلاصۃ ظاھر فی تعلیق الفطرعلی وجدان الملوحۃ فی جمیع الفم ولاشک ان القطرۃ والقطرتین لیستاکذالک۔
مستفاد : نجم الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 رمضان المبارک 1440

اتوار، 26 مئی، 2019

تراویح میں بسم اللہ جہراً پڑھنے کا حکم

*تراویح میں بسم اللہ جہراً پڑھنے کا حکم*

سوال :

تراویح میں قرآن شریف کی کسی سورۃ سے پہلے بسم اللہ بالجہر پڑھنا کیسا ہے؟ اگر بسم اللہ آواز سے پڑھنا بھول جائیں تو کیا حکم ہے؟ اور کیا اسے سورۂ اخلاص سے پہلے ہی پڑھنا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد سعدان، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تسمیہ یعنی "بسم اللہ الرحمن الرحیم" قرآنِ کریم کی ایک مستقل آیت ہے، جو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لئے نازل کی گئی ہے، لیکن یہ ہر سورۃ  کا جزء نہیں ہے، اس لئے احناف کے نزدیک نماز میں سورتوں کے شروع میں اسے آہستہ پڑھا جائے گا، احادیثِ مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔

البتہ تراویح میں امام کا کہیں بھی ایک جگہ سورۃ کے شروع میں زور سے پڑھ لینا ضروری ہے، اگر امام کسی جگہ بھی بسم اللہ کو جہراً نہ پڑھے، بلکہ کسی ایک جگہ سراً پڑھ لے تو امام کا ختم تو پورا ہوجائے گا، لیکن سامعین کے ختم میں ایک آیت کی کمی رہ جائے گی۔ نیز اسے صرف سورۂ اخلاص کے ساتھ جہراً پڑھنے کو ضروری سمجھنا بدعت کہلائے گا۔

وہی اٰیۃ واحدۃ من القرآن انزلت للفصل بین السور ولیست من الفاتحۃ ولا من کل سورۃ مختصراً۔ (طحطاوی : ۱/۱۴۱)

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيِّ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ أَبِي وَأَنَا أَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَلْفَ أَبِى بَكْرٍ وَخَلْفَ عُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ فَكَانُوا لَا يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَمْ أَرَ رَجُلًا قَطُّ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ مِنْهُ۔(رواہ الترمذی و احمد)

لو قرأ تمام القرآن فی التراویح ولم یقرأ البسملۃ فی ابتداء سورۃ من السور سواء ما فی النملۃ لم یخرج عن عہدۃ السنیۃ ولو قرأہا سراً خرج عن العہدۃ لکن لم یخرج المقتدون عن العہدۃ ۱ھ۔ (احکام القنطرۃ : ۲۷۳؍۱/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1440

ہفتہ، 25 مئی، 2019

زنا کے مرتکب شخص کی برائی لوگوں میں بیان کرنا


سوال :

ایک مسئلہ درپیش ہے رہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
زید سے ایک زنا کا ارتکاب ہوا۔ وہ ایسا گناہ ہے جس کو لوگ نا پسند کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ لوگوں کا اس گناہ کو بیان کرنا اور شوشل میڈیا پر اسکی کی تشہیر عیب جوئی کہلائے گی یا نہیں؟ اور لوگوں کو اس نیت سے بتانا کہ اس کی عزت پامال ہو۔ یا پھر اس نیت سے کہ لوگ اس سے دور رہیں۔ دونوں زمروں میں شرعی احکامات کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد محفوظ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ میں زنا کو کبیرہ گناہ بتایا گیا ہے، جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور بروز حشر ایسے لوگوں کا انجام انتہائی دردناک ہوگا۔ چنانچہ معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زناکاروں کو ہورہا عذاب دکھایا گیا کہ ایک جگہ تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے برہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ تنور کے کناروں کے قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور جب آگ نیچے ہوجاتی ہے تو سب لوگ اندر ہوجاتے ہیں۔

اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں زید اپنے اس قبیح و شنیع فعل کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوا ہے، لیکن ہمارے یہاں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے، اس لئے اس پر سنگسار کرنے یا کوڑے مارنے کی سزا عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔ تاہم اگر ملکی قانون کے اعتبار سے ایسا شخص سزا کا مستحق ہوتو اسے سزا دلائی جاسکتی ہے۔

البتہ اس کے علاوہ اس کے گناہ کو لوگوں میں بیان کرنا اور سوشل میڈیا پر نام بنام اسکی تشہیر کرنا شرعاً درست نہیں ہے، شریعتِ کاملہ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے عیوب پر نظر رکھے، اور اس کے عیوب اور غلطیوں کو جان لینے کے بعد لوگوں کے سامنے بیان کرکے اُسے ذلیل و رسوا کرے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد ہے کہ جو شخص مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی عیب پوشی کریں گے، اور جو شخص مسلمان کی پردہ دری یعنی اس کے عیوب کو لوگوں میں بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ دری کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے گھر میں (چھپ کر) کوئی عیب کرتا ہے تب بھی اس کو فضیحت کرتے ہیں۔

لہٰذا اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کر کے اور برسر عام اچھال کے اسے شرمندہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ اللہ کا معاملہ ہے وہ اگر چاہے گا تو اسے دنیا ہی میں یا آخرت میں سزا دے دے گا ورنہ اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے گا۔

آج ہم اور آپ گناہوں سے بچے ہوئے ہیں یا اللہ تعالٰی نے ہمارے ساتھ ستاری کا معاملہ کیا ہوا ہے تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم ہے، چنانچہ ایسے لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کل کو ہمارے عیوب لوگوں پر ظاہر ہوگئے اور لوگوں میں بیان کیے جانے لگے تب کیا ہوگا؟ اسی طرح اس نیت سے بھی لوگوں میں اس کی برائی بیان کرنا درست نہیں ہے کہ لوگ اس سے دور رہیں، کیونکہ ہمیں برائیوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے، ناکہ ایسے شخص سے ہمیشہ کے لیے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر گناہ گار سچی پکی توبہ کرلے تو وہ گویا ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔

قال اللہ تعالٰی : الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ۔ (سورۃ النور : جزء آیت۲)

أخرج البیہقي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما حدیثا فیہ … قال: کان الرجل إذا زنی أو أذی في التعبیر وضرب النعال فأنزل اللّٰہ عزوجل بعد ہٰذا: الزانیۃ والزاني فاجلدوا کل رجما في سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہٰذا سبیلہما الذي الذي جعل اللّٰہ لہما۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحدود / باب ما یستدل بہ الخ ۱۲؍۴۱۶ رقم: ۱۷۳۸۸)

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ستر عورۃ أخیہ المسلم ستر اللّٰہ عورتہ یوم القیامۃ، ومن کشف عورۃ أخیہ المسلم کشف اللّٰہ عورتہ حتی یَفضحَہ بہا في بیتہ۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب الحدود / باب الستر علی المؤمن ودفع الحدود بالشبہات ۱؍۱۸۳ رقم: ۲۵۴۶)

قال اللہ تعالی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 رمضان المبارک 1440

جمعہ، 24 مئی، 2019

خواتین پر عیدین کی نماز کا حکم

*خواتین پر عیدین کی نماز کا حکم*

سوال :

کیا عیدین کی نماز عورتوں پر واجب ہے؟ کیا عیدین کے دن شکرانہ کے طور پر عورت اپنے  گھر میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں پر چونکہ باجماعت نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے، اسی وجہ سے جمعہ اور عیدین کی نماز بھی اُن پر واجب نہیں، البتہ عید کا دن خوشی و مسرت کا دن ہے، لہٰذا اگر چاہیں تو عیدگاہ یا مساجد میں عید کی نماز ہوجانے کے بعد انفرادی طور پر اپنے گھروں میں بطور شکرانہ نفل نماز پڑھ سکتی ہیں۔ لیکن اس نماز کو سنت نہ سمجھا جائے۔

عن نافع عن ابن عمر: أنہ کان لا یخرج نساء ’ في العیدین، وفي روایۃ عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ: أنہ کان لا یدع امرأۃ تخرج إلی فطر و لا أضحی۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ : ۴؍۲۳۴)

ولا تجب الجمعۃ علی مسافر ولا امرأۃ … وتجب صلاۃ العید علی من تجب علیہ صلوٰۃ الجمعۃ۔ (ہدایۃ : ۱؍۱۶۹-۱۷۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رمضان المبارک 1440

تکبیراتِ انتقالیہ کہنے کا حکم

*تکبیراتِ انتقالیہ کہنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا مقتدیوں کے لیے تکبیرات انتقالیہ  کہنا واجب ہے؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے وقت تکبیراتِ انتقالیہ یعنی اللہ اکبر کہنا امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے مسنون ہے، واجب نہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے کوئی تکبیر فوت ہوجائے تو اس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔ البتہ قصداً ترک کرنا خلافِ سنت ہے۔ اسی طرح امام کے لیے سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی کے لیے ربنا لک الحمد اور منفرد کے لیے دونوں کہنا مسنون ہیں، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مواظبت فرمائی ہے، اور پوری امت کا اس پر عمل رہا ہے۔

وثانی عشرہا التکبیرات التي یؤتی بہا فی خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع منہ والنہوض من السجود أو القعود إلی القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہی مشتملۃٌ علی ست سنن کما تری۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۸۳)

عن أبي موسیٰ الأشعري وأبي ہریرۃؓ عن النبي ﷺ أنہ قال: إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ فإذا کبر فکبروا… وإذا قال: سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا: ربنا لک الحمد ۔(طحطاوی :۱؍۲۲۰)

ولایجب السجود إلا بترک واجب - إلی قولہ - ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلوۃ العید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۲۶)

ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساءۃ لو عامدا ۔(الدر المختار، ۱/۳۱۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رمضان المبارک 1440

جمعرات، 23 مئی، 2019

صدقۂ فطر سے متعلق احکامات

سوال :

1) صدقۂ عید الفطر ادا کرنا کن لوگوں پر واجب ہے؟
2) اور صدقۂ عید الفطرکن لوگوں کو دینے سے ادا ہوگا؟
3) فطرہ کی کیا مقدار ہے؟
4) فطرہ میں کون سی چیز (اشیاء) دینا افضل ہے؟
5) صدقۂ فطر کب ادا کرنا چاہیے؟
(المستفتی : حافظ سفیان ملی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس شخص کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، سامان خورد ونوش، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ کرایہ کے مکانات، زمین، رکھے ہوئے کپڑے، سونا، چاندی یا رقم اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی (موجودہ تولے کے اعتبار سے باسٹھ تولہ، جس کی قیمت امسال رمضان المبارک 1445 میں تقریباً 50000 بنتی ہے) کو پہنچ جائے تو اس شخص پر عید الفطر کے دن صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے واجب ہونے میں کچھ فرق ہے، زکوٰۃ میں مال نامی ہونا لازمی ہے، جبکہ صدقۂ فطر میں یہ ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا وجوب سال گذرنے کے بعد ہوتا ہے، صدقۂ فطر فوراً واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ اس معاملہ میں زکوٰۃ اور صدقۂ فطر میں یکسانیت ہے کہ یہ مال قرض اور حاجت اصلی سے زائد ہونا چاہئے، ورنہ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر واجب نہ ہوگا۔

تجب علی حر مسلم مکلف مالک لنصاب او قیمتہ وان لم یحل علیہ الحول۔ (طحطاوی۳۹۴، تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۴۵۳، ہدایۃ ۱؍۲۰۸)

2) جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، صدقۂ فطر کا مصرف بھی یہی لوگ ہیں۔

ومصرف ہٰذہ الصدقۃ ما ہو مصرف الزکوٰۃ، کذا فی الخلاصۃ۔ (ہندیۃ ۱؍۱۹۴)

3) صدقۂ  فطر کی مقدار ایک صاع  کھجور، کشمش، جو یا نصف صاع  گیہوں ہے۔ نصف صاع کی مقدار موجودہ اوزان کے اعتبار سے ایک کلو ۵۷۴؍ گرام ۶۴۰؍ ملی گرام ہوتی ہے۔ لہٰذا احتیاطاً اور راؤنڈ فگر کے حساب سے فی نفر پونے دو کلو گیہوں اور اگر کھجور یا کشمش سے صدقۂ فطر نکالا جائے تو احتیاطاً فی نفر سوا تین کلو کھجور، کشمش یا اس کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔

وھی نصف صاع من بر او دقیقہ او سویقہ او صاع تمر او زبیب او شعیر۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ۳۹۵)

ان الصاع من الزبیب منصوص علیہ فی الحدیث الصحیح فلا تعتبر فیہ القیمۃ۔ (شامی زکریا ۳؍۳۱۹، مستفاد: ایضاح المسائل ۹۸)

4) فی زمانہ نصف صاع  گیہوں کے اعتبار سے ایک صدقۂ فطر کی مقدار بہت معمولی ہوتی ہے، جو بڑے مال داروں کے لئے کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رکھتی، اس لئے ایسے لکھ پتی اور کروڑ پتی سرمایہ دار حضرات کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لئے نصف صاع گیہوں کی قیمت لگانے کے بجائے ایک صاع (تین کلو ڈیڑھ سو گرام) کھجور یا کشمش کا حساب لگایا کریں، اس میں ان کو ثواب زیادہ ملے گا اور فقراء کانفع زیادہ ہوگا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : پیغمبر علیہ السلام نے ایک صاع کھجور یا جو یاآدھا صاع گیہوں کا صدقہ ضروری قرار دیا ہے، جو ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر لازم ہے، لیکن جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ وہاں تشریف لائے اور یہ دیکھاکہ گیہوں کا بازاری بھاؤ سستا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر وسعت فرمائی ہے، اس لئے اگر تم صدقۂ فطر ہر چیز کا ایک صاع کے حساب سے نکالو تو زیادہ بہتر ہے۔ (ابوداؤد شریف۱؍۲۲۹ حدیث: ۱۶۲۲)

اس سے معلوم ہواکہ وسعت رکھنے والے صاحبِ حیثیت افراد کو ایک صاع کھجور یا کشمش کے اعتبار سے صدقۂ فطر نکالنا چاہیے۔

قال فی البذل: قولہ صاعاً من کل شیئٍ ای من الحنطۃ وغیرہا لکان احسن۔ (بذل المجہود بیروت ۶؍۴۵۴)

5) افضل اور بہتر یہ ہے کہ عیدالفطر کی نماز سے پہلے بلکہ رات میں ہی  صدقۂ فطر ادا کردیا جائے، اس لئے کہ عید کی نماز کے بعد ادا کرنے میں صدقۂ فطر کا ایک مقصد غرباء و مساکین کی عید کی تیاری میں تعاون بھی ہے جو بعد میں ادا کرنے سے فوت ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس وقت ادا نہ کیا تو  بعد  میں جب چاہے ادا کرسکتا ہے، اور جب بھی ادا کرے گا وہ ادا ہی کہلائے گا، اس کو قضاء نہیں کہا جائے گا۔ نیز صدقۂ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کردینا بلا کراہت درست ہے۔

ولا تسقط صدقۃ الفطر بالتاخیر وان طال وکان مؤدیاً لا قاضیاً۔ (مجمع الانہر ۱؍۲۲۸، بدائع الصنائع ۲؍۲۰۷،البحر الرائق زکریا ۲؍۴۴۵)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رمضان المبارک 1440